سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 17
وادی گنگا کی فتح
27ستمبر1018ءکو محمود غزنوی سے وادی گنگا کی فتح کی غرض سے چلا۔
2دسمبر1018ءکو اس نے دریائے جمنا کو عبور کیا اور بڑی تیزی سے پوری وادی کو فتح کرلیا جس میں برن(بلند شہر)‘مہابن(متھرا) کا قلعہ‘متھرا شہر اور قنوج اہم مقامات تھے۔ برن(بلند شہر) کا راجہ ہردت دس ہزار جوانوں کے ساتھ قلعے سے باہر نکل کر آیا اور محمود غزنوی سے مل کر ان سب نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ محمود غزنوی‘بلند شہر کو چھیڑے بغیر آگے قلعہ مہابن کو چلا گیا۔ مہا بن کے راجہ کل چند کو شکست ہوئی تو اس نے بیوی بچوں کو قتل کرکے خود کشی کرلی۔ اس کے بعد وہ جمنا پار کرکے شہر متھرا پہنچا جو کرشن واسودیو(کرشن بھگوان)کی جنم بھومی تھا۔ یہ ایک عظیم الشان شہر تھا جو بلند و بالا عمارتوں اور فن کے تعمیرانی شاہکاروں سے بھرا ہوا تھا۔سلطان محمود غزنوی متھرا کی ان بے شمار مذہنی عمارتوں کے فن تعمیر سے بے حد متاثر ہوا لیکن ان کے گرانے سے اپنے فوجیوں کو روکنے سے باز رہا۔ متھرا شہر میں نہت زیادہ غارت گری‘لوٹ مار اور آتشزنی کی گئی‘وہاں سے واپس آئے ہوئے منج‘امنی اور سرس وا کے قلعوں کو بھی فتح کرتا گیا۔ قلعہ میرٹ والوں نے دو لاکھ پچاس ہزار روپے اور تیس ہاتھی پیش کئے۔ قلعہ مہاجن کے راجہ گل چند نے بھاگ کر جان بجانے کی کوشش کی لیکن غزنوی فوج نے اسے آ لیا تو اس نے خنجر سے پہلے اپنی بیوی اور بیٹے کے سر کاٹ دیئے پھر خودکشی کرلی۔ یہاں سے بہت سا مال و دولت اور اسّی ہاتھی ملے۔ متھرا کے بارے میں سلطان محمود غزنوی نے اپنے امیرون کو ایک خط لکھا تھا جس میں وہ کہتا ہے:
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 16 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
”اس شہر میں ایک ہزار بلند ترین محل ہیں جن میں سے زیادہ ترسنگ
مرمر کے بنے ہوئے ہیں۔اور مندر تو اتنی تعداد میںہیں کہ میں انہیں
توڑتے توڑتے تھک گیا ہوں۔ لیکن ان کا شمار نہیںکر سکا۔ اگر کوئی
اس قسم کی عمارت بنا چاہے تو ممکن ہے کہ ایک لاکھ اشرفیاں(ایک اشرفی دس ماشے سے ایک تولے تک کے وزن کا سونے کا سکہ)
صرف کرنے کے بعد دو سو سال کے عرصے میں بہت ہی مشاق اور ماہر معماروں کے ہاتھوں اس کام کا انجام دیا جا سکے۔“
متھرا سے سلطان محمود غزنوی نے بے شمار مال غنیمت کے علاوہ پانچ سونے کے بُت (جن کی آنکھوں میں یاقوت جڑے تھے‘)حاصل کیے۔ ان کی قیمت پچاس ہزار اشرفی تھی۔ ان میںایک بُت میں نیلے یاقوت کا ٹکڑا جڑا تھا جس کا وزن چار سو مشقال(ایک مشقال: تقریباًپونے دو ماشے یعنی تقریباًڈیڑھ گرام۔ کل وزن 600گرام )تھا۔ کل سونا چاندی اتنا تھا کہ سو اونٹوں پر لادا گیا۔اس کے علاوہ پچپن ہزار غلام اور 350ہاتھی بھی مالِ غنیمت میں ہاتھ آئے۔ یہاں سے چل کر اُس نے بزمدابن کے قلعوں کے فتح کیا۔ منج کے فوجیوں کو جب شکست ہونے لگی تو سب نے اپنے بیوی بچوں کو آگ کے ایک بڑے الاو¾ میں پھینکا اور خود”شیطانوں“کی طرح لڑتے ہوئے آخری آدمی تک مرمٹے۔ غزنی واپس جا کر سلطان نے متھرا کی نقل میں ایک نہایت وسیع و عریض کی عالیشان مسجد سنگ مر بنائی اور خوبصورت قندیلوں سے اسے بھر دیا۔لوگ اس کی روشینوں کو دیکھ کر اسے”عروسِ فلک“کہتے تھے۔ مسجد کے ساتھ ایک بہت بڑا مدرسہ بھی بنایا گیا۔ دیکھا دیگر تمام امیروں نے بھی محلات‘مسجدیں اور مدرسے بنائے۔
کالنجر پر حملے
1019ءسے لے کر 1023ءتک سلطان نے کالنجر پر بار بار حملے کئے۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے کالنجر کا چنڈیلہ راجہ گنڈا اور قنوج کا نیا پرتی ہار راجہ ترلوچن پال اور مہاراجہ آنند پال کا بیٹا ترلوچن پال ہندو شاہ تینوں نے مل کر مزاحمت کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن ترلوچن پال شاہ کو اس کے فوجیوں نے1020ءمیں کالنجر کے رستے میں قتل کر دیا‘جب کہ اسی اثناءمیں اس کا بیٹا بھیم پال جیل سے بھاگ کر اپنی فوجوں سے آن ملا لیکن یہ ایسا راجہ تھا جس کے پاس کوئی خطہءزمین نہیں تھا۔1026ءتک بھیم پال زندہ رہا اور اس کی وفات کے ساتھ ہی ہندو شاہی خاندانِ حکومت اور ہندو شاہی سلطنت کا خاتمہ ہوگیا البتہ اس خاندان کے بہت سے نوجوان کشمیر جاکر سرکاری ملازمتوں پر فائز ہو گئے۔
لاہور کی فتح
1021ءمیں سلطان محمود غزنوی نے لاہور کو فتح کیا اور بقول فرشتہ”سپاہیوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خوب جی کھول کر شہر، آس پاس کے قصبوں اور دیہاتوں کو لوٹا اور بے شمار مال غنیمت لے کر سلطان محمود غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔“
سومنات کی فتح
اکتوبر1025ءمیں سلطان محمود غزنوی 30ہزار باقاعدہ گھڑ سوار فوج اور بے شمار غلام ترک رضا کاروں کا لشکرِ جرار لے کر سومنات پر حملہ آور ہوا۔ صحرائی سفر کے انتہائی تفصیلی انتظامات کئے گئے تھے۔ راستے میں راجوں نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ جنوری1026ءمیں یہ لشکر سومنات پہنچ گیا۔ گئی دن تک خونریز جنگ ہوتی رہی۔ پچاس ہزار ہندو جنگ میں مارے گئے اور سومنات کا مندر فتح ہوگیا۔ یہاں سے سلطان کو دو کروڑ دینار مالیت کا مالِ غنیمت ملا‘(جب کہ دینار 864 گرین سونے کے وزن کا ہوتا تھا۔)کل تقریباً 84میٹرک ٹن سونے کی مالیت کا مال تھا۔(جاری ہے)
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں