چھوٹی پھوپھی سے میرے سفارتی تعلقات کبھی بھی قابل رشک نہیں رہے،وہ ماں کے سامنے رو پیٹ کر مجھے دو چار جوتے لگوا کر حساب برابر کر لیتی تھیں 

چھوٹی پھوپھی سے میرے سفارتی تعلقات کبھی بھی قابل رشک نہیں رہے،وہ ماں کے ...
چھوٹی پھوپھی سے میرے سفارتی تعلقات کبھی بھی قابل رشک نہیں رہے،وہ ماں کے سامنے رو پیٹ کر مجھے دو چار جوتے لگوا کر حساب برابر کر لیتی تھیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:51
چھوٹی پھوپھی بھی ساتھ رہتی تھیں، ان سے میرے سفارتی تعلقات کبھی بھی قابل رشک نہیں رہے تھے، کیونکہ وہ ماں کے ساتھ مل کر مجھے پکڑوانے اور سزا دلوانے میں پیش پیش رہتی تھیں۔میں چھوٹا ہونے کا فائدہ اٹھا کر اکثر ان کی ٹھکائی بھی کردیا کرتا تھا اور وہ بڑے ہونے کے ناطے بڑی صفائی سے میری ماں کے سامنے رو پیٹ کر مجھے دو چار جوتے لگوا کر حساب برابر کر لیتی تھیں۔ انھوں نے ایک دو موقعوں پر مجھے کافی دکھ دئیے تھے، ایک تو جب وہ دوسری پھوپھی کے ہمراہ چڑیل بن کر ہمیں ٹوبے سے بھگا کر لے آئیں تھیں اور دوسرا جب میں نے صبح سکول جانے سے پہلے ان پر حملہ کیا اور ان کی چٹیا سے لٹک کر خوب جھولے لیے اور بعد ازاں منشی جی کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوا تھا۔
بس یہی کل اثاثہ تھا ہمارے اپنے گھر کا۔ دوسری پھوپھی ساتھ والے گھر میں رہتی تھیں۔ ایک دن میں باہر سے آیا تو اپنی ماں اور چھوٹی پھوپھی کو تندور کے پاس کھڑے بلندا ٓواز سے روتے دیکھا۔چنگیر میں چند تازہ روٹیاں پڑی تھیں اور باقی تندور کے اندر ہی جل گئی تھیں جن کا دھواں اور خوشبو چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ماں نے مجھے سینے سے لگایا اور فوراً ہی بتا دیا کہ بڑی پھوپھی اب نہیں رہیں اور ابھی کچھ دیر پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا، حیران بھی ہوا کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو ان کے گھر میں ایک مّنا کاکا آیا تھا اور ہم سب اس کو دیکھنے گئے تھے پھر یہ اچانک کیا ہوا۔ ان کے گھر پہنچے تو وہاں وہ چادر اوڑھے بڑے سکون سے سوئی ہوئی تھیں اور ننھاسا کاکا دنیا سے بے خبر قریب ہی پنگوڑھے میں پڑا ہاتھ پیر مار رہا تھا۔ شام کو جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو میں بھی ساتھ گیا اور زندگی میں پہلی دفعہ تدفین کا عمل دیکھا۔رات بھر مجھے پھوپھی کا چہرہ، ان کی قبر اور ننھا اسلم یاد آتا رہا جس کے نام کا بھی ابھی تک سب کو پتا نہیں تھا۔
ابا جان اپنی بہن کے جنازے پر نہ پہنچ سکے اس وقت نظام ہی کچھ ایسا تھا کہ ٹیلی گرام بھی 2 دن بعد ملتی تھی اور پھر کراچی سے 2 دن کا سفر بھی تھا۔ گھر کا ماحول کافی دن سوگوار رہا پھر حالات معمول پر آ گئے اور وہی دنیا داری شروع ہو گئی۔ہم بھی کچھ دنوں سہمے ہوئے پھرتے رہے پھر اپنی آئی پر آ گئے اور روز مرہ کے معمولات زندگی میں گم ہو گئے۔
میری تیسری پھوپھی بھی کئی برس پہلے اسی طرح پندرہ بیس دن کے اشرف مٹوّ کو چھوڑ کر اپنے رب کے پاس چلی گئی تھیں۔میں نے ان کو نہیں دیکھا تھا اس لیے ان کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں، اس طرح کی اموات شاید ان دنوں بہت ہوتی تھیں اور لوگ بھی اللہ کی مرضی کہہ کر خاموش ہو جاتے۔
اشرف مٹوّ
اشرف مٹوّ، میرا ماموں اور پھوپھی زاد بھائی ہے۔ اس کا سرسری سا ذکر پہلے آ چکا ہے جب وہ میرے ساتھ سکول میں داخل ہوا تھا۔وہ بہت بھیانک قسم کا اور بڑا ہی ا ذیت پسند بچہ تھا۔مجھ سے2 سال بڑا تھا، ہر آتے جاتے کو بغیر کسی وجہ کے کھڑکا دینا یا کسی بھاگتے ہوئے بچے کو ٹانگ پھنسا کر گرا دینا اس کے پسندیدہ مشاغل تھے۔ہر الٹا کام کرتے وقت وہ باقی سب کو بھی اس میں لپیٹ لیا کرتا تھا اور اگر ان نیک کاموں کے دوران کسی کے ہتھے چڑھ جاتے تو سب کی ٹھکائی بھی باجماعت ہوا کرتی تھی۔ وہ سکول میں میرا ہم جماعت بھی تھا اور پڑھائی میں بس گزارا ہی تھا، یوں تو ہم پہلے بھی یہ سب کچھ کرتے تھے لیکن سکول سے بھاگ کر طوطوں کے بچے پکڑنے کی ترغیب بھی اسی نے دی تھی۔ سکول میں بھی زیادہ تر وقت وہ مرغا ہی بنا رہتا تھا کیونکہ اس کے جرائم عموماً سنگین نوعیت کے ہوا کرتے تھے۔ اس کی سزا کو مزید تکلیف دہ اور عبرتناک بنانے کے لیے اس کے مر غا بننے کے عمل کے دوران اس کی کمر پر دو تین بھاری بستے رکھوا دئیے جاتے تھے، جب اس کا جرم زیادہ بھیانک ہوتا تو ایک چھوٹے بچے کو اس کی کمر پر بٹھا کر منشی جی لسی پی کر سو جاتے تھے۔ اسی دوران وہ اِدھر اُدھر ہو جاتا۔ جب منشی جی دوبارہ اپنے حواس میں آتے تو انھیں یاد بھی نہیں ہوتا تھا کہ کون سا مجرم زیر حراست تھا۔ شاید وہ جان بوجھ کر بھی بھول جاتے ہوں، آخر کو انسان تھے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -