یتیم بچے اور ہمارا معاشرہ
بچے جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ پھول کی طرح ہیں رنگوں اور خوشبوؤں سے مہکتے بچوں کی دنیا عام انسانوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے یہ دنیا حسن اور محبت کی بستی ہے اس میں ہر چیز اس عالمِ موجودات سے الگ تھلگ وجود رکھتی ہے جسے بچہ خود تخلیق کرتا ہے۔ بچہ ایک کوزہ ہے لیکن اس میں بحرِ ذخار کا طلاطم موجزن ہے وہ ایک خفیف سا نقطہ ہے لیکن خود کو ایک بے پایاں کائنات کا شہنشاہ سمجھتا ہے،یہی شہنشاہ جو اپنے ماں باپ کے وسیلے سے دنیا میں تو آتا ہے مگر بدقسمتی سے اس کے والدین اسے دنیا میں تن تنہا چھوڑ کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہو جاتے ہیں تو یہ یتیم کہلاتا ہے ماں باپ کے پیار سے محروم بے یارومددگار بچہ۔
اسلام میں یتیم بچوں کے لئے خصوصی حقوق متعین کئے گئے ہیں۔ روزمرہ زندگی اور خاص تہواروں پر جن میں مذہبی قومی یا کوئی بھی خوشی کے موقع پر یتیم بچوں کا خیال رکھنا معاشرے کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے۔ والدین کی شفقت سے محروم یہ بچے کسی طرح بھی دوسرے بچوں سے کم نہیں البتہ والدین سے محرومی کا احساس انہیں ہر وقت گھیرے رہتا ہے اور اسی احساسِ محرومی کو دور کرنے کے لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان بچوں کو والدین جیسی شفقت دیں تاکہ وہ زندگی کے عملی میدان میں کسی احساسِ کمتری یا محرومی کا شکار نہ ہوں اور یہ بچے ہمارے معاشرے کا مفید اور کار آمد شہری بنیں۔
حقوق العباد کو اسلام میں جو اہمیت دی گئی ہے اس کا تصور اس سے قبل کسی شریعت یا معاشرے میں نہیں ملتا اسلامی شریعت میں اس حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
اگر کوئی محتاج ہو تو اس کی احتیاج دور کرنا، اگر کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کرنا، بیواؤں کی سرپرستی، یتیموں کی پرورش،مجبور و معذور افراد کی دست گیری یتیموں کی تعلیم کا انتظام کرنا اسلامی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔
معاشرے میں یتیموں کی بے کسی و بے بسی کا ہر شخص کو احساس ہونا چاہیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو خاص طور پر یتیموں کے حق میں انصاف کو ملحوظِ رکھنے کی تاکید اور حکم دیا ہے۔ اسلام پہلا اور آخری دین ہے جس نے انسانوں کے مختلف رشتوں کے فطری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی اولیت متعین کر دی ہے اگر کوئی شخص والدین کے حقوق ادا نہ کرے، قرابت داروں کے ساتھ احسان نہ کرے۔ یتیموں،مسکینوں اور پڑوسیوں کا خیال نہ کرے، مسافروں کی امداد نہ کرے، غلاموں کو آزادی اور مصیبت زدہ مسلمانوں کو ذلت و رسوائی اور غلامانہ ماحول سے نکالنے کی کوشش نہ کرے تو وہ دوسروں پر احسان و کرم کی جتنی بھی بارش کرے حقوق العباد کے اسلامی شریعت کے مطابق نہ کرنے کا مجرم ضرور قرار پائے گا اس کی مثال بارش کے اس پانی کی سی ہوگی جو پہاڑ اور بنجر زمین پر برسے اور پیداوار والی زمین قحط سالی کا شکار ہو رہے۔
خیرات و زکوٰۃ کی ترغیب و تحریص اسلام میں ابتداء سے شروع کر دی گئی تھی چنانچہ سورہ ماعون جو مکہ میں نازل ہوئی اس میں فرمایا گیا کہ تم نے اس شخص کو دیکھا جو قیامت کو جھٹلاتا ہے یہی وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا یہ ضرورت مندوں کے حقوق کی ادائیگی سے احتراز کرنے والوں پر کھلا عتاب ہے۔
ہمارے نبی حضرت محمدؐ یتیموں سے بہت شفقت سے پیش آتے۔ آپؐ خود دُرِ یتیم تھے۔ آپؐ نے فرمایا جو شخص یتیم کا خرچ اپنے ذمے رکھے بہشت میں اس طرح پاس پاس رہیں گے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرکے بتلایا اور دونوں میں تھوڑا فاصلہ رہنے دیا۔ حضورِ اکرمؐ نے ایک بار پھر فرمایا جو شخص یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے اور محض اللہ ہی کے واسطے پھیرے جتنے بالوں پر سے اس کا ہاتھ گزرا ہے اتنی ہی نیکیاں اس کو ملیں گی اور جو شخص کسی یتیم بچوں کے ساتھ احسان کرے جو کہ اس کے پاس رہتا ہو تو میں اور وہ جنت میں اس طرح رہیں گے جیسے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی پاس پاس ہے۔ آپؐ نے ہدایت کی کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ بالغ ہونے پر ان کی امانت پوری کی پوری ان کے حوالے کر دو۔ یتیم اور مسکین کو کھانا کھلانے کا بھی بہت ثواب ہے۔ پھر ایک جگہ فرمایا یتیم بچے کے مال سے جو لوگ خود پر خرچ کریں گے وہ اپنے پیٹ آگ سے بھریں گے یعنی دوزخ میں جائیں گے۔ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ ہے ہمیں اپنی اقدار کا خیال رکھنا ہے اور اپنے نبیؐ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یتیم اور بے سہارا بچوں کی پرورش کرنی چاہیے۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے یتیم بچوں کے حقوق کا بخوبی تحفظ ہو سکے۔ حکومتی اداروں کے علاوہ معاشرے کے متمول افراد کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ یتیم بچوں اور ان بچوں کی سرپرستی کے اداروں اور تنظیموں کی مالی ضروریات کو پورا کرے۔ حکومت کو ان کے لئے تعلیمی وظائف کا انتظام بھی کرنا چاہیے ان کے رہنے سہنے کے علاوہ بچوں کو کھیل کود کے بھی مواقع فراہم کئے جائیں۔ ہمارے بگڑے معاشرے میں اکثر لوگ یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے اس کے لئے موثر قانون ہونا چاہیے تاکہ یتیموں کو انصاف مل سکے۔ جس معاشرے میں خدمتِ خلق کو شعار بنانے والے لوگوں کی معتدبہ مقدر موجود ہو اس معاشرے میں سکون و راحت کا دور دورہ ہوتا ہے۔ عوام پریشانی کے وقت اپنے آپ کو تنہا اور بے یارو مددگار محسوس نہیں کرتے ان کو یقین ہوتا ہے کہ ان کا رسولِ رحمت العالمینؐ بنا کر بھیجا گیا تھا اور اور رحمت العالمینؐ کا ارشاد ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہمیں اپنے ملک میں ایسا ہی معاشرہ تعمیرکرنے کی ضرورت ہے۔