منو بھائی کی یاد میں ہم پر کیا گزری

منو بھائی کی یاد میں ہم پر کیا گزری
منو بھائی کی یاد میں ہم پر کیا گزری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بیورو کریسی کو ہمارے ایک کالم نویس دوست ہمیشہ اپنے کالموں میں بُرا کریسی لکھتے ہیں۔ مَیں ان سے اتفاق نہیں کرتا، کیونکہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ تمام لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ہر شعبے میں اچھے اور بُرے آدمی ہو سکتے ہیں۔

اس لئے کسی بھی شعبے یا کسی بھی طبقے کے بارے میں کسی ایک فرد کا کردار دیکھ کر رائے قائم نہیں کر لینی چاہیے۔یہ بھی صحیح ہے کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔ ایک فرد کی نالائقی اور نااہلی پورے خاندان کو بدنام کر سکتی ہے۔

گزشتہ دنوں ممتاز کالم نگار، ڈرامہ نویس اور شاعر منو بھائی مرحوم کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں مجھے شرکت کرنے کا موقع ملا۔ منو بھائی نے صحافت کے میدان میں ہی اپنے ناقابل فراموش نقوش نہیں چھوڑے بلکہ سندس فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے منو بھائی کی سماجی خدمات کا دائرہ بھی بہت وسیع تھا۔ سندس فاؤنڈیشن تھیلیسیمیا کے مریضوں کو مفت ادویات اور خون کی فراہمی کا پرائیویٹ سیکٹر میں شاید سب سے بڑا ادارہ ہے۔

منو بھائی نے اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لئے تقریباً وقف کر دیئے تھے۔ بستر مرگ پر بھی منو بھائی کو یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ تھیلیسیمیا کا کوئی مریض بچہ خون یا ادویات کی عدم فراہمی کی وجہ سے موت کے منہ میں نہ چلا جائے۔
بات بیورو کریسی سے شروع ہوئی اور منو بھائی کے ادارہ سندس فاؤنڈیشن کی طرف چلی گئی۔ سندس فاؤنڈیشن سیالکوٹ کے منتظمین سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے منو بھائی کی یاد میں منعقدہ تقریب میں ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو مہمان خصوصی کے طور پر دعوت دے دی۔ سندس فاؤنڈیشن کے ہال میں تھیلیسیمیا کے مریض بچوں اور ان کے والدین کو دو گھنٹے تک انتظار کی اذیت سے گزرنا پڑا تو ڈپٹی کمشنر تشریف لائے۔

تقریباً ایک گھنٹے تک تو مَیں بھی تھیلیسیمیا کے مریضوں اور ان کو ماؤں کے کربناک چہروں کو دیکھتا رہا، مگر ڈپٹی کمشنر آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ منو بھائی مرحوم تھیلیسیمیا کے مریضوں کے ایک عظیم محسن تھے۔ اس لئے وہ اپنے محسن کی یاد میں منعقدہ تقریب میں انتہائی صبر سے مہمان خصوصی کا انتظار کرتے رہے۔ سندس فاؤنڈیشن نے منو بھائی کی زندگی پر ایک ڈاکومنٹری فلم تیار کی ہوئی تھی جو وہ ڈپٹی کمشنر اور حاضرین کو دکھانا چاہتے تھے۔ منو بھائی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے چند تقاریر بھی پروگرام کا حصہ تھیں مگر تقریب میں موجود ہم سب مہمانوں کے ایک گھنٹہ پندرہ منٹ بعد آنے والے ڈپٹی کمشنر کو تقریب سے جانے کی بھی بہت جلدی تھی۔

اس لئے وہ منو بھائی کی خدمات پر بنائی گئی مختصر فلم اور دیگر مہمانوں کی تقاریر سے پہلے ہی اپنے مختصر خطاب سے نواز کر تقریب چھوڑ کے چلے گئے۔ میرے لئے یہ تماشا افسوسناک ، کسی حد تک عجیب و غریب اور ایک سطح پر ناقابل برداشت بھی تھا۔

منو بھائی ہمارے دور کے ایک لیجنڈ صحافی تھے، ڈرامہ نویسی میں بھی انہیں جو شہرت اور عزت نصیب ہوئی۔ ایسا مقام اور اعزاز بہت کم ڈرامہ نگاروں کو حاصل ہوا۔ سماجی خدمات کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو منو بھائی خوبیوں سے بھرا ہوا ایک منفرد انسان تھا۔
لاہور میں منو بھائی کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے جتنا وقت دیا تھا اس وقت کا دسواں حصہ بھی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے پاس منو بھائی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے نہیں تھا۔ سیالکوٹ کے نوجوان اور ناتجربہ کار ڈپٹی کمشنر کو تو اپنے معمولی اختیارات کے زعم میں یہ خیال بھی نہ آیا کہ سماجی ، ادبی اور صحافتی حوالے سے کئی اہم شخصیات منو بھائی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تقریب میں موجود تھیں۔ ان کی تقاریر ڈپٹی کمشنر کے مقابلے میں زیادہ معتبر اور وقیع تھیں۔

’’مہمان خصوصی‘‘ کے مرتبے کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ وہ تقریب میں شامل دوسرے مہمانوں کے ادب اور تعظیم کو بھی ملحوظ رکھے، مگر یہ ادب شناسی اور یہ تہذیب و تربیت ہر ایک کے نصیب میں کہاں۔

میرے نزدیک ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او وغیرہ کو ایسی تقاریب میں دعوت ہی نہیں دینی چاہیے جو ان کے مزاج اور تربیت کے مطابق نہیں ہوتیں۔ منو بھائی کو یاد کرنے کے لئے ادیبوں، صحافیوں، شاعروں اور دانشوروں کو دعوت دی جانی چاہیے۔ جن کو منو بھائی کے صحافتی اور ادبی مقام و مرتبہ کا علم ہے۔ جن افراد کو منو بھائی کے موضوع سے دلچسپی نہ ہو یا جس کسی کے پاس ایک ممتاز و معتبر صحافی کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب کے لئے وقت اور فرصت نہیں اسے کسی ادبی تقریب میں دعوت دینے کا کیا جواز ہے؟ ویسے بھی علمی و ادبی تقاریب میں شمولیت ان ہی لوگوں کو زیب دیتی ہے جو تہذیب و اخلاق کی اعلیٰ اقدار سے واقف ہوں اور خاص طورسے جس ادبی شخصیت کی یاد میں تقریب منعقد کی گئی ہو، اس شخصیت سے محبت و عقیدت رکھنے والے لوگوں ہی کو دعوت دینی چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -