کھیل میں سیاست کیوں؟ 

  کھیل میں سیاست کیوں؟ 
  کھیل میں سیاست کیوں؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کھیل صرف جسمانی ہی نہیں ذہنی نشوونما کے لئے بھی مفید خیال کئے جاتے ہیں اور کھیلوں ہی کے حوالے سے سپورٹس میں سپرٹ بھی معروف ہے کہ کھلاڑی ازخود ضابطوں کے پابند ہوتے ہیں اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنے میں پہل کرتے ہیں۔ان کو ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، ہر کھیل کے قواعد و ضوابط ہیں لیکن ان پر حاوی سپورٹس مین سپرٹ ہی رہی،ان دِنوں ہمارے ملک میں کرکٹ کا بڑا غلغلہ ہے۔ چیمپئن ٹرافی ہونے والی اور اس کے لئے وسیع پیمانے پر اقدامات بھی کئے جا رہے ہیں، حتیٰ کہ کراچی اور لاہور میں دونوں سٹیڈیم تعمیر نو کے  مرحلے سے گذر کر شائقین کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار ہیں اور5فروری سے قذافی سٹیڈیم لاہور میں سہ فریقی ٹی20 ٹورنامنٹ شروع ہو رہا ہے۔ کرکٹ کے اس کھیل کی شروعات تاریخ کے مطابق برطانیہ سے ہوئی اور اسے ابتداء ہی سے جنٹلمین کھیل کہا جاتا تھا،ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کوئی کھلاڑی آؤٹ تھا لیکن ایمپائر کے حوالے سے ایسا نہیں تھا اور اسے ناٹ آؤٹ دیا گیا، لیکن کھلاڑی ازخود کریز چھوڑ کر باہر چلا گیا۔

زمانہ تبدیل ہوا تو اس کھیل میں اثرات آ گئے اور اب یہ ایک طرف ذریعہ آمدنی ہے تودوسری طرف اس پر سیاست بری طرح مسلط ہو گئی ہے اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ حریف ملک ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے اور یہاں بھی طاقت کا اصول رائج ہو گیا ہے۔اس سلسلے میں معروف و مشہور بھارت ہے جو ہر مسئلہ کو سیاست کی نظر سے دیکھتا ہے یہ اِس لئے عرض کیا کہ آج ہی خبر یہ بھی سنی ہے کہ19فروری سے 9مارچ تک ہونے والے مقابلوں کے لئے افتتاحی تقریب نہیں ہو گی۔حتیٰ کہ فوٹو سیشن اور روایتی پریس کانفرنس بھی نہیں ہو گی اور ٹرافی کا کھیل19 فروری کو براہ راست پاکستان اور نیوزی لینڈ کے میچ سے شروع ہو جائے گا اس کے لئے آئی سی سی کی طرف سے یہ عذر پیش کیا گیا ہے کہ ٹرافی کے سلسلے میں حصہ لینے والی ٹیمیں بروقت پاکستان نہیں پہنچ رہیں،اس خبر سے پہلے تک یہی اطلاع تھی کہ افتتاحی تقریب،کپتانوں کی روایتی پریس کانفرنس اور ٹیموں کا فوٹو سیشن بھی ہو گا اور یہ سب کراچی میں ہونا تھا اِسی حوالے سے بحث چھڑی ہوئی تھی کہ بھارتی کپتان شرما اس ایونٹ میں شرکت کے لئے پاکستان آتے ہیں یا نہیں۔اس بحث کی وجہ یہ تھی کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں تھی، تب پہلی کوشش یہ کی گئی کہ ٹرافی ہی کسی دوسرے ملک منتقل کر دی جائے اِس سلسلے میں سری لنکا اور دبئی کے نام لئے گئے تھے، لیکن اِس بار پاکستان بھی اڑ گیا کہ اگر بھارتی ٹیم نہیں آئے گی تو پاکستان کی ٹیم بھی بھارت نہیں جائے گی۔یہ سلسلہ چلتا رہا، بات نہ بنی تو ہائی برڈ نظام کی پیشکش کی گئی کہ بھارت کے تمام میچ دبئی میں ہی ہوں گے اور جب بھارت  کے میچ کا دن ہو گا تو مدمقابل ٹیم دبئی جائے گی، اِسی نظام کے تحت شیڈول جاری کیا گیا اِس وقت آئی سی سی کا چیئرمین بھی بھارتی ہے یوں نہ صرف اس حوالے سے سپورٹس مین شپ متاثر ہوئی، تاہم فیصلہ ہو گیا۔اب مسئلہ یہ ہے کہ چمپئن شپ متاثر ہوئی تو اب افتتاحی تقریب بھی متاثر ہو گئی ہے یوں کم از کم کرکٹ کے کھیل کو بھی سیاست زدہ کر دیا گیا ہے بہرحال جو بھی ہے کہ یہ ٹرافی تو ہو گی اور  اس کے شروع ہونے سے جو ہونا تھا ہو چکا اب کھیل کی طرف توجہ ہونا چاہئے۔

یہ بات تو ہوئی مجھے اپنے بورڈ کی پالیسی کا ذکرکرنا تھا جس کی طرف سے جیت کو حرز جاں بنا لیا گیا ہے، حالانکہ کھیل میں ہار اور جیت تو ہوتی ہے اور ہر ٹیم جیتنے کے لئے ہی میدان میں اُترتی ہے لیکن مقابلے کی روح اور سپورٹس مین سپرٹ یہ ہے کہ فتح پر خوشی ہو توشکست کو بھی خندہ پریشانی سے قبول کیا جانا چاہئے، شکست کی صورت میں ”پھوڑی“ کا سماں ہو جاتا ہے اور اب جہاں تک کرکٹ کے کھیل کا تعلق ہے تو اسی ہار جیت کے کھیل نے اسے غیر دلچسپ بنانا شروع کر دیا ہے۔ہم نے انگلینڈ کے خلاف تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لئے ایک نیا تجربہ کیا جس سے ہار جیت تو ہونا ہی تھی۔ مقابلے کی دلچسپی ختم ہو گئی، ہمارے بورڈ کے ماہرین نے چٹیل میدان گنجی پچ بنا کرسپنرز کو آزمانے کا تجربہ کیا جو انگلینڈ کے خلاف کامیاب رہا تو اسے مستقل سی نوعیت دے دی گئی اور ملتان میں ویسٹ انڈیز کے خلاف دو ٹیسٹوں کی سیریز کے لئے بھی یہی حربہ آزمایا گیا، لیکن یہاں ویسٹ انڈیز کی ٹیم سارے نمبر لے گئی۔پہلا میچ ہار جانے کے بعد دوسرے میچ میں ویسٹ انڈیز نے کم بیک کیا اور یہ ٹیسٹ جیت کر سیریز برابر کر دی اور ہم منہ دیکھتے رہ گئے،ہماری انتظامیہ اور ٹیم کے علاوہ شائقین بھی مایوس ہوئے۔ ایک تو ڈھائی دو دن ہی میں میچوں کا فیصلہ ہو جانا غیر دلچسپ رہا، دوسرے ویسٹ انڈیز کے سپنر بازی لے گئے اور ہمارے بیٹر ناکام ہو گئے۔

سلو پچ بنانے کے خلاف اعتراضات کے حوالے سے کہا گیا کہ ہر ٹیم کو ہوم سیریز میں وکٹ(پچ) تیار کرنے کا حق حاصل ہے اور ہر بورڈ اپنے ملک میں اپنے فائدے یہ کے لئے یہ سب کرتا ہے جو دوسرے ملک ایسا کرتے ہیں وہ اپنے کھلاڑیوں کی تربیت بھی اسی کے مطابق کرتے ہیں لیکن یہاں اُلٹ کیا گیا،نتیجہ صفر رہا، کھیل میں دلچسپی کے لئے لازم ہے کہ دونوں ٹیموں کو برابر کے مواقع ملیں اور جو اچھا کھیلے وہ جیت لے اس سے مقابلے اچھے ہوں گے اور شائقین کی دلچسپی رہے گی ورنہ سٹیڈیم خالی ہو جائیں گے اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تواب سیاست میں کھیل داخل ہو گیا اور ایمپائر کی انگلی کو اہم قرار دیا گیا۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -