لوٹ کے بدھّوگھر کو آئے

  لوٹ کے بدھّوگھر کو آئے
  لوٹ کے بدھّوگھر کو آئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کلاس ہشتم میں ہمارے اردو کے ٹیچر مولانا عبدالعزیز تھے۔ سکول کے ایک حصے میں ظہر کی نماز بھی باجماعت ہوا کرتی تھی اور مولانا اس کی امامت بھی کروایا کرتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کی سورتوں کی تلاوت کرتے وقت ان کے لہجے میں بلا کا سوز و گداز ہوتا تھا بلکہ شعر و شاعری کے صوتی اثرات سے بھی ان کی آگہی درجہء کمال پر پہنچی ہوئی تھی۔ وہ ہماری نصابی کتاب میں درج منظومات کی قرأت کرنے میں بہت دلچسپی لیا کرتے تھے بلکہ کلاس کے بعض طلباء سے بھی ان نظموں کی قرأت کروا کر یہ بتایا کرتے تھے کہ شاعری دراصل کلامِ موزوں کا نام ہے۔اس مرکب لفظ ”کلامِ موزوں“ کی تشریح کرنے میں پورا آدھا پیریڈ یعنی 20منٹ صرف کر دیا تھاانہوں نے۔ ان کا اصرار تھا کہ نظم اور نثر میں جو نمایاں فرق ہوتا ہے، وہ صرف کلامِ موزوں کی تشریح و تعبیر کی بدولت ہی سمجھ میں آ سکتا ہے۔

آج کل تو آٹھویں جماعت کے طلباء و طالبات کو نہ صرف یہ کہ ”کلامِ موزوں“ کا کچھ پتہ نہیں بلکہ ان کا استحسانی ذوق کمپیوٹر اور ریاضی کی پیچیدہ اصطلاحات کی نذر ہو جاتا ہے۔ بہت کم اور بہت ہی کم طلباء و طالبات ”کلامِ موزوں“ سے شناسا ہو پاتے ہیں۔ اگر کوئی سٹوڈنٹ اس اصطلاح کے مفہوم کو ذہن نشین بھی کرنا چاہے تو عہدِ حاضر کے بہت کم اساتذہ ایسے ہوں گے جو اس فریضے کو انجام دے سکتے ہوں گے۔

یادش بخیر، ہمارے اردو نصاب میں میرانیس کی ایک نظم وہ بھی تھی جس کا عنوان تھا:”آمدِصبح“۔ اس کا ایک بند تھا:

 چلنا وہ بادِ صبح کے جھونکوں کا دمبدم 

مرغانِ باغ کی وہ خوش الحانیاں بہم

وہ آب و تابِ نہر وہ موجوں کا پیچ و خم

سردی ہوا میں پرنہ زیادہ بہت نہ کم

کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا

تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا

ماسٹر عبدالعزیز صاحب نہ صرف یہ کہ پہلے اس نظم کے بندوں (Stanzas) کی قرأت خود کیا کرتے تھے بلکہ بعد میں ایک دو خوش گلو طلباء سے بھی گیت نما انداز میں قرأت کروا کر اس کے ایک ایک مصرعے کی تشریح کرا دیا کرتے تھے۔ درج بالا بند میں بادِ صبح، مرغانِ باغ، خوش الحانیاں، آب و تاب، پیچ و خم، اوس، دامنِ صحرا جیسے مشکل الفاظ بلیک بورڈ پر لکھ کر ان کے معانی کی تفصیل بھی بتایا کرتے تھے۔ اسی دوران انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کسی لڑکے نے اس بند کے صحیح معانی جاننے ہوں تو اسے کسی نہر کے کنارے جا کر علی الصبح اس کا تجربہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے تو شاید ازراہِ تشریح یہ جملہ کہہ دیا ہوگا لیکن میں نے اسی وقت تہیہ کر لیا کہ کسی دن نہر کے کنارے خود جا کر اس بند کی تفہیم سے آگاہی حاصل کی جائے۔

پاک پتن شہر میں دائیں بائیں دو بڑی نہریں بہتی ہیں۔ ایک تو ساہیوال سے آتے ہوئے شہر میں داخلے سے پہلے ہے اور دوسری شہر سے نکلتے ہوئے مزارِ چن پیر کی طرف جاتے ہوئے آتی ہے۔دونوں نہروں کی گہرائی اور چوڑائی ہمارے لئے ایک دریا سے کم نہ تھی اگرچہ دریائے ستلج پاک پتن شہر سے 5،7میل دور بہتا تھا اور اس وقت تک ہم نے صرف کتابوں میں اس کا نام پڑھا تھا۔

اب تو شہر کی آبادی بہت پھیل گئی ہے اور جگہ جگہ نئی کالونیاں تعمیر ہو گئی ہیں لیکن جس زمانے کی میں بات کررہا ہوں، اس وقت دوسری نہر اور میرے گھر کے درمیان کوئی تین میل کا فاصلہ تھا۔ ہمارا مکان اس پہاڑی کی چوٹی پر واقع تھا جس کے دامن میں حضرت بابا فرید گنج شکر کا مزارِ مبارک واقع ہے۔

تو قارئین گرامی!اتوار کا دن تھا۔ ہم صبح سویرے چار بجے اٹھے اور پیدل چلتے ہوئے تقریباً پانچ بجے بشارت والے پل اور بڑے تھانے سے ہوتے ہوئے نہر کے اُس پل پر جا پہنچے جو بستی چن پیر سے پاک پتن شہر کو ملاتا تھا۔ اس نہر کا دوسرا پل مغرب کی سمت تقریباً ایک میل کی دوری پر واقع تھا۔ ہم ان دونوں پلوں کے درمیان جا کر نہر کنارے ہری ہری گھاس پر بیٹھ گئے۔

سورج ابھی نہیں نکلا تھا لیکن سپیدۂ سحر نمودار ہو رہا تھا۔ ہم نے کسی بلیک اینڈ وائٹ انڈین فلم میں کسی ہیرو اور ہیروئن کو کسی نہانے والے ایک تالاب (Swimming Pool) پر پانی میں پاؤں لٹکا کر ایک دوسرے کے اوپر چھینٹے اڑاتے اور کلیلیں کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ بس اسی کی پیروی میں ہم نے بھی بغیر کسی ہیروئن کے اکیلے ہی نہر میں پاؤں مارنے شروع کر دیئے۔ بقول انیس، صبح کے جھونکے دمبدم چل رہے تھے، مرغانِ خوش الحان میں جنگلی کبوتر، فاختائیں اور شارکیں نغمہ سرا تھیں، کسان ابھی کھیتوں میں ہل چلانے نہیں نکلے تھے اور سردی واقعی ”نہ زیادہ تھی اور نہ کم تھی“۔ نہر کنارے جو سبزہ پھیلا ہوا تھا اس پر شبنم کے قطرے میر انیس کی نظم کی یاد تازہ کررہے تھے۔ اسی نظم میں میر انیس کا ایک شعر یہ بھی تھا:

وہ قمریوں کا چار طرف سرو کے ہجوم

کُوکُو کا شور، نالہء حق سّرہ، کی دھوم

لیکن ہم نے سنا تھا کہ قمری کا رنگ سفید ہوتا ہے اور وہ کبوتر کی ہم شکل ہوتی ہے اور سائز میں اس سے چھوٹی ہوتی ہے۔کُوکُو کی آوازیں تو آ رہی تھیں لیکن شاید دوسرے کنارے کے درختوں میں بیٹھی قمریاں دکھائی نہیں دے رہی تھیں!

برسبیلِ تذکرہ قارئین کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم کو اس ابتدائی سن و سال میں شاعری کا عارضہ بھی کچھ کچھ لاحق ہو گیا تھا۔ ”سوز و ساز“ حفیظ جالندھری کا ایک مجموعہء کلام جو والد صاحب کی لائبریری میں موجود تھا۔ اس میں ”موسمِ برسات“ کے عنوان سے ایک نظم تھی جس کا پہلا شعر تھا:

آج بادل خوب برسا اور برس کر کُھل گیا

گلستاں کی ڈالی ڈالی، پتّہ پتّہ دُھل گیا

یہ شعر یاد آیا تو ہم نے بھی اس زمین میں طبع آزمائی کی کوشش کی۔ اب یاد نہیں اپنی نظم کا مطلع کیا تھا لیکن مقطع یاد ہے جو یہ تھا:

نام جیلانی ہے میرا اور تخلص ہے سلیم

پڑھتا ہوں میں آٹھویں میں اور ہوں اس جا مقیم

نامِ خدا اُس دور میں ہم نے خود ہی اپنا تخلص ”سلیم“ رکھ لیا تھا۔ استادِ محترم سے صرف یہ پوچھا تھا کہ لفظ ”سلیم“ کے لغوی معانی کیا ہیں؟…… جواب ملا تھا: دبلا پتلا، اچھی طبیعت والا، دوسروں کی بھلائی چاہنے والا وغیرہ۔ یہ ساری ”خوبیاں“ تو ہم میں موجود تھیں البتہ ایک خوبی کا فقدان تھا جو ”شہزادہ سلیم“ کے بارے میں تھی جو محترمہ زیب النساء المعروف نورجہاں کا شوہر تھا اور بعد میں شہنشاہِ ہند بن گیا تھا! شاید اپنا تخلص ”سلیم“ رکھنے میں بھی اسی ”شہزادۂ سلیم“ کے تصور کا کوئی عمل دخل ہوگا۔ لیکن پھر خیال آیا کہ وہ تو شہنشاہِ اکبر کا فرزندِارجمند تھا اور ہم؟……

چلو خیر اس جھگڑے میں نہیں پڑتے کہ امارت اور غربت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ جسے چاہے امارت دے دے اور جسے چاہے غربت سے نواز دے۔ ویسے بھی اساتذہ سے سن رکھا تھا کہ غربت ایک اچھی خوبی ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے لوگ بشمول ادیب، شاعر، موجد، سائنس دان، گلوکار اور موسیقار وغیرہ سب کے سب ”غربت کے مارے“ ہوئے تو ہوتے ہیں۔ 

فلم بینی کا شوق ہمیں ایک عرصے سے تھا۔ ان فلموں میں گانے والے انڈیا کے سارے گلوکاروں کا بچپن اور جوانی وغیرہ غربت میں بسر ہوئی تھی لیکن اسی غربت نے ان کو امارت کی مسند پر لا بٹھایا تھا۔ لتا منگیشکر تو ایک زمانے میں نانِ جویں کو ترستی تھی اور محمد رفیع کو صرف 13برس کی عمر میں ان کے والد حاجی محمد علی نے اس لئے لاہور شہر کے اسٹیشن پر الوداع کہتے ہوئے یہ جملہ کہا تھا: ”تم بمبئی تو ضرور جا رہے ہو لیکن اگر وہاں جا کر بھی ناکام لوٹے تو میں تمہیں اپنے ہاں گھر میں نہیں آنے دوں گا۔ میں سمجھوں گا کہ میرے چھ بیٹوں میں ”رفیع“ نام کا کوئی بیٹا نہ تھا!“

لیکن اسی لتا اور اسی رفیع دونوں نے امارت کی بلند ترین منازل حاصل کیں۔ آج وہ دونوں اس دنیا میں نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گانے نغماتِ کوچہ و بازار (Street Songs) ہیں …… بہر کیف یہ تو جملہء معترضہ تھا۔ جس دور کی بات میں کر رہا  ہوں اس میں وہ دونوں زندہ تھے اور بمبئی میں رہتے تھے۔ شاید اسی لئے میں نے اپنی نظم کے مقطع کے دوسرے مصرعے میں لفظ  ”اس جا“ کو زیرِ لکیر کر دیا تھا اور ”فُٹ نوٹ“ میں لکھا تھا: ”یعنی پاک پتن“

اب سورج نکل آیا تھا، کسان اپنے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے اور درختوں سے کوے نکل نکل کر شہر کا رخ کررہے تھے۔ معاً نہر کے دوسرے کنارے سے ایک باریش آدمی کی آواز آئی: ”او کاکا! تم اس وقت نہر میں پاؤں لٹکا کر بیٹھے ہو تو ارادہ کیا ہے؟ کیا خودکشی کرنا چاہتے ہو؟“…… اس کی آواز سن کر ذہن کو ایک جھٹکا سا لگا اور ماسٹر عبدالعزیز صاحب نے ”کلامِ موزوں“ کی جو تشریح فرمائی تھی وہ ایکدم کافور ہو گئی اور میں پانی سے پاؤں باہر نکال کر سر جھکائے واپس گھر چلا آیا…… اور راستے بھر سوچتا آیاکہ اس ضرب المثل کا مخاطب کہیں ”جیلانی سلیم“ تو نہیں:

لوٹ کے بدھّو گھر کو آئے

مزید :

رائے -کالم -