مصر میں اخوان المسلمون اور مُرسی کے حامیوں پر مظالم

2012ء میں مصر میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جن میں ’’ اخوان المسلمون‘‘ کے محمد مرسی نے 51.7 فی صد ووٹ حاصل کرکے مصر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری طور پر منتخب صدر بننے کا منفرد اعزاز اپنے نام کر لیا۔ 30جون 2012ء کو منصبِ صدارت پر براجمان ہوئے۔ اسلامی دنیا میں مصر میں رونما ہونے والی اس مثبت تبدیلی کو خوب سراہا گیا۔ محمد مرسی اپنی اسلام پسندی اور حق گوئی کی وجہ سے معروف تھے اور شاید اسی وجہ سے عالمی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔
محمد مرسی نے نائن الیون کے بعد امریکہ کی جانب سے افغانستان اور عراق پر جنگ مسلط کر کے بدترین دہشت گردی کا مرتکب ہونے پر امریکہ کو تنقیدکا نشانہ بنایا تھا۔ مرسی نے 2010ء میں سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے دو ریاستوں کے قیام کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اسے فراڈ قرار دیا تھا۔ حق پرستی کی عادت کی وجہ سے ان کو بارہا جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔ 2011ء میں جب حسنی مبارک کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو محمد مرسی سمیت اخوان المسلمون کے 24 رہنماؤں کو پاپندِ سلاسل کر دیا گیا، مگر مرسی صاحب نے اس غیرمنصفانہ فیصلے کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا ، اور دو روز بعد ہی جیل توڑ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور ملکی سیاست میں بھرپور کردار ادا کرتے رہے ، حتیٰ کہ جون 2012ء میں صدر بن گئے۔مغربی دنیا اور نام نہاد عالمی طاقتیں جو جمہوریت کی بڑی علم بردار بنی پھرتی ہیں، محمد مرسی کی جمہوری فتح کو ہضم کرنے میں ناکام ہو گئیں، کیونکہ اس جمہوریت کو اسلام پسندی کا تڑکا جو لگا ہوا تھا۔ وہ اسلام جس کا اگر بول بالا ہو گیا تو ان عالمی طاقتوں کی بنیادیں ہل جائیں گی اور ہزار جتن کے باوجود ان استبدادی قوتوں کی ایک نہیں چلے گی ، یوں دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن قائم ہو جائے گا جو کہ یہ عالمی دہشت گرد ہرگز گوارا نہیں کریں گے، لہٰذا مرسی کے صدر بنتے ہی کچھ طاقتیں ماہئ بے آب کی مانند تڑپنے لگیں۔ بائیں بازو کی چند اسلام مخالف، سیکولر، لادین اور عیسائی قوتوں کے اشتراک سے کچھ تنظیموں اور افراد نے نومبر 2012ء میں مرسی حکومت کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ ادھر مرسی کے حامی ، اخوان المسلمون کے کارکنوں نے بھی مرسی کے حق میں مظاہرے کئے۔ بات چند نادیدہ قوتوں کی حمایت سے مرسی مخالف مظاہرہ کرنے والوں اور مرسی کے حامیوں کے مابین تصادم تک جا پہنچی۔
یہاں مرسی حکومت حالات پر قابو پانے کی سعی میں مصروف تھی تو وہاں صورت حال کا پوراپورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت کے مصری آرمی چیف اور وزیر دفاع عبدالفتاح السیسی نے بغاوت کرتے ہوئے جمہوری طور پر منتخب اسلام پسندوں کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور محمد مرسی کو گرفتار کر لیا گیا۔سیسی نے عدلی منصور کو عبوری صدر نامزد کیا اور اخوان المسلمون پر پاپندی عائد کر تے ہوئے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اپنے مغربی آقاؤں کی تسکینِ قلب کا سامان فراہم کر دیا۔ مصری حکام نے مرسی کے خلاف2011ء میں جیل توڑ کر فرار ہونے، مظاہرین پر تشدد کرنے اور دیگر کئی الزامات کے تحت مقدمہ چلایا اور آناً فاناً انہیں موت کی سزا سنا دی گئی۔ترک صدر رجب اردوان نے اس شرمناک فیصلے کی شدید مذمت کی اور ساتھ ہی مغرب کے دوہرے معیار پر اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف تو مغربی ممالک سزائے موت کے خاتمے کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف مصر میں اسی سزا کا تسلسل خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔
8 جولائی کو مرسی کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو سیسی کی فوج نے بھیانک تشدد کا نشانہ بنایا جس میں کم ازکم 51 مظاہرین شہید ہوئے۔ہولناک ریاستی تشدد کا وہ سلسلہ جو محمد مرسی کی برطرفی سے شروع ہوا، آج بھی اسی شد و مد سے جاری و ساری ہے۔مئی 2014ء میں سیسی نے صدر بننے کے لئے صدارتی الیکشن لڑنے کا تکلف کیا۔ وہ الیکشن جو اخوان المسلمون کی شرکت کے بغیر لڑا گیا۔ یوں جون 2014ء میں سیسی نام کا ایک اور فوجی آمرعالمی طاقتوں کے آشیرباد کے ساتھ مصری عوام پر مسلط ہو گیا۔ مغربی طاقتوں نے سیسی کو خوش آمدید کہا، امریکہ اور یورپی ممالک نے بھی سیسی کو سر آنکھوں پہ بٹھا لیا۔
جون 2015ء میں سیسی کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم، ’’ہیومین رائٹس واچ‘‘ نے مصر میں سیسی کے زیر سرپرستی ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر مشتمل ایک رپورٹ شائع کی۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ مصری فوج نے 14 اگست کو، ایک ہی یوم میں مرسی کے کم از کم 900 حامیوں کو شہید کیا تاکہ دارالحکومت قاہرہ کو ’’دہشت گردوں‘‘ سے پاک کیا جا سکے۔ مصر کی نیم سرکاری فوجی کونسل برائے انسانی حقوق نے مئی 2015ء میں شائع ہونے والی اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا کہ مرسی کی برطرفی سے 2014ء کے خاتمے تک تقریباچھبیس سو (2600) لوگ قتل ہوئے جن میں اکثریت مرسی کے حامیوں کی تھی۔اسی طرح جنوری 2015ء میں کم از کم 20 جبکہ فروری میں 19 نہتے شہریوں کو مصری فوج نے قتل کیا۔ یوں تو ایک چوزے کے مرنے پر بھی امریکی حکام مگرمچھ کے آنسو بہانا نہیں بھولتے ، مگر مصر میں بہتی اشک و خون کی ندیوں پر بھی ذرا ان شعبدہ بازوں کا ردِعمل ملاحظہ ہو۔ ایک طرف تو مئی 2015 ء میں امریکی حکومت نے قبول کیا کہ مصری حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے تو دوسری طرف ایک ہی مہینے بعد، جون 2015 ء میں امریکی صدر باراک اوبامہ نے مصری حکومت کو اسلحہ کی بھرپور امداد فراہم کی اور اسے مستقبل میں بھی جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کر ڈالا۔ یورپی یونین کا طرزِعمل بھی منافقانہ ہی رہا۔ یوں مغربی طاقتوں سے حاصل ہونے والا اسلحہ اور گولا بارود مصر میں اسلام پسندوں کی آواز دبانے میں کام آتا رہا اور تاحال یہی کھیل جاری ہے۔
اموات کے ذکر کے بعدلاکھوں کی تعداد میں ہونے والی غیر قانونی اور ناجائز گرفتاریوں کے موضوع پر علیحدہ بحث درکار ہے۔حال ہی میں 13 جولائی 2016ء کو منظرعام پر آنے والی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں سیسی کے زیر سایہ ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے دل دہلا دینے والے انکشافات موجود ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح مصری حکومت اخوان المسلمون کا قلع قمع کرنے کے لئے طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے۔ مصری حکومت کے اپنے اعتراف کے مطابق 34,000 لوگوں کو (جن میں اکثریت اخوان المسلمون کے کارکنوں کی ہے) جیل کی ہوا کھانی پڑ رہی ہے، جبکہ اصل تعداد ممکنہ طور پر اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ یوں توپہلے بھی سیسی حکومت نے مصر کی قومی سلامتی کی ایجنسی(جو کہ پولیس کا خفیہ ادارہ ہے) کے مسلح غنڈوں کو اسلام پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لئے مکمل آزادی دے رکھی تھی ، مگر اگست 2015 ء میں ’’انسداد دہشت گردی قانون‘‘ جیسے سفاکانہ ا ور بہیمانہ قانون (جو کہ مصری آئین سے بھی متصادم ہے) کی منظوری کے بعدحالات اور بھی مخدوش ہو گئے۔ سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے طلبہ اور بچوں کو اخوان المسلمون کی حمایت کے الزام میں گرفتار کیا چکا ہے جن کے لواحقین کو علم تک نہیں ہونے دیا جا رہا کہ ان کے پیارے کہاں اور کس حال میں ہیں؟ مصری حکام لواحقین کو کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے مسلسل گریزاں ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دورانِ قید ان بے بس و لاچار قیدیوں کو بدترین ذہنی، جسمانی اور جنسی تشددکا نشانہ بنا کر درندگی کی تمام حدود عبور کر کے شیطان کو شرمایا جا رہا ہے۔ یوں مصری حکومت امن پسندوں اور اسلام پسندوں کو عتاب کا نشانہ بنا کر ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔
اپنے پہلو میں انسانی دل رکھنے والے حضرات اس رپورٹ پہ بلبلا اٹھے ہیں مگر عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ایک طرف سیسی حکومت کا یہ رقص ابلیس جاری ہے تو دوسری طرف وہ عالمی دہشتگرد ریاست اسرائیل کے ساتھ عشق و محبت کی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہے۔مئی 2016ء میں اسرائیل کے ہاؤسنگ منسٹر گالانٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’سیسی ہماری نظروں میں درست مقام پردرست آدمی ہے، سیسی ہی مسئلے کا حل ہے، ہم اس کی مدد کرنا بہت پسند کریں گے، ہم خوش قسمت ہیں کہ سیسی نے اقتدار پر قبضہ کیا‘‘۔ چند روز قبل بلومبرگ (ایک نشریاتی ادارہ) کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سابق اہم اسرائیلی عہدیدار نے بتایا کہ اسرائیل نے مصری حکومت کی اجازت سے گزشتہ چند برسوں میں جزیرہ نما سینائی(مصر) پر کئی ڈرون حملے کئے۔بلومبرگ کے مطابق اسرائیلی فوج کے ڈپٹی چیف آف سٹاف میجر جنرل گولان نے کہا کہ ’’(اسرائیل اور مصر کے درمیان) تعاون اس قدر بڑھ چکا ہے جس قدر پہلے کبھی نہ تھا‘‘۔ اسی طرح کچھ روز پہلے مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے اسرائیل کا سرکاری دورہ کیا جو تقریباً نو سال بعد کسی مصری عہدیدار کا اسرائیل کا دورہ تھا۔اس دوران سامح نے مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے دو ریاستوں کے قیام کی تجویز کی تائید کی اور ساتھ ہی کہا کہ مصر مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لئے ہر قسم کی امداد فراہم کر رہا ہے۔
ہیومین رائیٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بلومبرگ کے انکشافات کے بعد یہ سمجھنا ہرگز مشکل نہیں کہ ’’قیام امن‘‘ کے لئے سیسی حکومت کس طرح کی امداد فراہم کر رہی ہے۔یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ سیسی کا صاحبِ اقتدار ہونا اسرائیل کی خوش قسمتی کیوں ہے ساتھ ہی یہ بھی سبق ملا کہ کوئی نفسانی خواہشات کی زلفِ دراز کا اسیر، سراپا شیطانیت، ننگِ آدمیت ، دشمنِ انسانیت ، آمریت کا گدھ ، اگر اقتدار کی مردہ لاش کا حقدار ٹھہرنا چاہے تو سیسی کی طرح مغرب کا بغل بچہ بن کر اسلام دشمنی پہ اتر آئے، معصوموں کی جانیں لے، امریکہ سے مہلک ہتھیار لے، اسرائیل سے شاباش بھی لے اور اقتدار کا مزہ بھی لے، لیکن مکافاتِ عمل سے فرار ممکن نہیں۔ امرِ ناگزیر ہے کہ آج سیسی جن کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے، جب بھی اسلام کا بول بالا ہوا، مسلمان ان طاقتوں کے بازو ہی توڑ ڈالیں گے۔ انشاء اللہ! ہاں اس وقت سے پہلے پہلے جسے جو کرنا ہو کر لے، بیشک اللہ خوب حساب لینے والا ہے۔کچھ شرپسند عناصر ترکی میں بھی مصر جیسے حالات پیدا کرنے کے خواہاں ہیں۔غالباً انہیں دینِ مصطفی ﷺٰ کے ناموس کا کوئی سوداگر مل بھی گیا تھا، مگر ترکی کے غیور عوام اوران فرض شناس فوجیوں کو سلام پیش کیا جانا چاہیے، جنہوں نے مٹھی بھرشرپسندوں کی شرمناک سازش کو ناکام بنا دیا اور اصولوں کی حکمرانی کو ممکن بنا کر درخشندہ مثال قائم کی۔اہلیانِ اسلام اس شاندار کامیابی اور امریکی سی آئی اے کی مضحکہ خیز ناکامی پریقیناًمبارکباد کے مستحق ہیں۔