سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، 51ویں قسط
خان محمد کے کہنہ اور ماہر ہاتھوں میں جاتے ہی وسیم اکرم کی کرکٹ میں نکھار آگیا۔وہ ہماری ہیلتھ کلب میں بھی باقاعدگی سے آنے لگا اور اپنی فٹنس پر توجہ دیتا تھا۔ بالآخر1984ء میں وہ تاریخی لمحات بھی آگئے جب معلوم ہوا کہ وسیم اکرم قومی ٹیم میں منتخب ہو گیا ہے۔پھر جب راولپنڈی میں نیوزی لینڈ کے ساتھ میچ شروع ہوا تو اس روز میری دکان پر نوجوانوں کا رش تھا۔ سب اس کی کامیابی کے لئے دعائیں کررہے تھے۔اس روز میں نے کسی گاہک کی تصویر نہیں بنائی بلکہ اس روز بازار میں عام تعطیل کا اعلان کر دیا۔سارا بازار اور علاقہ ٹی وی کے سامنے بیٹھا مزنگ کے اس سپوت کو دیکھ رہا تھا، جو کبھی اپنی بوسیدہ،گندی تنگ گلیوں میں کھیلا کرتا تھا۔ وسیم نے جب پہلی وکٹ لی تو میں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔پھر تو یوں ہوا کہ جب بھی وسیم بال کرانے آتا ہمارے نعرے فضاؤں کا دل چیر نے لگتے۔ میں نے بوتلوں کے کریٹ منگوائے اور سارے بازار کو مٹھائی کھلائی۔ ہر کوئی مجھے مبارک باد دینے آرہا تھا۔ اس کی نانی اور والدہ خاص طورپر میرے پاس آئیں اور مجھے مبارک دی۔وسیم جب ہیرو بن کر مزنگ آیا تو ہم نے اس کا بھرپور استقبال کیا اور اپنے سٹوڈیو لاکر تصویر کھینچی۔ اس کی وہ تمام ٹرافیاں اور تصاویر آج بھی میرے سٹویڈیو کے اس شوکیس میں پڑی ہیں،جو وسیم نے قومی کرکٹر بننے سے پہلے حاصل کیں۔اس کے بعد وسیم جب بھی میری دکان پر آیا وہ فخر سے اس الماری کو دیکھتا اور پھر یہ کہنے سے باز نہیں آتا۔
سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، پچاسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’یامین بھائی مجھے وہ25روپے والا جرمانہ ابھی تک نہیں بھولا۔‘‘۔
وسیم اکرم دوستوں کا دوست اپنے ماضی کو یاد رکھنے والا خوبصورت ترین انسان ہے۔میں ان کے ہر گھریلو فنکشن میں تصویریں بناتا رہا ہو،اور آج بھی کبھی ان کے گھر کوئی تقریب ہوتی ہے تو وہ مجھے یاد رکھتا ہے۔
میں نے اذیت کے دن کیسے گزارے۔
وسیم اکرم کی زبانی
میں شاید دنیا کا بہت خوش نصیب انسان ہوں،اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بڑا کرم ہے۔اس نے مجھے زمین سے آسمان پر پہنچا دیا۔دولت،شہرت، عزت ،وقار سب کچھ ملا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لئے میں اس کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔مجھے وہ کچھ ملا جس کی کبھی میں تمنا کرتا تھا۔ پھر وہ بھی ملا جو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ میں تو لاہور کا ایک گم نام کھلنڈر نوجوان تھا جو گمنامی کی وادیوں میں بھٹک رہا تھا۔ میری طرح سینکڑوں،ہزاروں بلکہ لاکھوں وسیم اکرم لاہور کی سڑکوں اور گلیوں پر چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔اچانک خدائے عزوجل نے میرے دل کی آواز سن لی۔مجھے اس راستے پر ڈال دیا۔جس پر چل کر میں نے کامیابیوں کا ہمالیہ سر کرلیا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا کرم تھا۔
آج میں کرکٹ کی تاریخ کا بہت بڑا بولر بن چکا ہوں۔میں نے ون ڈے کرکٹ اور ٹیسٹ کرکٹ میں4500سے زیادہ وکٹیں لینے کا ریکارڈ بنایا ہے۔بولنگ کے بے شمار ریکارڈ اپنے نام کر ڈالے ہیں۔یہ سب اسی کا کرم ہے۔آج میں کیرئیر کے اختتام پر آپہنچا ہوں۔یعنی کامیابیوں کا جو سفر میں نے15سال پہلے شروع کیا تھا اب اس کا اینڈ ہونے والا ہے۔آج جب میں اپنے کیرئیر پر نظر ڈالتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے اور میرے دل سے یہی آواز نکلتی ہے کہ شکر ہے پروردگار کہ اس نے مجھے نوازا ہے۔اتنا نوازا ہے کہ شاید میں اس کا حقدار بھی نہیں تھا۔
لیکن کامیابیوں کی بلندیوں تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ کیرئیر میں کئی بار مجھے شدید اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ان دنوں کی تلخ یادیں میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ شاید وہ میرا امتحان تھا، میرے صبر کی آزمائش تھی یا میرے لئے قدرت کی تنبہیہ کہ کہیں میں کامیابیوں کے نشے میں اپنے فرائض سے غافل نہ ہو جاؤں۔تلخیوں کے اس دور کو میں فراموش کر دینا چاہتا ہوں۔ان کڑوی کسیلی یاوں کو دماغ سے کھرچ ڈالنا چاہتا ہوں۔لیکن بھول نہیں پاتا۔ انسان کا مقدر سدا ایک جیسا نہیں رہتا، کبھی کامیابیوں سے جوش ولولہ اور قوت میں اضافہ ہوتاہے۔ناکامی ،تکبر،نخوت اورانا پرستی کو ختم کرتی ہے۔اسی نشیب وفراز کا نام زندگی ہے۔یہ اللہ کی دین ہے بندے کا امتحان ہے۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔