پانی اور ماحولیات پر کرپشن
بات ہورہی تھی پینے کے پانی اور اس سے پیدا ہونے والے متوقع بحرانوں کی۔ڈاکٹر رفعت حسین بڑی دردمندی سے اس بات پر افسوس کا اظہار کررہے تھے کہ اگر ہم نے پانی کو محفوظ کرنے سے منہ موڑا تو پانی ہم سے روٹھ جائے گا۔پانی تو زندگی کی ضمانت ہے ۔ہم دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت ہیں لیکن کیا ہم نے پانی کے بارے میں کوئی کارآمد سٹریٹیجی بنائی ہے جو ایٹمی پاکستان کی بقا کو یقینی بنا سکے۔یہ صرف میرا درد نہیں ،پوری دنیا پاکستان کو خبردار کررہی ہے کہ ایٹمی وسائل رکھنے والا اور سی پیک جیسے اقتصادی منصوبے سے خطے کا گیٹ وے بننے والا یہ زرعی ملک پانی کے بغیر کیسے اپنی ترقی برقرار رکھ سکے گا؟ ڈاکٹر صاحب نے یہی باتیں مجیب الرحمن شامی صاحب کے ساتھ بھی ان کے ساتھ ملاقات کے دوران کیں ۔خاکسار ان کی باتیں بڑی توجہ سے سنتا جارہا تھا ۔معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بھارت بھی جاتے ہیں ۔پاکستان کے ساتھ ساتھ وہ بھارت میں بھی بچوں کے اُن سرجنز کو تربیت دیتے ہیں جو تالو اور ہونٹ کٹے بچوں کی سرجری کرتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب محض انسانی جذبہ کے تحت بھارت میں جاکر ایسے مستحق غریب بچوں کے مفت اپریشن کرتے ہیں ۔جب پانی کے بحران بات چلتی ہوئی سماجیات اور ماحولیات کی آلودگیوں کی جانب نکلی تو شامی صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان میں بنیادی فرق کیا دیکھا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اس ضمن میں بڑی حیرت انگیز بات بتائی اور سب سے پہلے انہوں نے کہا کہ پاکستان تو سورہ رحمٰن کی تفسیر ہے۔ بھارت اور پاکستان کے مابین بنیادی فرق غربت اور کسمپرسی اور شنوائی کا ہے ۔بھارت میں غربت اسقدر بدترین ہے کہ اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔غربت نے انکی عزت نفس اس قدر مجروح کررکھی ہے کہ انہیں جانوروں سے بدتر سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے جب کسی غریب بھارتی مریض کو ہسپتال میں مسکرا کر بھی دیکھ لیاجائے تو اسکی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں ۔مریض حیران ہوتا ہے کہ کیا کسی غریب سے کوئی امیریا کوئی ڈاکٹر مسکرا کربھی بات کرسکتاہے۔اسکی نسبت پاکستان مین اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی کسی غریب کو حقارت سے نظر انداز کرے یا اسکے حقوق کو سلب کرے تو جواباً وہ خاموش رہ جائے گا۔بہر حال ہمارے ہاں امتیازی سلوک اور بنیادی حقوق کی تلفی تکلیف دہ حد تک نظر آتی ہے لیکن انسانیت کا درد اور آزادی اظہار بھی یہاں موجود ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی باتیں صداقت پر مبنی ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی تلفیوں کے باوجود یہاں کے غریب کی عزت نفس پر زیادہ آنچ نہیں آتی ۔ خیراتی ادارے ایسے لوگوں کی مدد کرتے ہوئے ان کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہیں ۔پاکستان کا سماجی کلچرتیزی سے تبدیل ہورہا ہے لیکن اسکے ساتھ ہی جس کلچرمیں زوال آرہا ہے وہ احساس ذمہ داری اور فرض کی ادائیگی میں دانستہ کوتاہی کا ہے۔اگر ہردورکی حکومت اس خطرے کو بھانپ لیتی کہ آنے والے وقتوں میں پاکستان پانی اور فضائی آلودگی کی وجہ سے پیچیدہ حالات کا شکار ہوجائے گا ، جس سے معاشی اور سماجی نظام بری طرح متاثر ہوگا تو پیش بندی سے بحرانوں کو ختم کیا جاسکتا تھا۔ حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں پانی جہاں متوقع بحرانوں کا سبب بنے گا وہاں فضائی آلودگی پاکستان کی سانس روک دے گی۔ گاڑیوں اور صنعتوں کے علاوہ دیگر وجوہات کی وجہ سے پاکستان میں موسم تیزی سے اپنا مزاج بدل رہے اور شہروں میں آکسیجن کی سطح گرتی جاری ہے۔جبکہ کاربن ڈائی اکسائیڈ خارج کرنے والے ملکوں میں پاکستان تیزی سے اوپر آرہا ہے۔اسکا علاج درختوں اور پودوں میں مضمر تھا مگر تعمیراتی نام اور ٹمبر مافیاؤں نے ملک کو ٹنڈ منڈ کرنا شروع کررکھا ہے۔ اس بات کا شعور عام پاکستانی کو ہورہا ہے اور بہت سی تنظیمیں اور ادارے حکومت کو متوقع خطرات سے آگاہ کررہے ہیں لیکن حکومت فرضی گرین سکیموں کے فیتے کاٹنے تک محدود ہیں۔پچھلے دنوں ایک ٹورسٹ ایسوسی ایشن کے ٹو کنگز کی تقریب میں سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر نثار اے میمن اور کئی جید و اساتذہ صحافیوں کو سننے کا موقع ملا۔اس محفل کا مقصد تو کے ٹو کنگز کے نوجوان بائیکرز کو گرین پاکستان کا شعور اجاگر کرنے پر نثار اے میمن صاحب کی واٹر اینڈ انوائرمنٹل فورم کی جانب سے تعریفی اسناد تقسیم کرنا اور پاکستان میں ٹورازم کی صورتحال کو اجاگر کرنا تھا لیکن زیادہ تر مقررین نے خاص طور پر پاکستان میں پانی کے آمدہ بحران اور ماحولیاتی آلودگی کے ہاتھوں سیاحتی مقامات کی بدحالی کا نقشہ کھینچ دیا۔نثار اے میمن نے بڑی خوبصورت بات کی کہ پاکستان کو اب زیادہ تر چھوٹے علاقائی ڈیم بنانے چاہیءں۔کیونکہ پاکستان میں نہری اور دریائی نظام بہت پھیلا ہوا ہے جو قدرت کی عنایت سے جاری و ساری ہے۔ان علاقائی دریاؤں کا پانی خاص طور برساتوں میں جمع ہوتا ہے اور جا کر سمندر میں بہہ جاتا ہے حالانکہ انڈیا سمیت اردگرد میں زیادہ تر ملک چھوٹے ڈیموں پر کام کررہے ہیں ۔ہمیں اللہ نے بہت پانی دیا ہے،قدرتی دریائی اورآبشاری انفراسٹرکچر موجود ہے جس سے کم لاگت کے ڈیم بن سکتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر شفیق جالندھری نے پاکستان کے پہاڑی علاقوں کے چشموں کے قدرتی منرل واٹر کی ابتر ہوتی ہوئی حالت پر توجہ دلائی ۔میں ذاتی طور پر بھی اس تجربہ سے گزرا ہوں کہ ہمارے شمالی پہاڑی اور کشمیری علاقوں میں جو چشمے تھے اب آلودگی سے اٹ رہے ہیں اور ان کے پانیوں میں گندگی نظر آنے لگی ہے۔یہ پانی جو آب حیات سمجھا جاتا تھا اور ملک بھر سے لوگ ان چشموں کا پانی پینے کے بعد خود کو سپر فٹ محسوس کیاکرتے تھے اب انہیں بھی اس سکو پینے سے ہیپاٹائٹس ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔چند سالوں میں ہمارے قدرتی چشموں کا پانی آلودہ ہوجانا کسی سانحہ سے کم نہیں۔مجھے نہیں یاد پڑتا کہ پہلے کبھی ان علاقوں میں جاتے ہوئے ہم اپنے ساتھ منرل واٹر کی بوتلیں خرید کر ساتھ لے جاتے ہوں گے مگر اب یہ کام کرنا پڑتا ہے۔یقین کیجئے کہ پاکستان میں ایک سو آٹھ پہاڑیاں ایسی ہیں جو سات سو میٹر سے بلند ہیں جبکہ چارسو سے چھ سو میٹر والی پہاڑیاں سینکڑوں میں موجود ہیں اور ہر پہاڑی میں قدرتی چشموں ،گلیشئیرز کا پانی محض سرکار کی ناقص منصوبہ بندی اور متوقع سنگینی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے۔دوسری جانب آلودگی کا بھی مستقل علاج کرنے کی ضرورت ہے۔اسکا بہترین طریقہ شجر کاری ہے ۔لیکن افسوس کہ کہ شجر کاری کے نام پر لوٹ مار کا بازار سرگرم ہے۔ کوئی اس ضمن میں سوال نہیں اٹھا رہا کہ ہر سال کروڑوں روپے سے لاکھوں پودے لگانے کے منصوبوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ مشرف دور سے اب تک شجر کاری اور گرین پاکستان کا نعرہ سننے میں آرہا ہے لیکن ہم سب اردگرد دیکھ کر اندازہ کرسکتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سال کتنے نئے پودے کاشت کئے گئے ہیں۔اگر ان میں سے آدھے پودے بھی کاشت کیے جاچکے ہوتے تو یقیناً پاکستان میں فضائی،وبائی آلودگیوں کا خاتمہ ہورہا ہوتا ۔اللہ کرے کوئی اس پہلو پر غور کرے اور پاکستان کے پانی اور ہوا پر کرپشن کرنے والوں کو روکا ٹہوکا جاسکے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔