تفہیمِ اقبال: ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقاء (1)

حضرتِ اقبال نے 1904ء سے لے کر 1907ء تک کے تین سال لندن میں گزارے۔ وہ وہاں وکالت (بیرسٹری)کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے گئے تھے۔ بیرسٹری کا نصاب تو انہوں نے جلد ہی پڑھ لیا تھا اور آخری امتحان کے لئے تیار تھے۔ لیکن اس دور میں شرط یہ تھی کہ وکالت کا امتحان دو سال سے پہلے نہیں لیا جا سکتا تھا۔ لہٰذا انہوں نے انڈیا آفس لائبریری میں جانا شروع کر دیا جہاں انگریزوں نے انڈیا کے بارے میں بہت سی کتابیں اور مسودات ایک ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ان مسودات میں ایرانی شعر و ادب کا بھی ایک گرانقدر سرمایہ موجود تھا۔اقبال نے اس پرشین لٹریچر کا بھی نہایت ژرف نگاہی سے مطالعہ کیا۔
اقبال کے لندن جانے سے بیشتر ان کے ایک استاد پروفیسر آرنلڈ جو گورنمنٹ کالج لاہور میں اقبال کے فلسفہ کے استاد تھے، ریٹائر ہو کر واپس لندن جا چکے تھے۔ اقبال ان کے ہاں بھی چلے جایا کرتے تھے اور ان سے اکتسابِ فیض کیا کرتے تھے۔ بیرسٹری کا نصاب تو اقبال نے جلد ختم کرلیا اور اب ان کو پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کرنے کا خیال ستانے لگا۔
ماضی کی بعض چیزیں اور واقعات اچانک یاد آ جاتے ہیں۔ بظاہر کوئی وجہ نہیں ہوتی لیکن لاشعور اور تحت الشعور کی کارفرمائیوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے یاد آیا کہ حضرت اقبال نے ڈاکٹریٹ کے لئے جو مقالہ (Thesis) لکھا تھا اس کا اردو ترجمہ دیکھنا چاہیے۔ جب میں اردو لٹریچر میں ماسٹر کر رہا تھا تو تلاشِ بسیار کے باوجود صرف ایک ہی ترجمہ مارکیٹ میں دستیاب تھا جس کا عنوان تھا: ”فلسفہ ء عجم“ لیکن وہ ترجمہ اتنا ادق اور ثقیل تھا کہ اورجنل انگریزی متن اس سے کہیں آسان لگتا تھا۔ میں نے لاہور کی بک شاپس سے پتہ کروایا کہ شاید اس کا کوئی دوسرا اردو ترجمہ مل جائے لیکن کامیابی نہ ہوئی۔
اس ضمن میں جو ایک سوال مجھے تنگ کرنے لگا وہ یہ تھا کہ آخر کلامِ اقبال کی شرحیں اور اردو ترجمے تو وافر تعداد میں مل جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اقبال نے انگریزی زبان میں جو سات لیکچر 1929ء میں دیئے تھے اور جو خطباتِ مدراس کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں ان کے دستیاب اردو تراجم کی تعداد بھی 14ہے۔ ان میں سے 3انڈیا سے اور باقی 11پاکستان سے مختلف مترجمین کے قلم سے نکلے۔ ان میں سے دوچار میری لائبریری میں بھی تھے لیکن 1907ء (یا1908ء) میں اقبال نے اپنا جو مقالہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لئے میونخ یونیورسٹی (جرمنی) میں پیش کیا تھا اور جس کا عنوان تھا:
Develpment of
Metaphysics in
Persia
اس کا ترجمہ کہیں موجود نہیں تھا۔مجھے اب یہ سوال اور بھی تنگ کرنے لگا کہ آخر اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی اگر برصغیر میں اس کا کوئی دوسرا اردو ترجمہ موجود نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے۔ چنانچہ میں نے وہ اکلوتا ترجمہ بازار سے منگوایا جس کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ یہ ترجمہ ”فلسفہء عجم“ کے نام سے نفیس اکیڈیمی حیدر آباد (دکن) سے 1936ء میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت اس کی قیمت تین روپے دو آنے تھی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن 1941ء اور تیسرا 1944ء میں اعظم اسٹیم پریس حیدرآباد (دکن) ہی سے شائع ہوا۔ اس کے مترجم میر حسن الدین بی اے، ایل ایل بی تھے۔ انہوں نے اپنے دیباچے میں لکھا تھا: ”پیشِ نظر کتاب علامہ اقبال کی The Development of Metaphysics in Persia کا ترجمہ ہے۔1927ء میں علامہ اقبال سے اس ناچیز نے اس کتاب کا ترجمہ کرنے کی اجازت چاہی تھی۔ علامہ موصوف نے ازراہِ کرم اجازت دیتے ہوئے تحریر فرمایا تھا کہ ”یہ کتاب اس سے 19سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس وقت سے نئے امور کا انکشاف ہوا ہے اور خود میرے خیالات میں بھی بہت سا انقلاب آ چکا ہے۔ جرمن زبان میں غزالی، طوسی وغیرہ پر علیحدہ کتابیں لکھی گئی ہیں جو میری تحریر کے وقت موجود نہ تھیں۔ میرے خیال میں اب اس کتاب کا تھوڑا سا حصہ باقی ہے جو تنقید کی زد سے بچ سکے“۔
تاہم میں نے سوچا کہ حضرت علامہ نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس مقالے کا ترجمہ نہ کیا جائے بلکہ اس کی اجازت دے دی تھی۔ یہ اجازت اگر 1927ء میں دے دی گئی تھی اور 2025ء تک اس کا کوئی اور ترجمہ اگر منظرِ عام پر نہیں آ سکا تو خیال آیا کہ اس کی وجوہات ضرور ہوں گی۔ چنانچہ اقبال کا اورجنل انگریزی مقالہ دوبارہ دیکھا اور اسے پڑھا تو معلوم ہوا کہ اس کا ترجمہ نہ کرنے کی وجوہات کیا تھیں …… میری نظر میں اس کی کئی وجوہات رہی ہوں گی جن کا مختصر ذکر کئے دیتا ہوں:
پہلی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ مقالے کے تقریباً ہر صفحے پر اقبال نے جن مشرق و مغرب کے فلاسفہ کا حوالہ دیا ہے اور ان کی تصنیفات یا تالیفات کے نام اور عنوانات بھی ساتھ ہی لکھ دیئے ہیں ان سے اردو زبان کا ایک اوسط فہم کا حامل قاری کچھ زیادہ آگاہ نہیں ہوتا اور صرف چند اولین صفحات پڑھ کر اس مقالے کے مزید مطالعے سے دستکش ہو جاتا ہے۔
دوسری وجہ مقالے میں زیرِ بحث موضوعات کا اجنبی پن اور ان کی مغائرت ہے۔ اول تو قارئین کو لفظ ”مابعدالطبیعات“ کے معانی ہی سے کچھ زیادہ شناسائی نہیں ہوتی اور اگر ان کو یہ بتا بھی دیا جائے کہ جو چیز نظر نہیں آتی یا انسانی حواسِ خمسہ ان کا ادراک نہیں کر پاتے اس کو مابعد الطبیعات کہا جاتا ہے تو بھی ان کو باطنی ادراکات بتانے یا سمجھانے میں کافی وقت اور محنت درکار ہوتی ہے۔
تیسری وجہ اقبال نے اس مقالے میں جن اصطلاحاتِ فلسفہ کو استعمال کیا ہے، ان کا اردو ترجمہ کسی انگلشں۔ اردو ڈکشنری میں فراہم نہیں۔ میں نے مارکیٹ سے پتہ کروایا کہ آیا علومِ فلسفہ کی کوئی ایسی ڈکشنری بھی مل سکتی ہے جس میں انگریزی اصطلاح کا اردو ترجمہ بھی ساتھ دیا گیا ہو لیکن اس میں بھی مجھے کوئی کامیابی نہ ملی۔ انگریزی سے انگریزی ترجمے اور تشریح کی لغاتیں تو نیٹ (NET) پر بھی تھیں اور مارکیٹ میں بھی مل جاتی ہیں لیکن نجانے کیوں ان انگریزی اصطلاحات کے اردو مترادفات دستیاب نہیں۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ اقبال نے اس معاملے میں اپنے مقالے میں جن مفکرین کے حوالے جابجا دیئے ہیں ان میں 36غیر مسلم اور 46مسلم فلاسفہ شامل ہیں۔ کوئی قاری جب تک ان فلاسفہ کی تعلیمات و افکار سے آگاہ نہیں ہوتا، وہ یہ نہیں جان سکتا کہ ان مفکرین نے کون کون سے مابعد الطبیعاتی مسائل پر نقد و نظر کیا ہے۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ اقبال نے جن فکری اور مسلکی / مذہبی تحریکات کا ذکر اپنے اس مقالے میں کیا ہے جب تک ان کی کوئی مختصر تاریخ قاری کے سامنے نہیں ہوتی، وہ ان تحریکات کی غرض و غائت اور ان کے سیاق و سباق سے آگہی نہیں پا سکتا۔
چھٹی اور آخری وجہ جو اس مقالے کے رواں اور سہل اردو ترجمے کی نایابی کا سبب بنی وہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب تک قاری کا اپنا تعلیمی اور معلوماتی پس منظر اس کینڈے کا نہ ہو کہ وہ اس میں ڈسکس کئے گئے مباحث سے کماحقہ آگاہ ہو سکے یا لطف اٹھا سکے تب تک اس مقالے کی تفہیم ایک چیستاں بنی رہتی ہے۔
میں نے ایک دن باتوں باتوں میں ان مسائل و معاملات کا ذکر جب اپنے بیٹے سے کیا تو وہ بڑے غور سے میری باتیں سنتا رہا۔ وجہ یہ تھی کہ اسے بھی اقبالیات اور مابعد الطبیعاتی مسائل سے ایک گونہ دلچسپی ہے۔ اس نے مجھے کہا: ”اگر اس مقالے کا کوئی اردو ترجمہ آج دستیاب نہیں اور جن مشکلات کا ذکر آپ نے کیا ہے، وہ واقعی اس طرح کی ہیں تو آئندہ مزید ایک سو سال گزر جائیں گے اور کوئی مترجم اس طرف دھیان نہیں دے گا…… کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ اس ہفت خواں کو طے کرنے کا سوچیں …… کلامِ اقبال سے آپ کو دلچسپی ہے، انگریزی، فارسی اور عربی زبانوں کی کافی شُد بُد آپ کو ہے، علومِ فلسفہ سے بھی آپ کو ایک شغف رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ اگر کوشش کریں تو اس میدان میں ”کود“ سکتے ہیں …… جہاں تک اس مقالے میں ذکر کئے گئے مشرقی اور مغربی مفکرین کی آراء اور ان کی تصنیفات وغیرہ کا سوال ہے تو آپ اس مقالے میں بیان کردہ چھ ابواب (Chapters) کے ہر باب کے آخر میں ان کی مختصر سوانح کا ذکر کر سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ اس ترجمے کی ضخامت دوچند ہو جائے گی لیکن قارئین کے لئے یہ ایک پیش قیمت کاوش ہو گی“۔
(جاری ہے)