وہ سب ہال نما کمرے میں آگئے۔ عمارہ آتش دان کے قریب کھڑی ہوگئی۔’’یہاں سے تھوڑی سی جگہ صاف کر لیتے ہیں۔‘‘ عمارہ اور ساحل دونوں مل کر وہاں سے فرش صاف کرنے لگے اور اسامہ اور عارفین آتش دان میں لکڑیاں جوڑکر آگ جلاے کی کوشش کرنے لگے۔
کچھ ٹوٹی ہوئی کرسیوں کے ٹکڑے گرے ہوئے تھے۔ عارفین نے وہ ٹکڑے بھی آتش دان میں جوڑ دئے۔ اسامہ نے لائٹر سے آگ لگا دی۔
آتش دان میں آگ بھڑک اٹھی۔ جس سے نہ صرف ان کو حرارت ملی بلکہ کمرے میں سرخی مائل دلیے دلیے سی روشنی بھی پھیل گئی تھوڑا سا حصہ صاف کرنے کے بعد وہ چاروں سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے آتش دان کے قریب بیٹھ گئے۔
عمارہ نے اپنی کمر سے بیک بیگ اتارا اور اس میں سے پانی کی بوتل نکالی۔ عارفین نے اپنے کندھے سکیڑتے ہوئے عمارہ کی طرف دیکھا۔’’ہمیں سردی لگ رہی ہے اور تمہیں پیاس لگی ہوئی ہے۔‘‘
’’حلق خشک ہو رہا ہے۔‘‘ عمارہ نے پانی کا ایک گھونٹ لیا اورپھر بوتل کا ڈھکن بند کر دیا۔ ساحل عمارہ کے قریب ہوکے بیٹھ گیا۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ قسط 62 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
***
رات بہت ہوگئی تھی پورا ریسٹ ہاؤس گمبھیر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس پر سکون خاموشی میں بھیانک راز پہناں تھے۔ ہوا بھی جیسے اس سازش میں شامل ہوگئی تھی اور گھنے درختوں کے جھنڈ بھی جن میں کچھ تھا اور اس کے پتوں میں معمولی لرزش تک نہ تھی۔ دھیرے دھیرے شیطانی قوتیں جیسے اس ریسٹ ہاؤس کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھیں۔
عمارہ نے اپنے بیگ سے ایک پلاسٹک کا ڈبہ نکالا۔ اس نے ڈبہ کھولا تو اس میں چھ شوارمے رول تھے۔ اس نے وہ رول اپنے تینوں ساتھیوں کو دیئے۔
’’ہم نے تو کھانے کا کچھ اور سامان رکھا تھا یہ شوارمے کہاں سے آگئے۔‘‘ ساحل نے شوارما لیتے ہوئے کہا۔
عمارہ بھی اپنا شوارما لے کر آلتی پالتی مار کے بیٹھ گئی’’میں نے یہ ہوٹل سے لے لیے تھے میرا خیال تھا یہ کھانے کی کمی پوری کر دے گا۔‘‘
اسامہ نے اس کا لقمہ لیا’’ہوں ،ویری ٹیسٹی یہ اچھا کیا تم نے۔۔۔‘‘
چاروں مزے لے لے کر شوارما کھانے لگے دائرے میں بیٹھنے کے بعد انہیں عجیب سا اطمینان تھا۔ اسامہ نے مسکراتے ہوئے عمارہ کی طرف دیکھا۔
’’ویسے تمہارے ساتھ ہونے سے یہ فائدہ تو ہے کہ ڈھنگ سے کچھ کھانے کو مل جاتا ہے۔ ایک بات تو بتاؤ۔۔۔‘‘
’’کیا۔۔۔‘‘ عمارہ نے لاپروائی سے کہا۔
اسامہ اس کے تھوڑا قریب ہوکے بیٹھ گیا’’تم اب تو مجھ سے ناراض نہیں۔‘‘
عمارہ کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس نے شوارما کھاتے ہوئے ترچھی نظروں سے اسامہ کی طرف دیکھا۔’’میں یہ نہیں کہوں گی کہ تم سے ناراض نہیں ہوں کیونکہ تم نے اپنی حرکتوں سے باز نہیں آنا اور پھر دوبارہ ایسی ویسی بات کہنی ہے۔‘‘
اسامہ نے اپنا شوارما تھامے ہوئے ہاتھ کی طرف دیکھا۔’’میرا دوسرا ہاتھ نہیں ہے ورنہ میں کان ضرور پکڑتا۔‘‘
عمارہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ اس نے اپنائیت سے اسامہ کی طرف دیکھا’’تھوڑے پیچیدہ ہو مگر انسان اچھے ہو۔۔۔‘‘
اسامہ نے اپنی آنکھیں بند کرکے کھولیں۔’’شکریہ۔۔۔‘‘
کھانے سے فارغ ہوکے وہ چاروں کچھ نہ کچھ پڑھنے لگے کوئی سورہ یٰسین تو کوئی چاروں قل۔انہیں مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے رب کا سہارا ہی تھا۔
عمارہ، ساحل اور عارفین کی آنکھ لگ گئی۔ اسامہ نے ایک نظر ان تینوں پر ڈالی جو گہری نیند سو گئے تھے۔ اس نے ایک گہری سانس بھری اور اردگرد نظر دوڑائی۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ وہ جاگتا رہے وہ تھوڑی دیر ہی اس کی کوشش میں کامیاب رہا بالآخر اس کا تھکا ہوا جسم ہار گیا اور وہ دھڑام سے زمین پر گر کر سو گیا۔
طلوع آفتاب کی من چلی شعایں جب ان کیساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگیں تو عمارہ کی آنکھ کھل گئی۔ باقی تینوں گہری نیند سو رہے تھے۔ اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے دھیرے دھیرے چاروں طرف نظر دوڑائی اس کی آنکھیں عجیب نظارہ دیکھ رہی تھیں۔ سب کچھ بدل چکا تھا رات ورات کسی نے اس کمرے کو چمکا دیا تھا۔
اسے یوں لگا رہا تھا کہ وہ ماضی میں پہنچ گئی ہے۔جب یہ ریسٹ ہاؤس نیا نیا تعمیر ہوا ہو۔ اس نے ساحل کو جھنجوڑا’’ساحل اٹھو۔۔۔‘‘
اس کی آواز سے ساحل کے ساتھ عارفین اور اسامہ بھی اٹھ گئے۔ اس سے پہلے کہ عمارہ انہیں کچھ بتاتی ان کی حالت بھی عمارہ جیسی ہوگئی وہ بھی مبہوت نظروں سے کمرے کی چیزیں تکتے ہی رہ گئے۔
’’ریسٹ ہاؤس کا باقی حصہ دیکھتے ہیں‘‘ ساحل نے کہا۔
وہ چاروں ریسٹ ہاؤس کے مختلف کمروں میں بکھر گئے ہر کمرے کا نقشہ بدلا ہوا تھا۔ فرشوں سے لے کر ڈیکوریشن پیس تک ہر چیز چمک رہی تھی۔ صحن کا نظارہ تو بہت خوبصورت تھا۔ پتھریلی زمین والی خالی کیاریوں میں خوبصورت پودے لگے ہوئے تھے جن کے اردگرد بہت نفاست سے باڑ لگائی گئی تھی۔ ان کیاریوں میں گلاب کے پودے زیادہ تھے جن پر سرخ گلابی اور سفید گلاب کے پھول کھلے ہوئے تھے۔
وہ چاروں صحن میں کھڑے تھے۔ اس خوبصورتی سے مسرور ہونے کے بجائے وہ خوفزدہ تھے۔ ساحل الٹے قدموں سے پیچھے ہٹنے لگا۔’’کوئی ایک رات میں یہ سب کیسے کر سکتا ہے۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے جیسے سینکڑوں سال پہلے فوت ہونے والے لوگ بھی ہمیں یہاں چلتے پھرتے دکھائی دیں گے۔‘‘
عمارہ کمرے میں داخل ہونے کے بعد کچن میں داخل ہوئی۔ عمارہ خوفناک اندازمیں چیخی تو وہ تینوں کچن کی طرف بھاگے۔
وہ کچن میں پہنچے تو عمارہ نے سامنے دیوارکی طرف اشارہ کیا۔ تازے چپچپاتے خون سے دیوار پر لکھا تھا’’طلسماتی اور سنسناتی دنیامیں خوش آمدید۔‘‘
دیوار کے قریب ہی میز پر گرم گرم ناشتہ سجا ہوا تھا۔
وہ سب جیسے سن ہوگئے۔ سہمی سہمی نظروں سے ان چاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا’’یہ سب کیا ہے اسامہ۔۔۔‘‘عمارہ نے پوچھا۔
اسامہ نے بلند آواز میں کہا’’یہ ہمزاد کی موجودگی کا اعلان ہے مگر ہم وہ سب نہیں کریں گے جو فواد اور اس کے دوستوں نے کیا۔ ہم اعلان جنگ کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کر اسامہ نے اپنے بیگ سے خنجر نکالا اور عمارہ کی طرف بڑھایا۔
’’یہ خنجر پکڑو اور میرے بازو پر کٹ لگاؤ۔۔۔‘‘
عمارہ نے خنجر نہیں پکڑا’’یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔‘‘
اسامہ ساحل کی طرف بڑھا’’تم کٹ لگاؤ۔۔۔‘‘
ساحل نے نفی کے انداز میں سر ہلایا تو اسامہ بھڑک کے بولا’’جو میں کہتا ہوں کرو۔۔۔‘‘
ساحل نے اس کے بازو پر کٹ لگا دیا۔
اس کے زخم سے خون رسنے لگا۔ اس نے ایک میز پر خون کے قطرے گرائے اور پھر اس نے اپنی انگلی اپنے خون پر رکھی اور دیوار پر کندہ پراسرار تحریر کا جواب لکھنے لگا۔
اس نے بھی خون سے لکھا’’طلسماتی اور سنسناتی دنیا سے سبکدوش ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘
عارفین ، اسامہ اور ساحل تینوں پتھر کے بت کی طرح کھڑے تھے ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئی تھیں۔ وہ جانتے تھے کہ وہ اپنی موت کو للکار چکے ہیں۔ وہ چاروں اعلان جنگ کر چکے تھے۔
جس کا نتیجہ بھیانک ترین ہو سکتا تھا۔ اسامہ عمارہ کے قریب کھڑا ہوگیا۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ ایک دوسرے سے دور نہ ہوں۔ اچانک پہاڑوں میں زلزلے کی بھیانک گونج کے ساتھ کچن کی ہر چیز لرزنے لگی۔ ٹیبل کے ہلنے کی وجہ سے میز پر رکھے برتن ٹک ٹک کی آواز کے ساتھ ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔
اسامہ کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی ساعت میں عمارہ ، ساحل اور عارفین اپنی جگہ سے غائب ہوگئے ایک لمحے لیے لیے اسامہ کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کی روح کھینچ لی ہو۔ وہ حواس باختہ ہوگیا۔ اس نے بازو پھیلائے اور اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے چلایا۔’’اس طرح چھپ کے وار مت کرو ہمارے سامنے آؤ۔‘‘
اسامہ نے ابھی یہ کہا ہی تھا کہ عمارہ کی دلسوز چیخیں اس کی سماعت سے ٹکرائیں۔ وہ کچن سے باہر نکلا اور آواز کی سمت پاگلوں کی طرح دوڑنے لگا۔ آواز کا تعین کرتے کرتے اسامہ ریسٹ ہاؤس کے برآمدے تک پہنچ گیا داخلی دروازے کے دونوں حصے کھلے ہوئے تھے چیخوں کی آوازیں ریسٹ ہاؤس کے باہر سے آرہی تھیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے اپنے ذہن کی نہیں سن رہا تھا۔ بس دوڑتا جا رہا تھا۔
وہ پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ گیا۔ چیخوں کی بازگشت اس طرح گونج رہی تھی کہ اس کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا تھا کہ وہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں۔ وہ پریشانی سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا پھر نیچے کی طرف دیکھا جہاں گہری کھائیاں تھیں۔ اسی دوران اس کی نظر پہاڑ کے ایک کونے سے ابھرتے ہوئے درخت پر پڑی وہ سر تاپا کانپ کے رہ گیا۔ عمارہ درخت کی شاخ کو دونوں ہاتھوں سے تھامے لٹکی ہوئی تھی نیچے گہری کھائیاں تھیں اور اس کے ہاتھوں کی گرفت کسی بھی وقت ڈھیلی ہو سکتی تھی۔
’’عمارحوصلہ رکھو میں آرہا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اسامہ نے اپنے بیگ سے بیلٹ اور رسی نکالی اس نے اپنی کمر پر بیلٹ پہنی جس کے ساتھ اس نے رسی کا ہک اٹکایا۔ رسی کا دوسرا حصہ اس نے بڑے سے پتھر پر باندھ دیا اور دھیرے دھیرے پہاڑ کی چوٹی سے اترتا ہوا عمارہ کی طرف بڑھنے لگا۔ اس نے عمارہ کے قریب پہنچ کر اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
’’عمارہ میرا ہاتھ پکڑ لو تو تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ ہمت کرو۔‘‘
روتی ہوئی عمارہ کے چہرے کے تاثرات یکسر بدل گئے اس کے لبوں پہ تضحیک آمیز مسکراہٹ بکھر گئی اس نے اپنے دونوں ہاتھ چھوڑ دیئے۔
اسامہ چلایا’’عمارہ۔۔۔‘‘
عمارہ کا چہرہ بھیانک ہوگیا اور وہ کسی چڑیل کی طرح چنگھاڑتی ہوئی ہوا میں اڑتی ہوئی دوسرے پہاڑ پر جا بیٹھی اور پھر غائب ہوگئی۔ اسامہ پہاڑ پر جوگرز لگاتے ہوئے بمشکل اوپر چڑھا۔ کسی نے اس کی سماعت میں سرگوشی کی’’تم جانتے ہو کہ ہمزاد اسی طرح تنگ کرتے ہیں پھربھی تم ان کے دھوکے میں آگئے۔‘‘
اسامہ نے جبیں پیمائی کرتے ہوئے خودکلامی کی’’پتہ نہیں مجھے کیا ہوگیا تھا۔۔۔‘‘
پھر وہ وقت ضائع کئے بغیر ریسٹ ہاؤس میں واپس چلا گیا۔ وہ اونچی اونچی آواز میں اپنے دوستوں کوپکارنے لگا’’عمارہ، ساحل،عارفین۔۔۔‘‘
بدلے میں اسے کوئی جواب نہ ملا۔
وہ دھیرے دھیرے قدم رکھتا ہوا صحن میں چلتا رہا اور ساتھ ساتھ دعا پڑھتا رہا۔ اس کا پاؤں لکڑی کی کسی چیز سے ٹکرایا۔ اس نیچے دیکھا تو لکڑی کا ایک تختہ سا تھا۔ اسامہ اس تختے کے قریب بیٹھ گیا۔ تختے کا آدھا حصہ ابھرا ہوا تھا۔ اس نے ابھرے ہوئے حصے کو دائیں طرف دکھیلا تو بآسانی فرش کے نیچے کسی فریم میں داخل وگیا۔ ایک لکڑی کی سیڑھی اندر جاتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اسامہ نے اندر جھانک کہ دیکھا غالباً یہ تہہ خانہ تھا۔وہ زیادہ سوچے بغیر اس لکڑی کی سیڑھی سے تہہ خانے میں اتر گیا۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ قسط 64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں