وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ قسط 64
گھٹی گھٹی سی آوازیں اسامہ کی سماعت سے ٹکرائیں تو وہ بوکھلا گیا۔ وہ ٹارچ کی روشنی میں ان آوازوں کی سمت میں بڑھنے لگا۔ اس کا دل دہل رہا تھا۔ اس کے قدم اسے ان آوازوں تک لے گئے۔
گھٹی گھٹی بے بس آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں مگر اسے کوئی نظر نہیں آرہا تھا کسی نے اس کے پاؤں پر زور سے اپنا پاؤں مارا تو اس نے میز کے نیچے دیکھا۔ تو عمارہ میز کے ساتھ بندھی گھٹے گھٹے سانس لے رہی تھی۔ عارفین اور ساحل بھی میز کے ساتھ بندھے ہوئے تھے ان کی حالت بھی عمارہ جیسی تھی۔
اس نے عمارہ کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا’’خود کو سنبھالو عمارہ! میں آگیا ہوں۔‘‘
اس نے پہلے عمارہ کو کھولا اور پھر دونوں کو۔ ان کی یہ حالت دم کشی کی وجہ سے تھی۔
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ قسط 63 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اسامہ نے ان تینوں کو تہہ خانے سے باہر نکالا۔ تہہ خانے سے باہر نکلتے ہی وہ لمبے لمبے سانس لینے لگے۔اسامہ نے پانی کی بوتل نکالی تو تینوں نے پانی سے منع کر دیا۔ وہ آکسیجن کی کمی کے باعث نڈھال ہوگئے تھے ۔۔۔صحن میں آنے کے بعد ان کی طبیعت میں کافی بہتری آگئی تھی۔ اسامہ ان کے پاس بیٹھ گیا۔
عمارہ نے تھکی تھکی آنکھوں سے اسامہ کی طرف دیکھا’’تم کچھ دیر اور تہہ خانے میں نہ آتے تو اپنے دوستوں کی لاشیں تمہیں ملتیں۔‘‘
اسامہ نے عمارہ کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا’’ایسا کبھی نہ ہو۔۔۔‘‘
پھر وہ عمارہ کے پاس سے اٹھ کر ساحل اور عارفین کے پاس بیٹھ گیا’’اب بہتر محسوس کر رہے ہو؟‘‘
ساحل نے لمبا سانس کھینچا’’ہاں۔۔۔اب کافی بہتر ہوں۔‘‘
اسامہ نے عارفین کے بال سہلائے’’اور تم۔‘‘
عارفین نے اثبات میں سر ہلایا۔’’ٹھیک ہوں۔‘‘
عمارہ کافی نڈھال لگ رہی تھی۔ ’’مجھے تھوڑی دیر کے لیے ریسٹ ہاؤ س سے باہرلے جاؤ۔‘‘
عمارہ نے اسامہ سے کہا تو اسامہ اس کے قریب بیٹھ گیا’’ابھی تم ٹھیک طرح سے چل نہیں سکتی تھوڑی دیر کے بعد چلتے ہیں۔‘‘
عمارہ نے اپنائیت سے اسامہ کی طرف دیکھا’’پلیز۔۔۔‘‘
اسامہ کھڑا ہوگیا۔ اس نے عمارہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ عمارہ اس کا ہاتھ تھام کر کھڑی تو ہوگئی مگر چلتے ہوئے اس کے قدم لڑکھڑانے لگے۔
اسامہ نے سہارا دیا اور ساحل کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا’’میں تم لوگوں کو بھی ابھی لے جاتا ہوں۔‘‘
ساحل اور عارفین دونوں کھڑے ہوگئے’’آپ عمارہ کو لے کر جائیں ہم دونوں چل سکتے ہیں ہم خود آجائیں گے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ دونوں بھی اسامہ کے ساتھ چلنے لگے۔
کچھ دور جا کر اسامہ اور عمارہ گھاس پر بیٹھ گئے۔ انہوں نے اپنے اردگرد دیکھا تو اس خوشگوار قدرتی ماحل سے ایک عجیب سی تسکین کا احساس ہوا۔ ان کے آس پاس اخروٹ اور چیڑ کے گھنے درخت تھے۔ زمین پر کچھ خوردرو جھاڑیاں تھیں جن پر جامنی رنگ کے خوبصورت پھول اس قدر زیادہ تھے کہ اس نے پوری زمین کو ہی جامنی رنگ میں رنگ دیا تھا۔
اسی دوران عارفین کی آواز عمارہ کی سماعت سے ٹکرائی’’واؤ۔۔۔کتنی خوبصورت تتلیاں ہیں۔ یہ تو خود رو جھاڑیوں کے پھولوں پر بھی اس طرح بیٹھی ہیں جیسے گلاب پر بیٹھی ہوں۔‘‘
اسامہ اور عمارہ نے ایک ساتھ ان پھولوں کی طرف دیکھا۔
دلفریب رنگوں کے پروں والی خوبصورت تتلیاں جامنی پھولوں پر منڈلا رہی تھیں۔ دھیرے دھیرے تتلیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔اسامہ برقی سرعت سے اٹھا اس نے بیگ سے ایک چاک اور چھوٹی سی کتاب نکالی۔
’’جلدی سے دائرہ کھینچو۔‘‘ اس نے عمارہ کو چاک دیتے ہؤے کہا اور خود کتاب سے اونچی آواز میں خاص آیات پڑھنے لگا۔
وہ آیتیں پڑھتا رہا اور عمارہ دائرہ کھینچتی رہی۔ دائرہ مکمل ہوگیا تو اسامہ نے پڑھنا چھوڑ دیا۔
وہ سب دائرے میں ایک دوسرے کے قریب ہو کے بیٹھ گئے اسامہ نے ایک نظر سب کو دیکھا’’ہم اس دائرے میں محفوظ ہیں جو بھی دائرے سے نکلا وہ ہمزاد کا شکار بن جائے گا۔‘‘
’’لیکن مجھے تو آس پاس ایسا کچھ نظر نہیں آرہا۔‘‘عارفین نے حیرت سے اردگرد دیکھا تو اسامہ نے اپنے لبوں پر انگشت رکھ کے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور اسی انگلی سے تتلیوں کی طرف اشارہ کیا۔
اسامہ سمیت ان تینوں کی نظریں ان تتلیوں کی طرف مرکوز ہوگئی۔ تتلیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ جامنی پھول بالکل چھپ گئے۔
ان تتلیوں میں سے ایک تتلی نکل کر ہوا میں ادھر ادھر اڑنے لگی پھر وہ چیڑ کے درخت کے پاس جا کے جیسے ہوا میں معلق ہوگئی۔ اس کے پروں کی حرکت رک گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تتلی وشاء کے سراپا وجود میں تبدیل ہوگئی۔ وشاء کا لباس اسی طرح کا تھا جس طرح کے رنگ اس تتلی کے پروں میں تھے۔ وہ اس ملٹی کلر کے گاؤن میں بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھی مگر اس کی خوبصورت آنکھوں میں بغاوت تھی۔ چہرے پر کھچاؤ تھا۔ پیشانی پر شکنیں تھیں۔
وہ دائرے کے گرد بے چینی سے ٹہلنے لگی اور پھر اخروٹ کے درخت کے قریب کھڑی ہوگئی۔ وہ لمبے لمبے سانس لینے لگی جیسے اس کے اندر کوئی الاؤ سلگ رہا ہو۔ وہ شرابور نگاہوں سے ان چاروں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ چند سکینڈز کے بعد اس کے قریب سفید ہیولا نموادار ہوا جو حوریہ کے وجود میں ڈھل ہوگیا۔
دائرے میں ان چاروں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام لیے اور متوحش نظروں سے ان خوبصورت بلاؤں کو دیکھنے لگے جو ان چاروں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
حوریہ نے سفید فراک پہن رکھا تھا۔ اس کے لمبے بال بے جان اور خشک تھے۔ چہرے میں زندگی کی رمق نہیں تھی جلد خشک۔۔۔آنکھیں سرد اور پتھرائی ہوئی گویا کہ وہ کسی مردے جیسی ہی تھی۔
اچانک کسی عورت کے رونے اور سسکیاں لینے کی آواز سنائی دینے لگی غالباً یہ آوازیں اس پہاڑ کے پیچھے سے آرہی تھی جس کے خوبصورت سبزے سے بھرے دامن میں وہ سب کھڑے تھے۔
آواز قریب تر ہوتی جا رہی تھی۔ دلسوز آواز کسی ادھیڑ عمر عورت کی لگ رہی تھی جو اس قدر بے حال تھی کہ جیسے اس میں رونے کی سکت بھی نہ رہی ہو۔
اسامہ اور اس کے ساتھی ایک دوسرے کی طرف تذبذب سی کیفیت میں دیکھ رہے تھے۔ یہ درد میں ڈوبی آواز ان کے دل دہلا رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد پہاڑ کے پیچھے سے ایک نوجوان نکلا جس نے پینٹ شرٹ کے ساتھ لانگ کوٹ پہنا ہو اتھا لانگ کوٹ کے ساتھ جڑی ہوئی ٹوپی اس نے سر پر ڈال رکھی تھی جس نے اس کا چہرہ اس طرح ڈھانپا ہوا تھا کہ اس کی آدھی ناک اور ہونٹ نظر آرہے تھے۔ اس نے وہی لباس زیب تن کیا ہوا تھا جو زرغام نے مرتے وقت پہنا ہوا تھا۔
پھر جو نظارہ ان کی آنکھوں نے دیکھا ان چاروں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ جوان عمارہ کی والدہ رابعہ کو بازوؤں میں پکڑے پتھروں پر گھسیٹتا ہوا ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ رابعہ نیم بیہوشی کی حالت میں سسکیاں لے رہی تھی۔ اس کے جسم سے جگہ جگہ خون رس رہا تھا۔
عمارہ چیختی چلاتی دائرے سے باہر بھاگنے لگی تو اسامہ نے اسے اپنے مضبوط بازوؤں میں جکڑ لیا’’پاگل ہوگئی ہو یہ سب نظر کا دھوکہ ہے وہ شخص زرغام ہے اور وہ سب مل کر ڈرامہ رچا رہے ہیں ہمیں دائرے سے باہر نکالنے کے لیے۔۔۔‘‘ عمارہ اسامہ کے بازوؤں پر مکے مارنے لگی۔
’’تم مجھے چھوڑ دو۔۔۔میں کچھ نہیں جانتی مجھے اپنی ماں کے پاس جانا ہے۔ میری ماں موت کے دہانے کھڑی ہے اور تم مجھے روک رہے ہو۔‘‘
’’ہوش سے کام لو۔۔۔‘‘ اسامہ نے عمارہ پر اپنی گرفت اور مضبوط کر لی۔
ساحل اور عارفین بھی یہ منظر دیکھ کر تڑپ اٹھے تھے ساحل نے طیش بھری نظروں سے اسامہ کی طرف دیکھا۔’’پاگل عمارہ نہیں بلکہ تم ہوگئے ہو وہ لوگ آنٹی کو جان سے مار دیں گے اور یہ ہولناک منظرہم یہاں کھڑے کھڑے نہیں دیکھ سکتے۔‘‘
’’اگر تم لوگوں کو میری بات پر یقین نہیں ہے تو میں دائرے سے باہر نکلوں گا۔ تم تینوں ادھر ہی رہو گئے دائرے میں‘‘ اسامہ نے ساحل کو سمجھایا۔
عمارہ اسامہ کی گرفت میں اونچی اونچی آواز میں رو رہی تھی مگر وہ خود کو اس کی گرفت سے چھڑا نہ پا رہی تھی۔
وہ پراسرار نوجوان رابعہ کو گھسیٹتا حوریہ اور وشاء کے قریب لے آیا۔
رابعہ درد سے کراہ رہی تھی اور وہ دونوں اس کے درد سے لطف اندوز ہو رہی تھیں ان کے لبوں پر شیطانی مسکراہٹ بکھرئی وہء تھی۔
’’مضبوط اعصاب کے مالک ہے جو ابھی تک زندہ ہے ورنہ جس بیدردی سے تم اسے گھسیٹتے ہوئے لا رہے ہو۔۔۔اسے تو ابھی تک مر جانا چاہئے تھا۔۔۔حوریہ نے اپنی سرد آنکھوں سے رابعہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اس کے قریب بیٹھ گئی۔
اس نے اپنا ہاتھ رابعہ کی گردن کی طرف بڑھایاا ور پھر پیچھے کھینچ لیا’’نہیں اسے اتنی آسان موت نہیں دینی چاہئے ہمیں تو لاش ٹکروں میں چاہئے۔‘‘
پراسرار نوجوان خفیف سا مسکرایا اور اس نے سامنے پہاڑ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ چند ہی ساعتوں میں پہاڑ کے پیچھے سے بہت سے کتوں کے بھوکنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور پھر تھوڑی ہی دیر میں بھیڑیا نما خوفناک کتے پہاڑ سے نیچے اترنے لگے۔ وہ تعداد میں سات تھے۔
وہ بھونکتے ہوئے حملے ے انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ عمارہ نے دیکھا کہ وہ خونخوار کتے اس کی ماں کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اس نے اپنا پاؤں زور سے اسامہ کی ٹانگ پر مارا اسامہ نے ایک جھٹکا لیا مگر اس نے عمارہ کو نہیں چھوڑا۔
وشاء، حوریہ اور وہ نوجوان مسلسل مسکرا رہے تھے۔ وہ رابعہ کی موت کا تماشا دیکھنے کے لیے بے چین بھی تھے۔
کتے رابعہ کے قریب آچکے تھے۔ رابعہ خونخوار کتوں کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کے اپنے زخمی وجود ک و گھسیٹتی ہوئی خود کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی اس کے جسم سے خون رس کر زمین کر رنگ رہا تھا۔
خود کو اسامہ کی گرفت سے چھڑانے کی جب سب کوششیں ناکام ہوگئیں تو عمارہ نے اس کے ہاتھ پر کاٹ لیا۔
اسامہ نے اپنا ہاتھ جھٹکا تو وہ اس کی گرفتار سے نکل گئی۔
’’عمارہ۔۔۔‘‘ اسامہ نے اسے روکنا چاہا مگر وہ دائرے سے باہر نکل گئی۔
اسامہ بھی اسکے پیچھے دائرے سے باہرآگیا۔ عمارہ اپنی زخمی ماں کی طرف لپکی مگر جونہی اس نے اپنی ماں کو چھوا وہ سیاہ دھویں میں تبدیل ہو کے فواد کا روپ دھار گئی۔
عمارہ نے پتھرائی آنکھوں سے شکاری کتوں کی طرف دیکھا تو وہ کتے ہوائی وجود کی طرح غائب ہوگئے عمارہ چیخ کر اسامہ کے شانے سے جا لگی۔
پراسرار نوجوان نے اپنے سر سے ٹوپی پیچھے کی اور خود کو بے نقاب کر دیا۔ وہ زرغام ہی تھا۔ ساحل اور عارفین بھی دائرے سے باہر آچکے تھے اور دائرہ بھی مٹ چکا تھا۔
اسامہ اور عمارہ آگے کھڑے تھے اور ساحل اور عارفین ان کے پیچھے کھڑے تھے۔ ساحل اور عارفین کو یقین ہوگیا تھا کہ اب وہ زندہ نہیں بچیں گے مگر پھر بھی ان کے حوصلے پختہ تھے۔ موت کو اس قدر قریب پاکے بھی ان کے چہروں پر ڈر کے تاثرات نہیں تھے کیونکہ وہ ذہنی طور پر اس چیز کے لیے تیار تھے
زرغام مسکراتا ہوا ان کے قریب آیا۔
’’تم چاروں ہم سے مقابلہ کرنے آئے تھے تم چاروں کو توہم چیونٹیوں کی طرح مسل سکتے ہیں لیکن تم چاروں سے ہماری کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ ہمارے ساتھ ایک سودا کر لوہم تم چاروں کی جان بخش دیں گے۔ تم خیام کو ہمارے حوالے کر دو۔‘‘
’’ہم خیام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔‘‘ اسامہ اور عمارہ نے جواب دیا۔
زرغام نے زور دار قہقہہ لگایا۔’’تم چاروں مجھے بیوقوف سمجھتے ہو۔ تم چاروں کو یہاں تک لانے والا کون ہے؟ تم چاروں ہم تک کیسے پہنچ گئے؟‘‘
’’اس ریسٹ ہاؤس میں کالے جادو کا عمل کیسے ہوا؟ یہ سب بتانے والا خیام ہے۔‘‘ یہ کہہ کر زرغام اسامہ کے قریب آیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ طیش میں جھٹکے سے پیچھے ہٹا۔
’’اس وقت وہ اس کے وجود میں نہیں ہے‘‘ پھر ادھر ادھر دیکھ کر چلانے لگا’’خیام! ہمارے سامنے آؤ۔۔۔‘‘
اسامہ نے بہت ہوشیاری سے اپنے بیگ سے ایک کپڑے کی پوٹلی نکال لی۔ جس میں ایک کافور کی ڈلی کے ساتھ چکنی مٹی کے چار چھوٹے چھوٹے گولے تھے جن پر خاص عمل کیا گیا تھا اور ان پر زرغام، وشاء ، حوریہ اور فواد کے ناموں کے ہندسے کندہ تھے۔
جس پہاڑ کے دامن میں وہ سب کھڑے تھے۔ اس کے قریب ہی ایک چھوٹی سی آبشار بہہ رہی تھی جو نیچے گرکے چشمے کی صورت اختیار کر رہی تھی۔
اس نے احتیاط سے وہ پوٹلی عمارہ کے ہاتھ میں تھما دی ا ور سرگوشی کے انداز میں کہا’’اسے چشمے کی طرف اچھال دو۔‘‘
عمارہ نے فورا وہ پوٹلی چشمے کی طرف اچھال دی۔ جونہی وہ پوٹلی پانی میں گری وہ سارے ہمزاد غائب ہوگئے۔
اسامہ نے عمارہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے عارفین اور ساحل کی طرف دیکھا۔’’نکلو یہاں سے۔۔۔‘‘
ساحل اور عارفین اسامہ کے پیچھے بھاگنے لگے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ اسامہ کہا ں جا رہا ہے۔ وہ پہاڑوں کے کٹاؤ دار حصوں پر قدم رکھتے ہوئے پہاڑوں کے نشیب و فراز سے گزر رہے تھے۔