وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 65

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 65
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 65

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسامہ اور عمارہ کوئی بات کیے بغیر بس بھاگ رہے تھے کہاں جانا چاہتے تھے ساحل اورعارفین کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ ساحل نے اسامہ کوپکارا۔’’کہاں بھاگے جا رہے ہو۔ اگر زرغام پھر ہمارے سامنے آگیا۔۔۔تو ہمیں کوئی قریبی جگہ دیکھ کے چھپ جانا چاہئےء۔‘‘اسامہ نے بھاگتے بھاگتے ہی اونچی آواز میں کہا’’قریبی نہیں محفوظ جگہ پر۔۔۔جواب قریب ہی ہے۔‘‘کافی نیچے اترنے کے بعد اسامہ ایک پہاڑ کے قریب کھڑا تھا۔ اس پہاڑ میں ایک غار دکھائی دے رہی تی۔
’’میرا خیال ہے کہ یہی جگہ مناسب ہے۔‘‘ اسامہ نے ساحل سے کہا اور پھر سب نے اپنی اپنی ٹارچیں آن کرلیں اور اس غار میں داخل ہوگئے۔ غار کافی گہری کھلی تھی وہ سب مناسب سی جگہ دیکھ کر بیٹھ گئے۔

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 64پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

’’ہم کس طرح چین سے بیٹھ سکتے ہیں وہ بدروحیں کسی بھی وقت ہمارے سامنے آسکتی ہیں۔‘‘ عمارہ نے گھبراہٹ میں کہا۔
اسامہ نے اپنا ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا’’اطمینان رکھو۔۔۔جب تک وہ مٹی گولے پانی میں گھل نہیں جاتے وہ ہمزاد ہمارے سامنے نہیں آسکتے ہم ان کی گرفت سے آزاد ہیں مگر ہمیں اس دوران اپنے بچاؤ کا اگلا بندوبست کرنا ہوگا کیونکہ مٹی کو گھلنے میں زیادہ وتق نہیں لگے گا۔‘‘ساحل اور عارفین اسامہ کے قریب ہوگئے’’ہمیں بتاؤ کیا کرنا ہے۔۔۔۔‘‘’’فی الحال تم کچھ لکڑیاں جمع کرکے آگے لگاؤ۔ میں کہیں سے چکنی مٹی ڈھونڈتا ہوں ہمیں مٹی کی گولیاں اوربنانی ہوں گی۔‘‘
اسامہ کی بات سن کے عمارہ نے کہا’’میں تمہارے ساتھ چکنی مٹی ڈھونڈتی ہوں۔‘‘
ساحل اور عارفین غار سے باہر جا کرکے لکڑیاں اکٹھی کرنے لگے۔اسامہ اور عمارہ فوری اٹھ کے چکنی مٹی ڈھونڈنے لگے۔ وہ دونوں غار سے باہر چلے گئے۔ انہیں جلد ہی چکنی مٹی مل گئی۔
وہ چکنی مٹی لے کر غار میں آگئے۔ اسامہ نے ایک بڑا سا چپٹا پتھر لیا اور اس کے اوپر مٹی رکھ دی۔ عمارہ نے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور اسامہ کے ہاتھ میں تھما دی۔ اسامہ نے مٹی میں پانی ڈال کر مٹی کو گوندھنا شروع کردیا۔ جب مٹی تھوڑی سی گندھ گئی تو اسنے کوئی خاص عمل پڑھنا شروع کر دیا۔ وہ عمل پڑھتا جاتا اور گوندھی ہوئی مٹی میں پھونک مار کے اسے پھر گوندھنا شروع کر دیتا اس نے تین دفعہ مٹی کو گوندھا اور تین بار عمل پڑھ کر اس پر پھونک ماری اور پھر اسنے اس مٹی کی چھوٹی چھوٹی سی بارہ گیندیں سی بنا لیں۔
عمارہ حیرت سے اسامہ کی طرف دیکھ رہی تھی کہ ایک ریٹائرڈ میجر یہ سب کیسے جانتا ہے۔ ساحل اور عارفین نے لکڑکیاں اکٹھی کرکے آگ لگا دی۔
اسامہ نے مٹی کی وہ گولیاں آگ میں جھونک دیں اور ایک لکڑکی کی چھڑی سے انہیں الٹ پلٹ کرنے لگا۔
سردی بھی بہت شدید تھی۔ وہ سارے آگ کے گرد بیٹھ گئے۔
’’اسامہ ! اب ہمیں آگے کیا کرنا ہے۔۔۔‘‘ ساحل نے پوچھا۔
’’اب آگے ہمیں جو کرنا ہے یہ حالات پر منحصر ہے۔ ہمیں خود کو بھی بچانا ہے اور انہیں بھی ختم کرنا ہے۔‘‘ عمارہ اور عارفین بھی اسامہ کی بات توجہ سے سن رہے تھے۔ عمارہ نے فوراً کہا۔
’’اسامہ ! ہم صرف مرنے کے لیے ان کے سامنے نہیں جا سکتے۔ ہمارے پاس کوئی پلان ہونا چاہئے۔‘‘
’’میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میری معلومات بس یہیں تک تھی میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں حالات بتائیں گے کہ ہمیں آگے کیا کرنا ہے۔ ہمارا پلان ہے ایسے ہی تو ہم اتنی بڑی جنگ لڑنے کے لیے نہیں آئے۔‘‘ اسامہ نے معنی خیز انداز میں جواب دیا۔
’’کیا پلان ہے ہمیں ابھی بتا دو نہ جانے دوبارہ ہم اس طرح مل کر بیٹھ سکیں یا نہ بیٹھ سکیں۔‘‘ساحل نے پوچھا۔
اسامہ نے انہیں تھوڑا قریب ہونے کے لیے کہا اور پھرانہیں اپنا پلان بتانے لگا۔
’ہمیں وقت ضائع کیے بغیر ریسٹ ہاؤس جانا چاہئے۔۔۔‘‘ ساحل نے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ہم نے اپنے بچاؤ کا بندوبست کر لیا ہے اب ہمیں چلنا چاہئے۔۔۔۔‘‘ اسامہ نے کپڑے کی پوٹلی اپنے بیگ میں رکھتے ہوئے کہا اور پھر عمارہ اور عارفین بھی کھڑے ہوگئے۔
عمارہ اپنا بیگ اٹھا کے اسامہ کی طرف بڑھی’’تمہیں اپنے بیگ سے پوٹلی نکالنے میں دقت ہوتی ہے تم یہ پوٹلی مجھے دے دو میں اپنے بیگ میں رکھ لیتی ہوں۔‘‘
’’ہاں یہ بھی ٹھیک ہے‘‘ اسامہ نے پوٹلی عمارہ کے بیگ میں ڈال دی۔ اور اس کے شانے پہ دھیرے سے ہاتھ رکھا۔
’’بہت احتیاط کی ضرورت ہے ہم اسو قت ان کے ٹارگٹ پر ہیں۔ کوئی بھی غفلت نہیں ہونی چاہئے۔‘‘
عمارہ نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر گویا ہوئی’’میرے خیال میں ہمیں سب سے پہلے اس جگہ سے تلاش شروع کرنی چاہئے جہاں ہمیں زرغام نے قید کیا تھا اس تہہ خانہ کا دروازہ کھلا رہے گا تو آکسیجن کا مسئلہ نہیں ہوگا۔‘‘
عمارہ کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی عارفین بے تکان بولا’’اور اگر کسی تہہ خانے کا دروازہ بند کر دیا تو وہ تہہ خانہ ہماری مشترکہ قبر بن جائے گا۔‘‘
ساحل تپ کر بولا’’کبھی تو منہ سے اچھی بات نکال دیا کر‘‘پھر وہ اسامہ سے مخاطب ہوا۔
’’میرا خیال ہے کہ عمارہ ٹھیک کہہ رہی ہے وہ جگہ بالکل کسی لیب جیسی ہے ۔ہو سکتا ہے ہمیں وہاں سے کچھ مل جائے۔ میں تہہ خانے کے دروازے کے پاس ہی بیٹھوں گا جونہی خطرہ محسوس کروں گا آپ لوگوں کو آگاہ کر دوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے پھر پہلے ادھر ہی جاتے ہیں‘‘ اسامہ نے کہا اور وہ سب وہاں سے نکل کر ریسٹ ہاؤس کی طرف بڑھے۔ وہ ریسٹ ہاؤس سے زیادہ فاصلے پر نہ تھے اس لیے جلدی ہی ریسٹ ہاؤس پہنچ گئے۔
ریسٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی عجیب طرح کی دہشت ان کی رگوں میں سرائیت کر گئی تھی کیونکہ اب انہیں ایک پل کا بھروسا بھی نہ تھا کہ کب ہمزاد ان پر حملہ کر دیں۔
وہ ہال نما کمرے سے گزرتے ہوئے صحن کی طرف بڑھے وہ تیز تیز قدموں سے تہہ خانے کے دروازے کے قریب آئے۔ تہہ خانہ کا دروازہ بند تھا۔
ساحل نے آگے بڑھ کر تہہ خانہ کے دروازے کے کلپ کو دائیں طرف دھکیلا تو وہ وہ دروازہ کھل کر سرکتا ہوا ایک فریم میں داخل ہوگیا۔
ساحل دروازے کے قریب ہی بیٹھا رہا اور اسامہ، عمارہ اور عارفین سیڑھیوں کے زینے سے نیچے اتر گئے۔
نیچے وہی گھٹن اور بدبو دار ماحول تھا۔ مگر ان کی مجبوری تھی۔ وہ خود پر قابو رکھتے ہوئے سارے ٹیبلز کے درازوں کی تلاشی لینے لگے۔ یہاں بہت گندگی اور غلاظت تھی انہوں نے اپنے ناک پر رومال رکھے ہوئے تھے۔
یہ جگہ بالکل کسی پراسرار لیبارٹری جیسی تھی۔ لمبے لمبے ٹیبلز پر بڑے بڑے اسٹینڈ تھے۔ جن میں شیشے کے چھوٹے اور بڑے دونوں طرح کے جار پڑے تھے۔ان جاروں میں چھوٹے چھوٹے اسٹفڈ تھے اور کئی جانوروں کے جسم کے نازک حصے لیکوڈ میں بھگو کررکھے گئے تھے۔سیہہ، الو اور سانپ کے جسم کے مختلف حصے کاٹ کر زمین پر ایسے ہی پھینکے ہوئے تھے جیسے وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ تینوں تہہ خانہ کے مختلف حصوں میں بکھر گئے۔
عارفین ٹیبلز کی چیزیں چیک کر رہا تھا اور اسامہ تہہ خانہ کی دوسری چیزوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ عمارہ کو ایک کتابوں کی الماری نظر آرہی تھی اور وہ اس میں وہ خاص کتاب ڈھونڈ رہی تھی جس سے انہیں کچھ مدد مل سکے۔
’’عمارہ جلدی کرو۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔‘‘ اسامہ نے کہا۔
اسے کوئی خاص چیز نظر نہیں آرہی تھی پھر اچانک اسکی توجہ تہہ خانہ کی ایک دیوار پر مرکوز ہوگئی۔ وہاں اسے کچھ چمکتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ اس کے قریب گیا تو وہ کوئی لاک تھا جسے کسی خاص نمبر سے گھمایا جا سکتا تھا۔
اسے یقین ہوگیا کہ اسے گھمانے سے یہ دیوار کسی دروازے کی طرح کھل جاتی ہوگی وہ مختلف نمبروں سے وہ لاک گھمانے لگا۔
عمارہ کواپنے مطلوبہ موضوع کے مطابق چار کتابیں مل گئیں۔ وہ یکے بعد دیگرے ان کتابوں کی فہرست پڑھنے لگی اسے تین کتابوں سے ایسا کچھ نہیں ملا جو ان کے کام آسکے۔ ایک آخری کتاب ’’تسخیر ہمزاد‘‘ اب اس کے ہاتھ میں تھی۔
اس نے اس کتاب کی فہرست پڑھی۔ کافی لمبی فہرست پڑھنے کے بعد ایک ٹوپک پر اس کی نگلی رک گئی اور وہ ٹوپک تھا’’ہمزاد کو برباد کرنے کا عمل‘‘ اس نے صفحہ نمبر پڑھا اور وہ صفحہ ڈھونڈنے لگی۔ اسے جلد ہی صفحہ مل گیا پھر وہ پڑھنے لگی۔ اسامہ نے عمارہ کو پکارا’’جلدی کرو۔۔۔عمارہ اور پھر اس نے عارفین سے پوچھا’’تمہیں کچھ ملا۔‘‘
’’نہیں مجھے تو کچھ نہیں ملا۔ تم اس دیوار کے ساتھ کیا کر رہے تھے۔‘‘ عارفین نے پوچھا۔
اسامہ نے تذبذب سی کیفیت میں سر کو ہلایا’’مجھے اس دیوار میں ایک لاک نظر آیا ہے مگر نمبر نہ معلوم ہونے کی وجہ سے کافی کوشش کے باوجود وہ لاک نہیں کھلا۔‘‘
’’یقیناًاس دیوار کے پیچھے کوئی بڑ راز چھپا ہے۔ میں بھی کوشش کرتاہوں۔‘‘ یہ کہہ کر عارفین اسامہ کے ساتھ اس دیوار کی طرف بڑھا تو ساتھ ہی ساحل اونچی آواز میں چلایا‘‘ جلدی تم سب باہر آجاؤ۔ مجھے عجیب طرح کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی عمارہ نے کتاب اپنے بیگ میں ڈالی اور سیڑھیوں کی طرف دوڑی اسامہ اور عارفین بھی سیڑھی کے قریب آگئے۔ وہ تینوں سیڑھی چڑھتے ہوئے تہہ خانے سے باہر آگئے۔ ساحل نے تہہ خانے کا دروازہ پہلے کی طرح بند کر دیا۔وہ چاروں اخروٹ کے درخت کے پیچھے چھپ گئے۔ یہ آواز بہت عجیب تھی جیسے کوئی لڑکی سسک سسک کے رو رہی تھی۔
عمارہ نے اسامہ کی طرف دیکھا اور ہمدردانہ لہجہ میں بولی’’لگتا ہے کوئی لڑکی بہت اذیت میں ہے۔‘‘
’’یہ زرغام کی کوئی چال ہو سکتی ہے۔‘‘ اسامہ نے کہا۔
آواز پہلے سے زیادہ اونچی ہوگئی اس بار وہ درد سے چیخ رہی تھی۔
’’ہم بغیر سوچے سمجھے اس کے قریب نہیں جائیں گے مگر دیکھنے میں کیاحرج ہے۔‘‘ ساحل نے کہا
’’ٹھیک ہے پھر ہم سب ایک ساتھ ہی جائیں گے۔‘‘ اسامہ نے کہا اور پھر وہ سب ایک ساتھ اس آواز کی سمت کی جانب بڑھنے لگے۔ وہ سب ہال نما کمرے میں داخل ہوئے۔ آواز بائیں جانب کے کمرے(بیڈ روم) سے آرہی تھی۔ وہ دھیرے دیرے قدم رکھتے ہوئے بیڈ روم کے دروازے کے قریب آگئے۔(جاری ہے)

وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں