وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 66
اسامہ نے انہیں وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور خود آگے بڑھ کر بیڈ روم کا دروازہ کھولا سب کے دل دہل کر رہ گئے۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
وہ لڑکی کمرے کے ایک کونے میں لوہے کی زنجیروں میں جکری بے بسی کی حالت میں سسک رہی تھی وہ وینا تھی۔ اس کی کلائیوں اورپیروں سے(جہاں جہاں زنجیریں تھیں) خون رس رہا تھا۔
ایک لمحے کے لیے تو عارفین کی حالت ایسی ہوگئی جیسے اس میں زندگی کی رمق نہ رہی ہو۔ وہ دیوانہ وار اس لڑکی کی طرف دوڑا تو ساحل اور عمارہ نے اسے پکڑ لیا۔
’’کیا کر رہے ہو عارفین! تم نے دیکھا نہیں کہ کس طرح عمارہ کی ماں کی موت کا ڈرامہ انہوں نے ہمارے سامنے پیش کیا۔ ہم نے طے کیا تھا نہ کہ ہم سوچے سمجھے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے۔‘‘ اسامہ عارفین کو سمجھانے کی کوشش کررہا تھا مگر عارفین کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اس نے اسامہ کی طرف دیکھا۔’’ایسا منظر دیکھنے کے بعد سوچنے سمجھنے کی صلاحیت معدوم ہو جاتی ہے۔‘‘
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 65 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’آپ لوگ ادھر ہی رہیں مگر پلیز مجھے جانے دیں۔‘‘ ساحل نے اس کے بازوؤں کو زور سے جھٹکا دیا۔
’’خود بھی مرو گے اورہمیں بھی مرواؤ گے۔‘‘
وینا نے اپنی بھیگی آنکھوں سے عارفین کی طرف دیکھااور پر امیدانداز میں مسکرائی۔’’عارفین تم آگئے ہو۔۔۔دیکھو فواد نے میرا کیا حال کیا ہے۔ اگر تم اب بھی نہ آتے تو تمہیں میری لاش ملتی۔‘‘
عارفین جذبات کی رو میں بہتا ہوا اپنے دماغ کے احکامات سے غافل ہوگیا اس نے عمارہ اور ساحل سے خود کو چھڑایا اور بھاگ کر وینا کے پاس چلا گیا۔
’’عارفین اسے چھونا مت‘‘ اسامہ چلایا مگر وہ کسی کی کب سن رہا تھا وہ تو اپنے دل کا غلام تھا اس نے اس کا ہاتھ تھاما۔ اسے یوں لگا جیسے کسی نے برف پر ہاتھ رکھ دیا ہو اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی ساعت میں وہ لڑکی حوریہ کا روپ دھار گئی۔ ساتھ ہی وہ زنجیریں بھی غائب ہوگئیں۔ حوریہ کا روپ ہوائی تھا اسلیے عارفین کا ہاتھ خالی تھا۔
اسامہ ، ساحل اور عمارہ بھی عارفین کے قریب آگئے تھے۔ حوریہ سفید چولہ پہنے اپنے بھیانک روپ میں ان کے سامنے کھڑی تھی۔
اس کے سلیٹی مائل چہرے پر جیسے فخر سا آگیا اس نے استہزائیہ انداز میں ان چاروں کو دیکھا’’تم کمزور جسموں والے، ہر بار زندگی اور موت کے اس کھیل میں مزا آنے لگا ہے جس محبت کے نام پر تم ہر دفعہ پھنس جاتے ہو نا وہی تم انسانوں کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اس جذبے کو دل سے نکال پھینکو تو تم میں کئی وجدانی قوتیں جاگ جائیں گی۔‘‘
اسامہ نے اونچی آواز میں کہا’’ہم شیطان نہیں ہیں جو تمہاری طرح زندگی کا قاعدہ الٹاپڑھیں۔ ہم تو اس جذبے کے لیے جیتے ہیں اور اس کے لیے مر جاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا ابھی تو اپنے ایک دوست کی موت کا نظارہ دیکھو۔’’حوریہ نے یہ کہہ کر اپنے ایک انچ لمبے ناخنوں والے ہاتھ سے عارفین کی طرف اشارہ کیا۔ عارفین کو دھچکا سا لگا اور اس کے قدم زمین سے اوپر اٹھ گئے۔ حوریہ نے اپنے ہاتھ کو تھوڑا بلند کیا تو عارفین اوپراڑتا ہوا چھت کے قریب پہنچ گیا۔عمارہ کی چیخیں نکل گئیں۔ حوریہ نے اپنے ہاتھ کی حرکت کو وہیں روک لیا اور عارفین ہوان میں معلق چیخنے لگا۔
اسامہ کی آنکھوں کی پتلیاں نیلی ہوگئیں ۔اس کے چہرے کے تاثرا ت بھی بدل گئے اور اس کی آواز بھی تبدیل ہوگئی۔ اس کے جسم میں چھپی ماورائی طاقت سامنے آگئی۔وہ گرجدار آواز میں چلایا’’حوریہ ! عارفین کو چھوڑدو ورنہ میں تمہیں جلا کر راکھ کر دوں گا۔‘‘حوریہ کے چہرے پر ایک بار پھر شیطانی مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’اوہ خیام۔۔۔تو تم اس کے جسم میں چھپے ہو۔ تمہارا دوست تو اب نہیں بچ سکتا اگر اس کو چھوڑتی ہوں تو بھی اس نے مرنا ہی ہے۔‘‘اسامہ نے عارفین کی طرف دیکھا جس کی زندگی واقعی موت کے دہانے پر تھی۔
اسامہ کے جسم سے ایک شعاع نکلی جو عارفین کی طرف بڑھی اس کے بعد عارفین کا جسم آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگا۔
حوریہ کو نظر آرہا تھا کہ عارفین کو خیام ہی بچا رہا ہے جو اسامہ کے جسم میں اب موجود نہیں ہے۔حوریہ نے فوراً سامہ کی طرف ہاتھ سے دھکے کا اشارہ کیا تو اسامہ کا وجود اچھل کر دیوار سے بجا اور پھر حوریہ نے اسے زمین پر پٹخ دیا۔ اسامہ کے حلق سے کرب آمیز چیخیں نکلیں۔
عمارہ نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا۔ اسامہ کے جسم کی ہڈیاں بری طرح چٹخ گئی تھیں مگر عارفین کے جسم پر خراش تک نہ آئی تھی۔ روشنی کی پراسرار شعاع حوریہ کی طرف بڑھی اور خیام کے روپ میں تبدیل ہوگئی۔
ساحل اورعارفین نے مل کر اسامہ کو اٹھایا۔ عمارہ نے اسامہ کا بیگ اٹھایا اور وہ سب کمرے سے باہر نکل گئے۔
ساحل اور عارفین نے اسامہ کو صحن میں لٹایا۔ عمارہ نے برقی سرعت سے اپنے بیگ سے مٹی کے پیڑوں کی پوٹلی نکالی اور اکیلی ہی بھاگتی ہوئی ریسٹ ہاؤس سے باہر چلی گئی۔ اس نے بہت پھرتی سے پوٹلی کو آبشار کی طرف اچھال دیا۔ جونہی پوٹلی پانی میں گری۔ عمارہ نے سکھ کا لمبا سانس کھینچا اور پھر واپس دوڑتی اسامہ کے پاس آگئی۔’’اب ہم خطرے سے باہر ہیں وہ پوٹلی پھینک آئی ہوں۔‘‘
اسامہ نے عمارہ کا ہاتھ تھاما اور تھکے تھکے لہجے میں بولا’’بس یہ ہمارے پاس آخری موقع ہے۔‘‘ عمارہ نے مسکراتے ہوئے اسامہ کے بالوں کو سہلایا۔
’’فکر نہ کرو مجھے وہ عمل مل گیا ہے جس سے ہمزاد کو برباد کیا جا سکتا ہے۔ بس یہ پتہ چل جائے کہ ان چار ہمزاد کی قبریں کہاں ہیں۔‘‘
’’جو۔۔۔جو نیچے دیوار پہ لاک ہے یعنی تہہ خانہ میں مجھے یقین ہے ان کی قبریں اس دیوار کے پیچھے ہوں گے۔‘‘ اسامہ بمشکل بولا۔
’’یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ قبریں ریسٹ ہاؤس سے باہر ہوں اور ہم یونہی لاک کھولنے کے چکر میں اپنا وقت برباد کر لیں۔‘‘ عارفین نے اپنی رائے دی۔
’’پہلے تہہ خانے میں ڈھونڈ لیتے ہیں پھر باہر دیکھیں گے۔۔۔شاید یہ ہماری آخری کوشش ہو۔۔۔اگر کامیاب ہوگئے تو ہمزاد ختم ہو جائیں گے اور ہم اگر ناکام ہوگئے تو ہم۔۔۔‘‘ عمارہ نے افسردگی سے کہا۔
ساحل بھی بہت پریشان اور اداس تھا۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ اس نے عمارہ کی طرف دیکھاا ور انتہائی شکستہ لہجے میں بولا۔
’’پتہ نہیں مرنے سے پہلے بھی اپنوں کی آواز سننا نصیب ہوگی یا نہیں۔ ہم جب سے یہاں آئے ہیں موبائل میں سگنل ہی نہیں ہیں۔وہ سم بھی ڈال کے دیکھی ہے جو یہاں چلتی ہے پھر بھی سگنل نہیں ہیں۔‘‘
ساحل نے جیسے سب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا یہ ان سب کا مسئلہ تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ تہہ خانے کے دروازے کی طرف بڑھے۔ عمارہ نے تہہ خانے کا دروازہ کھولا پھر وہ ساحل سے مخاطب ہوئی’’تم اور عارفین اسامہ کو لے کر نیچے اترو۔ میں بعد میں آتی ہوں۔‘‘
ساحل اور عارفین اسامہ کو لے کر آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترنے لگے۔ وہ سیڑھیاں اتر گئے تو عمارہ بھی نیچے اتر آئی۔
وہ سب اس پراسرار دیوار کی طرف بڑھے جہاں لاک لگا ہوا تھا۔ انہوں نے اسامہ کو زمین پر بٹھا دیا۔’’تہہ خانے کے دروازے کے پاس کسی کو رکنا چاہئے تھا‘‘ ساحل نے عمارہ سے کہا۔
عمارہ نے قدرے اطمینان سے کہا’’تھوڑی دیر تک ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے کچھ دیر کے بعد عارفین کو بھیج دیں گے ابھی لاک کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘عمارہ لاک کے چھلے کو گھما گھما کے مختلف نمبر ملا ملا کے لاک کھولنے کی کوشش کرتی رہی مگر اس سے لاک نہیں کھلا۔ وہ ناکام ہوگئی تو عارفین اور ساحل کوشش کرنے لگے۔
اسامہ بے چینی سے بار بار تہہ خانے کے دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا پھر اسے خیام کا خیال آیا تو اس نے آنکھیں بند کرکے خیام کو یاد کیا اور اس کے ساتھ خیال خوانی کی’’خیام! ہماری مدد کرو۔‘‘
پھر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ ساحل اور عارفین بھی نمبر گھما گھما کے لاک کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’یار! یہ ہمارے بس کا کام نہیں ہے۔ ہم اسی چکر میں لگے رہیں گے اور موت ہمیں ایک بار پھر اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔‘‘ عارفین نے جیسے ہار مان لی۔
’’نہیں یار! تھوڑی دیر اور کوشش کر لیتے ہیں۔۔۔‘‘ ساحل نے کہا۔
اسی دوران لاک کے گرد روشنی کے چھوٹے چھوٹے سے ستارے ٹمٹمانے لگے۔ساحل کے ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے۔ لاک خودبخود گھومنے لگا اورلاک کے نمبر خود بخود ملنے لگے اور پھر ٹک کی آواز کے ساتھ لاک کھل گیا اور دیوار خوبخود بائیں طرف کو تھوڑی سی سرک گئی۔
اتنا راستہ کھل گیا کہ ایک شخص بآسانی گزر سکتا تھا وہی روشنی کے ٹمٹماتے ستارے اسامہ کو اپنے جسم پر چمکتے محسوس ہوئے پھر خیام کی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی’’میں تمہارے جسم میں موجودنہیں ہوں مگر تمہارے آس پاس ہی رہوں گا تمہارا پانچواں ساتھی بن کر۔۔۔‘‘
عمارہ کی خوشی سے بھرپور آواز اسامہ کی سماعت سے ٹکرائی۔’’اسامہ ہمیں راستہ مل گیا ہے۔‘‘ساحل اور عارفین اسامہ کی طرف بڑھے کہ اسے سہارا دے کر اٹھائیں۔
’’تم لوگ مجھے یہیں پڑا رہنے دو۔ میری وجہ سے اپنا وقت برباد مت کرو۔‘‘ اسامہ نے مایوسی سے اپنا سر جھکاتے ہوئے کہا۔عمارہ نے ساحل اور عارفین کو اسامہ سے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا۔ ’’تم دونوں اندر جاؤ میں اسامہ کو لاتی ہوں۔‘‘عمارہ کا اظہار وفا جیسے اسامہ کی طاقت بن گیا وہ عمارہ کے ساتھ دھیرے دھیرے قدم رکھتا ہوا دیوار سے اندار داخل ہوگیا۔
اسامہ اور عمارہ اس پراسرار جگہ میں داخل ہوئے تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ انہوں نے ساحل اور عارفین کی طرف دیکھا جو حیران ساکت و جامد کھڑے تھے۔یہ پانچ قبروں کا چھوٹا سا قبرستان تھا کچی مٹی کی چار قبریں ایک ہی ترتیب میں تھیں اور ایک قبر ان سے تھوڑے فاصلے پر تھی۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 67 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں