وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 67
قبروں پر لکڑی کے کتبے لگے تھے جن پہ ان کے نام لکھے تھے۔ فواد، خیام،حوریہ اور وشاء اور ایک طرف قبر تھیجس کے کتبے پر زرغام کا نام کنندہ تھا۔ یہ نام پڑھ کے ان کے دل ایسے ہوگئے جیسے کسی نے اپنی مٹھی میں بھینچ کر رکھ دیئے ہوں۔
عمارہ بے خود ہو کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔
اسامہ نے عمارہ کے شانے پر ہاتھ رکھا ’’خود کو سنبھالو عمارہ! یہ وقت جذباتی ہونے کا نہیں ہے کچھ کرنے کا ہے۔۔۔‘‘
عمارہ رندھی ہوئی آواز میں بولی’’مجھے تو انسانیت کی تذلیل پر رونا آرہا ہے۔ زرغام کو اتنا بھی رحم نہ آیا کہ ان کے والدین کو ان کی میتیں ہی دے دے۔ ان کی متیوں پر رو کر انہیں صبر آجاتا۔‘‘
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’عمارہ! تم قدرت کا انصاف نہیں دیکھ رہی۔ ان کی قبروں کے ساتھ زرغام کی قبر بھی ہے۔ اس نے لوگوں سے جینے کا حق چھینا تو رب نے اس سے جینے کا حق چھین لیا۔‘‘ اسامہ نے عمارہ کو سمجھایا۔ اور پھر دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھ گیا اسے سخت تکلیف ہو رہی تھی۔
عمارہ نے کتاب کا وہ خاص صفحہ نکالا جس میں وہ عمل تھا پھر وہ اسامہ سے مخاطب ہوئی۔
’’تم نے بتایا تھا نہ کہ زرغام نے فواد، حوریہ، وشاء اور خیام کی میتوں پر خاص عمل کرکے ان کے ہمزاد تسخیر کیے تھے تو اس کتاب کے مطابق شیطان ہمزاد کو برباد کرنیکا عمل بھی ان لوگوں کی میتوں پر کیا جاتا ہے۔ہمیں ان چاورں میتوں پر چراغ جلانے ہوں گے۔ دو میتوں کے قریب کھڑے ہو کے اسامہ یہ عمل پڑھے گا اور دو میتوں کے پاس کھڑی ہو کے میں عمل پڑھوں گی اور ساحل اور عارفین اردگرد کے ماحول پر نظر رکھیں گے۔‘‘
پھر عمارہ نے اسامہ کو سارا عمل یاد کرایا ۔یہ کچھ قرآنی آیات تھیں جو بھٹکی ہوئی روحوں کو ان کے اصل مقام تک پہنچانے کے لیے تھیں اور اس شیطان ہمزاد کے خاتمے کے لیے جسے عامل کالے جادو کے ذریعے تسخیر کرتے ہیں۔ بے شک کالے جادو کا توڑ قرآنی آیات سے ہی کیا جاتا ہے۔
اسامہ کی ٹانگوں میں تکلیف زیادہ تھی اس لیے وہ ایک سٹک کی مدد سے کھڑا تھا۔ساحل اور عارفین دور کھڑے تھے۔ تہہ خانے کا یہ حصہ کسی غار جیسا تھا۔ تہہ خانے کا دروازہ کھلا ہونیکی وجہ سے روشنی نے یہ حصہ بھی روشن کر دیا تھا ورنہ یہاں ایسی کوئی جگہ نہیں تھی جس سے باہر کی روشنی اندر آسکے۔ اس حصے کی زمین بالکل کچی تھی یہاں پانچ قبروں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔
پورا ماحول سراسمیگی میں ڈوبا ہوا تھا۔ساحل اور عارفین کے دل و دماغ کو ایک عجیب سی دہشت نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ان کے من میں عجیب اوہام کھٹک رہے تھے۔ قبرستان کا خوفناک سناٹا جیسے اموات کی رداد سنا رہا تھا۔
ساحل اور عارفین کو ہر چیز طلسماتی دکھائی دے رہی تھی ان کی نظر قبروں پر پڑتی تو انہیں یوں لگتا جیسے قبریں بل کھا رہی ہیں مگر وہ اپنے ذہن کو جھٹک کے آیات پڑھنے لگتے۔ اسی طرح کھڑے کھڑے ساحل کو تہہ خانے کے دروازے کا خیال آیا۔
’’تم ادھر ہی رکو میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ ساحل نے عارفین سے کہا اور پھر تہہ خانے کی سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔
وہ سیڑھی چڑھنے لگا تو اسے ایک دم خیال آیا کہ اس دروازے کو اکھاڑ پھینکے۔ یہ سوچ کر وہ سیڑھی چڑھنے کے بجائے تہہ خانے میں کچھ ڈھونڈنے لگا اسے کلہاڑی نظر آئی اس نے جلدی سے وہ کلہاڑی اٹھائی اور سیڑھی چڑھتا ہوا تہہ خانے کے دروازے کی طرف بڑھا۔
وہ تہہ خانے سے باہر ریسٹ ہاؤس کے صحن میں آگیا۔ اس نے کلہاڑی سے تہہ خانے کے دروازے کو اکھاڑ پھینکا اور واپس نیچے تہہ خانے میں آگیا۔
وہ عارفین کے پاس آیا تو عارفین نے پوچھا’’کہاں گئے تھے؟‘‘
’’میں نے تہہ خانے کے دروازے کی ٹینشن ہی ختم کر دی ہے دروازہ ہی توڑ دیا ہے۔‘‘ ساحل نے بتایا۔
’’یہ تو تم نے اچھا کیا‘‘ عارفین نے کہا۔
عمارہ اور اسامہ نے کچھ آیات پڑھنے کے بعد چار دیے زمین پر رکھے اور ان سب دیوں میں زیتون کا تیل ڈالا اور ان سب دیوں کو چاروں قبروں کے اوپر رکھا۔
عمارہ نے ان چاروں قبروں کو روشن کیا اور پھر اسامہ سے مخاطب ہوئی۔
’’اب ہم نے عمل نمبر 2پڑھنا ہے۔اس عمل میں آیات رکے بغیر مسلسل پڑھنی ہیں ۔ درمیان میں نہ تو کسی سے بات کرنی ہے اور نہ ہی اس عمل کو درمیان میں چھوڑنا ہے ورنہ نہ صرف یہ عمل ناکام ہو گا بلکہ بے اثر ہو جائے گا ہم اسے دوبارہ نہیں پڑھ سکتے۔‘‘
اسامہ نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں نے عمل پڑھنا شروع کر دیا۔
دونوں کی نظر عمل کے دوران دیے پرمرکوز تھیں۔ساحل اور عارفین ، اسامہ اور عمارہ پر بھی نظر رکھ رہے تھے اور اردگرد کے ماحول پر بھی۔
اسامہ یکسوئی کے ساتھ عمل پڑھنے میں مصروف تھا کہ اچانک دیا اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور قبر کی مٹی دھول اڑاتی خودبخود پیچھے ہٹنے لگی، یہاں تک کہ قبر کا تختہ دکھائی دینے لگا اسامہ کی آنکھیں باہر کو ابل پڑیں پیشانی پر پسینہ چمکنے لگا۔
اسے عمارہ کی بات یاد تھی وہ عمل مسلسل پڑھتا رہا مگر اس کے پاؤں اپنی جگہ سے اکھڑ رہے تھے۔ تھرتھراہٹ کی ایک لہر پورے وجود میں دوڑ گئی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ تختہ کسی دھماکے کی طرح پھٹا اور اس کے ٹکڑے ہوا میں بکھر گئے۔
یہ فواد کی قبر تھی۔ اتنا وقت گزرنے کے بعد جو مردے کی حالت ہوتی ہے وہ اسامہ کے سامنے تھی۔ کیڑوں نے اس کا جسم کو گوشت نوچ نوچ کے کھالیا تھا اور وہاں اس کا اب صرف ڈھانچہ تھا جس کی کھوپڑی میں آنکھوں کے بڑے بڑے سوراخوں میں ابھی بھی کیڑوں نے اپنا مسکن بنایا ہوا تھا۔
اسامہ کو ابکائی بھی آرہی تھی اور دہشت سے پورے وجود پر کپکپی سی طاری ہوگئی تھی خاص طور پر ٹھوڑی کانپنے سے اس کے دانت بجنے لگے تھے جس کی وجہ سے اسے عمل پڑھنے میں دشواری ہو رہی تھی۔
اس نے عمارہ کی طرف دیکھا جو انتہائی محو ہو کے عمل پڑھنے میں مصروف تھی اس کے چہرے پر کسی طرح کے خوف کے تاثرات نہیں تھے۔اس نے دوبارہ قبر کی طرف اپنی نظریں مرکوز کر دیں۔ وہ ایک فوجی تھا اس لیے خوف اس کے ارادوں کو کمزور نہ کر سکا اور مسلسل عمل پڑھتا رہا یہاں تک کہ وہ قبر جس طرح کھلی تھی اسی طرح خودبخود بند بھی ہوگئی۔
اسامہ سمجھ گیا کہ وہ جو کچھ دیکھ رہا تھا وہ صرف اسے ہی دکھائی دے رہا تھا۔ شاید یہ سب کچھ ہمزاد ان کا عمل ناکام بنانے کے لیے کر رہے ہیں۔ اس عمل کے دوران وہ دونوں نہ تو بات کر سکتے تھے اور نہ ہی اپنی جگہ چھوڑ سکتے تھے لیکن اسامہ جان چکا تھا کہ ہمزاد ان تک پہنچ چکے ہیں۔(جاری ہے )
وہ کون تھا ؟ایک خنّاس کی پر اسرار کہانی ...قسط نمبر 68 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں