وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ قسط 62

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ قسط 62
وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ قسط 62

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسامہ نے کھڑکی سے باہر جھانکا، عمارہ بالکونی میں کھڑی تھی۔ وہ کمرے سے باہر بالکونی میں چلا گیا ۔ عمارہ گرل کے پاس کھڑی تھی جس کے ساتھ ساتھ خوبصورت سی باڑ لگی تھی۔ اسامہ اس کے قریب کھڑا ہوگیا۔
اسامہ کو قریب دیکھ کر عمارہ وہاں سے جانے لگی تو اسامہ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔’’سوری۔۔۔‘‘
’’آگے سے ہٹ جاؤ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘ عمارہ غصہ سے بولی۔’’مگر مجھے تو بات کرنی ہے۔۔۔۔‘‘
’’مجھے تمہاری بات نہیں سننی۔۔۔‘‘ عمارہ جھٹکے سے پاؤں رکھتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔ اسامہ بالکونی میں کھڑا رہا۔

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ قسط 61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
فلیٹ کے باہر چھوٹا سا لان تھا۔ ا سنے دیکھا کہ عمارہ لان میں ٹہل رہی ہے۔ اسامہ بھی اس کے پیچھے پیچھے لان کی طرف چل پڑا۔ عمارہ نے اسے آتے ہوئے دیکھا تو منہ بنا کر بینچ پر بیٹھ گئی۔ 
اسامہ بھی عمارہ کی طرح سنجیدہ ہوگیا۔ ’’تم نے مجھے معاف نہیں کرنا تو نا کرو مگر میں نے کبھی بھی عورت کو مرد سے کم تر نہیں سمجھا۔ انسان اپنی خصوصیات کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے چاہے مرد ہو یا عورت۔۔۔‘‘
اسی دوران میں ساحل بھی ان کے پاس آگیا۔ عمارہ اپنی جگہ سے اٹھ کر جانے لگی تو اسامہ نے اسے ایک بار پھر پکارا’’پلیز عمارہ ! میں سوری کہہ رہا ہوں نا۔۔۔‘‘
اس بار ساحل نے عمارہ کا راستہ روک دیا۔’’عمارہ! ہم یہاں لڑنے کیلئے نہیں آئے۔ ایک خاص مشن پورا کرنے آئے ہیں ایسا مشن جس میں ہم نے زندگی کا جوا کھلینا ہے۔ ہم میں سے کون لقمہ اجل ہو جائے یہ ہم نہیں جانتے۔‘‘
عمارہ نے اسامہ کی طرف دیکھا جو بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔’’ٹھیک ہے ایک شرط پر معاف کروں گی کہ تم اس طرح کسی کے سوال پوچھنے پر بھڑکو گے نہیں‘‘
تھوڑی دیر کے بعد عمارہ وہاں سے چلی گئی ۔ ساحل اسامہ کے قریب آیا’’ کیا پروگرام ہے۔‘‘
’’ہمارا خیال ہے کہ ہمیں نکلنا چاہئے پہلے ہی ہمارا بہت سا وقت برباد ہوگیا ہے۔ اسامہ نے کہا اور پھر وہ دونوں اندر فلیٹ میں چلے گئے۔ وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے تو عارفین اور عمارہ اپنے اپنے بیگ میں کچھ چیزیں رکھ رہے تھے۔
اسامہ نے ان دونوں کی طرف دیکھا’’اچھی بات ہے تیاری کر لو۔ ہم بس دس پندرہ منٹ کے بعد نکلتے ہیں۔ ‘‘
سب نے اسامہ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پیکنگ کی۔تقریبا پندرہ منٹ کے بعد وہ سب وہاں سے نکل گئے۔ چند کلو میٹر کے بعد ہی دیوہیل پہاڑ دکھائی دینے لگے۔ جس کے ساتھ ہی گہری خطرناک کھائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھوڑا سا آگے جانے کے بعد اسامہ نے ساحل سے گاڑی روکنے کو کہا۔
ساحل نے سڑک سے اترتے ہوئے ایک گھنے درخت کے قریب کچی جگہ پر گاڑی پارک کی۔ وہ سب گاڑی سے باہر نکل آئے۔
اسامہ درخت کے قریب کھڑا ہوگیا’’یہی وہ جگہ ہے جہاں ان چا ر لڑکے لڑکیوں نے کالج سے بس سے چھلانگ لگائی تھی۔‘‘
’’یہ تو بہت گہری اور خطرناک کھائیاں ہیں۔ ان سب نے کس طرح چھلانگ لگ ادی ۔ اس طرح چھلانگ لگانے کے بعد کسی کے زندہ رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
’’وہ چاروں زندہ رہے اور انہوں نے ایک کھنڈر نما ریسٹ ہاؤس میں پناہ لیا اور ناپاک سفلی عمل بھی کیے۔‘‘
’’مگر کیسے؟ یہاں نیچے تو کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا‘‘ ساحل نے حیرت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
اسامہ نے انگلی سے نیچے کھائی کی طرف اشارہ کیا’’تم وہ پہاڑ نہیں دیکھ رہے اور ساتھ یہ لمبے لمبے چیڑ کے درخت، بے شک انہوں نے چھلانگ مار کے زندگی اور موت کا جوا کھیلا تھا مگر تقدیر نے ان کا ساتھ دیا اور وہ لقمہ اجل نہیں ہوئے۔ وہ کسی پہاڑ پرٹک گئے ہوں گے یا کسی درخت سے لٹک گئے ہوں گے لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ چاروں پہاڑوں کی غاروں کے ذریعے اس ریسٹ ہاؤس تک پہنچے۔‘‘
عارفین نے خوف سے کندھے اچکائے۔ ’’ہمیں بھی کیا ان غاروں کے ذریعے ریسٹ ہاؤس تک پہنچنا ہوگا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ہم ان غاروں کے ذریعے ہی اس پراسرار ریسٹ ہاؤس تک پہنچیں گے لیکن ہم ان چاروں کی طرح یہاں سے چھلانگ نہیں ماریں گے تھوڑا سا آگے جاکے نیچے جانے کا پیدال راستہ ہے۔‘‘
’’چلو پھر گاڑی میں بیٹھتے ہیں آگے جاکے رکتے ہیں۔ ‘‘ ساحل نے کہا اور پھر وہ چاروں گاڑی میں بیٹھ گئے۔
تھوڑا آگے جا کے ساحل نے گاڑی روکی اور چاروں اپنا اپنا بیک بیگ پہن کے نیچے اتر گئے۔
اسامہ پہاڑ کے ٹوٹے ہوئے نوکیلے حصوں کی طرف بڑھا تو اس نے بلند آواز میں کہا’’ہاں یہاں ایک سرنگ ہے۔‘‘
عمارہ اور عارفین اسامہ کے ساتھ ساحل کی طرف بڑھے۔اسامہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’ہاں یہی وہ غار ہے۔‘‘
اسامہ سب سے پہلے غار میں داخل ہوا پھر تینوں اس کے پیچھے پیچھے غار میں داخل ہوگئے۔
غار کھلی اور کشادہ تھی جس کی وجہ سے وہ سارے بآسانی آگے بڑھاتے جا رہے تھے۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتے جا رہے تھے غار میں تاریکی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ ٹارچوں کی روشنی میں آگے بڑھ رہے تھے۔ غار کی تاریکی کے ساتھ ان کا خوف بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ ہر قدم پر واہمہ ہوتا کہ کوئی خطرناک جانور ان کے سامنے آجائے گا۔
تقریباً آدھا گھنٹہ وہ اس سرنگ نما غار میں چلتے رہے چھوٹے چھوٹے زہریلے جانور راستے میں دکھائی دیتے رہے مگر کسی خطرناک جانور کا سامنا نہیں ہوا۔ غار میں تھوڑی تھوڑی سی روشنی دکھائی دی۔
’’لگتا ہے کہ یہ غار باہر کھل رہی ہے۔ دیکھو آہستہ آہستہ روشنی پھیل رہی ہے۔‘‘
وہ سرنگ نما غار ایک بڑے سے کھلے حصے میں جا کے ختم ہوگئی۔ ساحل سب سے آگے تھا اس کا دھیان اسامہ کی طرف تھا۔
’’اسامہ! مغرب کا وقت ہوگیا ہے۔ وہ ریسٹ ہاؤس اور کتنی دور ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد تو اندھیرا ہو جائے گا۔‘‘ عمارہ نے اسامہ سے کہا۔
’’سمجھو کہ ہم پہنچ گئے اسی پہاڑ کے پیچھے وہ ریسٹ ہاؤس ہے۔ وہاں پہنچنے میں ہمیں دیر نہیں لگے گی۔‘‘ یہ کہہ کر اسامہ اس پہاڑ کے ساتھ ساتھ موڑ کاٹتے راستے کی طرف چل پڑا۔ وہ تینوں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ تھوڑا سا چلنے کے بعد ہی انہیں وہ کھنڈر نما ریسٹ ہاؤس دکھائی دینے لگا۔ اس جگہ کے قریب پہنچے تو سب ساکت ہوگئے۔
’’واؤ۔۔۔Amazingیہ جگہ تو کسی عجوبے سے کم نہیں۔‘‘ عمارہ نے مبہوت نظروں سے اس جگہ کو دیکھا۔
عارفین ریسٹ ہاؤس کے دروازے کے طرف بڑھا۔ اس نے دروازے کو دھکا دیا مگر دروازہ نہیں کھلا جیسے کوئی بڑا سا پتھر دروازے کے آگے پڑا ہو جبکہ دروازے کے آگے کوئی چیز نہیں تھی۔ اسامہ اور عمارہ بھی ان دونوں کے قریب کھڑے تھے۔
اسامہ نے انہیں دروازے سے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا۔ وہ دونوں پیچھے ہٹ گئے۔ اسامہ نے دروازے پر اپنا ہاتھ رکھا اس کے صرف چھونے سے ہی دروازہ چٹاخ سے دو حصوں میں کھل گیا۔
’’یہ کیسے۔۔۔؟‘‘ ابھی الفاظ عارفین کے منہ میں ہی تھے کہ ساحل نے اپنی انگلی لہراتے ہوئے اشارہ کیا’’سوال نہیں۔‘‘
وہ سب اندر داخل ہو گئے دروازہ چٹاخ سے خود بخود بند ہوگیا۔ عمارہ نے حیرت سے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر چل پڑی۔ 
عمارہ ساحل کے ساتھ آگے بڑھی۔ کمروں میں بہت اندھیرا تھا۔ وہ ٹارچوں کی مدد سے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ انہوں نے ریسٹ ہاؤس کے سارے کمرے دیکھے۔ کمروں میں پڑا فرنیچر گل سڑ گیا تھا۔ سینکڑوں سالوں سے جیسے کوئی اس ریسٹ ہاؤس میں نہیں آیا۔
’’یہ ریسٹ ہاؤس تین کمروں ، ایک کچن اور ایک باتھ پر مشتمل ہے۔‘‘ عمارہ نے ساحل سے کہا وہ چاروں اس ریسٹ ہاؤس کے مختلف حصوں میں بکھر گئے۔
ساحل اور عمارہ ایک کمرے میں داخؒ ہوئے جو غالبا بیڈ روم تھا۔ جس کے فرش پر مٹی کی اتنی موٹی تہہ تھی کہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس مٹی کی تہہ کے نیچے کس طرح کا فرش ہوگا۔ہر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پورے جسم سے خوف کی سنسنی سی دوڑ جاتی تھی کہ جن ہمزاد کو وہ ڈھونڈنے آئے ہیں نہ جانے وہ کب اور کس روپ میں ان کے سامنے آجائیں۔(جاری ہے)

وہ کون تھا ؟ایک خناس کی پر اسرار کہانی ۔ ۔ ۔ قسط 63 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں