ایس ایم ظفر کی آخری کتاب

ایس ایم ظفر 19 اکتوبر 2023 ء کو 93 سال کی بھرپوراور کامیاب ترین زندگی بسر کرکے وفات پا گئے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی ذہانت اور خصوصیات سے نواز رکھا تھا۔ وہ پاکستان کے ایک ممتاز ترین وکیل اور مدبرّسیاستدان تھے۔ وہ مصروف ترین وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ساری کتب کے مصنف بھی تھے۔ قانون، سیاست اور پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔و ہ جس بھی موضوع پر کتاب لکھتے تھے، اس میں ان کا انداز ایک محقق کا ہوتا تھا۔ قانون کا موضوع ہو یا پاکستان کی سیاست۔ وہ ایک فلاسفر کی طرح سوچتے اور مفکر کی طرح اظہارِ خیال کرتے۔ انگریزی زبان کے تو وہ ماہر تھے ہی مگر ان کی اردو تحریر بھی نہایت شستہ تھی۔جیسے اردو زبان کا منجھا ہوا مصنف لکھتا ہے۔ ”پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ“ اُن کی اردو میں تحریر کی ہوئی آخری کتاب ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قلم و قرطاس سے ایس ایم ظفر نے 93 سال کی عمر میں بھی اپنا رشتہ استوار رکھا۔ ایس ایم ظفر 1965 ء سے جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت کے مرکزی وزیر قانون رہے۔ پھر وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور 9 سال تک سینیٹ کے رکن رہنے کے بعد وہ جن تجربات سے گزرے، انہوں نے ”پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ“ میں ان کو محفوظ کر دیا ہے۔ یہ کتاب پاکستان کی مکمل پارلیمانی تاریخ پر محیط ہے۔ یہ پارلیمنٹ اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کا آئینہ بھی ہے۔ پاکستان 1947 ء سے لے کر آج تک جن سیاسی حوادث سے گزرا، پاکستان میں پارلیمانی نظام کیوں ناکام ہوتا رہا، پھر ملک میں صدارتی نظام کا ناکام تجربہ بھی ہوا، پہلی دستور ساز اسمبلی کن حالات میں توڑی گئی، 1956 ء میں پاکستان کا پہلا دستور بنا، 1956 ء سے لے کر 1958 ء تک پاکستان کے چار وزیر اعظم منتخب ہوئے اور فارغ کیے جاتے رہے۔ پارلیمانی جمہوریت کو ایک تماشا بنا کر رکھ دیا گیا اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کرکے حکومت پر قبضہ کر لیا۔
جس کے بعد پاکستان میں مزید تین بار فوجی آمریتوں کے مسلط ہونے کا راستہ کھل گیا۔ قومی سیاست کو مارشل لاء کا کینسر لاحق نہ ہوتا اور سیاست دانوں کی ہوسِ اقتدار بے لگام نہ ہوتی تو 1971 ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش نہ آتا۔ ایس ایم ظفر نے اپنی آخری کتاب میں مختصر طور پر المیہ مشرقی پاکستان کے اسباب بھی بیان کر دیئے ہیں لیکن اس کتاب کا اصل موضوع خود پارلیمنٹ ہے اور پارلیمنٹ کے لیے منتخب ارکان کے لیے یہ کتاب ایک راہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے وہ ارکان جو کئی بار منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آئے لیکن اجنبیوں کی طرح پارلیمنٹ میں بیٹھے اور واپس چلے گئے۔ نہ کبھی پارلیمنٹ میں قانون سازی میں کوئی کردار ادا کیااور نہ کبھی کسی اہم ترین قومی مسئلے پر کوئی رائے دی۔ صرف گونگے اور بہرے بن کر پارلیمنٹ میں بیٹھے رہے۔ ایسے ارکان پارلیمنٹ بھی اگر ایس ایم ظفر کی یہ کتاب پڑھ لیں تو وہ پارلیمنٹ میں اپنا بھر پور کردار ادا کر نے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ارکان کو اگر اپنے فرائض اور کردار کا صحیح طور پر علم ہو تو وہ اپنے حلف کے مطابق اپنے کارہائے منصبی کو پوری ایمانداری اور انتہائی صلاحیت سے سر انجام دے سکتے ہیں اور ملک کے استحکام، بہبودی اور خوشحالی میں مثبت انداز میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پارلیمنٹ کے ارکان ایک رسمی کارروائی کے طور پر حلف تو اٹھا لیتے ہیں لیکن اس حلف کی حرمت اور پاسداری کا خیال نہیں رکھتے۔ اگر ہمارے ملک کی پارلیمنٹ کے یہ ارکان اپنے حلف کے مطابق اپنے فرائض اور ذمہ داریاں پوری ایمانداری اور انتہائی صلاحیت سے ادا کرتے تو پارلیمنٹ کی عزت و توقیر میں بھی اضافہ ہوتا اور پاکستان ان سانحات اور صدمات سے بھی نہ گزرتا جس کا ہمیں بہ حیثیت مجموعی آج سامنا ہے۔ پارلیمنٹ کا ہر رکن پاکستان کے آئین کو برقرار رکھنے اور اس آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھاتا ہے مگر ملک میں جب بھی کسی فوجی جرنیل نے مارشل لاء نافذ کیا تو آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھانے والے ممبران پارلیمنٹ کی بھاری اکثریت آئین منسوخ کرنے یا آئین کو معطل کرنے والے فوجی آمر کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ ایس ایم ظفر نے اپنی کتاب میں پہلا باب ہی ممبرا ن پارلیمنٹ کے حلف کے موضوع پر تحریر کیا اور اس باب میں تاریخ سے بہت سارے حوالے بھی دیئے ہیں تاکہ پارلیمنٹ کے ارکان میں حلف کی پاسداری کا شعور زندہ و بیدار رہے۔
پارلیمنٹ میں قانون سازی کا عمل ممبرا ن کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ ملک میں قانون سازی کا واحد ادارہ ہی پارلیمنٹ ہے۔ اسی لیے پارلیمٹ کو مقننہ کہتے ہیں۔ قانون بنانا اور پھر قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا بھی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ ملک میں قانون کی بالا دستی کو اگر برقرار نہ رکھا جاسکے تو پھر قانون سازی کا بھی قوم کو کوئی ثمر نہیں مل سکتا۔ قانون سازی کے بعدا نتظامیہ یعنی حکومت پر نظر رکھنا بھی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ پارلیمنٹ اگر حکومت کے احتساب کا فرض ایمانداری سے ادا کرتی رہے تو حکمران بھی کبھی بے راہ روی کا شکار نہیں ہوسکتے۔ حکمران پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو پارلیمنٹ کے قواعد اور طریقہ کارکے مطابق وقفہئ سوالات میں سوالات اٹھانے، توجہ مبذول کرانے کا نوٹس اور تحریک التوا پیش کرنے کا پوری طرح شعور حاصل ہو۔ ہر رکن پارلیمنٹ کو اپنے انفرادی حقوق اور پارلیمنٹ کے اجتماعی حقوق کا بھی اچھی طرح علم ہونا چاہیے۔
ایس ایم ظفر پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ فوجی آمر جنرل ایوب خان کی کابینہ میں وزیر رہے۔ پھر جنرل پرویز مشرف نے اپنی وفاداری کے لیے مسلم لیگ (ن) کو توڑ کر مسلم لیگ (ق) کے نام سے ایک جماعت تشکیل دی تو ایس ایم ظفر بھی اس جماعت میں شامل ہوگئے۔ ایس ایم ظفر کے اس سیاسی کردار کا مَیں دفاع نہیں کروں گا لیکن ایک سیاسی مفکر کے طور پر ایس ایم ظفر نے ملک میں ہمیشہ پارلیمانی نظامِ حکومت کی حمایت کی۔ شہری آزادیوں، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور قانون کی بالا دستی کے لیے جدو جہد کی۔ بنیادی انسانی حقوق کے وہ اتنے بڑے علمبردار تھے کہ انہوں نے ہیومین رائٹس سوسائٹی کے نام سے 1978 ء میں ایک تنظیم تشکیل دی جو پورا سال یہ جائزہ لیتی رہتی ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں کن شخصیات نے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔ پھر چار شخصیات کو ہیومین رائٹس سوسائٹی کی طرف سے ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ ایس ایم ظفر آمرانہ حکومتوں سے نفرت کی حد تک بیزار تھے۔ اسی لیے انہوں نے ڈکٹیٹر کون؟ کے نام سے ایک الگ مکمل کتاب لکھی تھی۔ ایس ایم ظفرنے ہمیشہ قانون کی حکمرانی اور پاکستان کے آئین کی بالا دستی کی بات کی۔صرف اسی حکومت کو صحیح معنوں میں جمہوری حکومت تسلیم کیا جاسکتا ہے جو شفاف انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہوئی ہو۔ جب تک ملک میں آئین کے ماتحت ہر ادارہ اپنے اپنے فرائض ادا نہیں کرے گا اور ایک ہائبرڈ حکومت قائم کرنے کے لیے انتخابات کے عمل کو شفاف نہیں رہنے دیا جائے گا تو ملک میں جمہوریت کی گاڑی کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔