سموگ کا مسئلہ: وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ درکار

   سموگ کا مسئلہ: وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ درکار
   سموگ کا مسئلہ: وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ درکار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور میں ان دنوں ایک بار پھر سموگ کا راج ہے۔ سموگ کا مسئلہ ہمیں ہر سال سردیوں کے شروع میں پیش آتا ہے جب ہوا اتنی زہریلی ہو جاتی ہے کہ اس میں سانس لینا بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ سموگ کیا ہے؟ اس بارے میں آپ نے بہت کچھ سنا اور پڑھا ہو گا‘ مختصراً میں بھی بیان کر دیتا ہوں۔ ہوا میں کچھ مخصوص چھوٹے اور نظر نہ آنے والے پارٹیکلز کی مقدار جب بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ ہوا میں موجود نمی کے ساتھ ری ایکٹ کر کے کچھ ایسے کیمیکلز بناتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں،اس آلودہ ہوا میں انسان کا سانس لینا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ یہ کیمیائی پارٹیکلز اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ یہ انسان کے منہ‘ ناک اور کان کے ذریعے جب جسم میں جاتے ہیں تو یہ نہ صرف جسمانی اعضا کو متاثر کرتے ہیں بلکہ خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں‘ اور خون کی نالیوں کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ یہ پارٹیکلز آنکھوں میں چلے جائیں تو آنکھوں میں جلن ہوتی ہے اور یہ سلسلہ زیادہ دیر رہے تو بینائی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہمیں پتا کیسے چلے گا کہ ہوا کتنی آلودہ ہے؟ اس کے لیے ماہرین ایئر کوالٹی انڈیکس کی مدد لیتے ہیں۔ یہ انڈیکس ہمیں بتاتا ہے کہ ہوا کتنی زیادہ یا کم آلودہ ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایئر کوالٹی انڈیکس 50 ہے تو ہوا میں سانس لینا اچھا ہے۔ 100 ہے تو ہوا میں آلودگی درمیانی ہے۔ 200 ہے تو ہوا Unhealthy ہو گی۔ 300 ہے تو ہوا بہت زیادہ مضر صحت ہے اور اگر 500 تک پہنچ جائے تو ایسی ہوا میں سانس لینا انسان کی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ ایسے علاقوں میں ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا جاتا ہے اور ہوا کی آلودگی کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کئے جاتے ہیں۔

دراصل سموگ دو الفاظ کا مرکب ہے‘ فوگ اور سموک کا۔ فوگ مطلب دھند اور سموک مطلب دھواں۔ سموگ فضائی آلودگی کی ایک خطرناک قسم ہے۔ اس کی ظاہری شکل لاہور اور گرد و نواح کے شہری اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سموگ کا یہ سلسلہ بھارت کے شہر دہلی تک پھیلا ہوا ہے۔ صنعتی فضائی مادے، گاڑیوں کا دھواں، بھٹوں اور پکوان کے اڈوں سے نکلنے والا دھواں  اور دھان کی فصل کی باقیات کو جلائے جانے سے فضا میں دھویں کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور یہی دھوان سموگ کو جنم دیتا ہے۔ زیر تعمیر منصوبے اور موسمیاتی تبدیلیاں بھی سموگ میں اضافے کا باعث ہیں۔ اصل میں آلودگی کو بڑھانے میں سب سے زیادہ کردار گرم موسم نے ادا کیا ہے، سموگ کے کیمیائی اجزا اپنی آزادانہ حیثیت میں بھی خطرناک ہوتے ہیں لیکن باہم ملنے کے بعد زہریلے ہو جاتے ہیں۔سموگ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں، پودوں اور قدرتی چیز کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔

ابھی  لاہور فضائی آلودگی میں دنیا بھر کے شہروں میں پہلے نمبر پر تھا اور ایئر کوالٹی انڈیکس 300 سے بھی زیادہ تھا۔ اس صورت حال میں صلاح یہ دی جاتی ہے کہ لوگ گھروں میں رہیں‘ پیدل سفر نہ کریں اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں سڑکوں پر نہ لائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اقدامات کافی نہیں ہیں۔ فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر جو پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں وہ طویل المیعاد ہیں جبکہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ جلد اور فوری اقدامات کیے جائیں۔ انفرادی طور پر سموگ سے بچنے کے لیے باہر جانے سے پہلے ماسک کا استعمال مفید ہو سکتا ہے۔ طویل المیعاد پالیسیوں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانا ضرور شامل کیا جانا چاہیے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ سموگ سے بچنے کے لیے جہاں حکومت کو آلودگی کے خاتمہ میں سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہاں ماحول دوست ایندھن کا استعمال نہایت ضروری ہو چکا ہے۔ حکومت کو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند کرنا چاہیے اور عوام کو بھی اپنا طرز زندگی بدلنے پر توجہ دینا چاہیے۔ سموگ سے زیادہ منفی اثرات بچوں اور جوانوں پر پڑتے ہیں تاہم یہ کسی نہ کسی درجے میں تمام عمر کے افراد کو متاثر کرتی ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسے موسم میں جسمانی ورزش کم کر دینی چاہیے‘ مریض کوشش کریں کہ زیادہ تر گھر میں رہیں۔ باہر نکلنا ہو تو ماسک پہن کر گھروں سے نکلیں، سموگ سے بچنے کے لیے آنکھوں کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے پانی سے دھوئیں۔ آنکھوں کو صاف کرنے اور صاف رکھنے کے لیے آئی ڈراپس بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں‘ لیکن ایسا صرف ڈاکٹر کی تجویز کے ساتھ ہی کیا جا سکتا ہے‘ اپنے طور پر ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ ہوا صاف کرنے والے ایئر پیوریفائرز کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ 

میں اس کالم کی وساطت سے وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز کی توجہ سموگ کے اہم مسئلے کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو لاہور اور ارد گرد کے علاقوں کے رہنے والوں کی صحتوں کو بری طرح متاثر کر رہا ہے اور وہ بیمار ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ رہے ہیں یا گھروں میں تکلیف میں مبتلا ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کی جانب سے سموگ کو کم کرنے اور اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں جیسے دھان کی باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کرنا اور اس پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو والوں کی گرفتاری اور انہیں جرمانہ کرنا‘ دھواں دینے والی گاڑیوں کو بند کرنا‘ اینٹوں کے بھٹوں کو جدید بنانا اور اسی جیسے دوسرے کئی اقدامات۔ ایسے حکومتی اشتہارات سامنے آتے ہیں جن میں یہ واضح کیا گیا ہوتا ہے کہ سموگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور یہ کہ اگلے پانچ چھ برسوں میں اس پر مکمل قابو پایا جا سکے گا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سموگ ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کو حل کرنے کے لیے وقت درکار ہے لیکن یہ مسئلہ جس شدت کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ سموگ کے خاتمے کے لیے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات میں تیزی لائی جائے اور یہ ہدف پانچ چھ برسوں میں پورا کرنے کے بجائے ایک دو برسوں میں پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے حکومت پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنا سکتی ہے تاکہ لوگوں کو گھروں سے دفتروں تک اور اپنے کام کرنے والی جگہوں تک مناسب ٹرانسپورٹ وافر اور بہ سہولت دستیاب ہو سکے اور انہیں اپنی نجی گاڑیاں باہر نکالنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ محترمہ وزیر اعلیٰ  ان معاملات کی طرف سنجیدگی سے توجہ فرمائیں گی اور سموگ کے جلد از جلد خاتمے کے لیے حکومت کی جانب سے قلیل المیعاد منصوبے جلد سامنے لائے جائیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -