علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 9

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 9
علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 9

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پیر ابونعمان

روحانی اسرار و رموز سے آشنا لوگ بھی پیر محمد رمضان رضوی سیفی کے عقیدت مند اور ان کے علمی کمالات کے معترف ہیں۔ جامعہ مسجد غوثیہ گلبرگ۲ لاہورکے خطیب اور ممتاز مقرر قاری محمدنواز سیالوی خود بھی روحانی علوم پر دسترس رکھتے اور اہل طریقت میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کم و بیش تیرہ چودہ سال سے پیر محمد رمضان رضوی سیفی کے گرویدہ ہیں۔ قاری محمد نواز سیالوی کا کہنا ہے ’’لاہور میں مجھے چوبیس سال ہو گئے ہیں۔ میں نے درس بڑے میاں میں قرآت و تجوید کی تعلیم حاصل کی اور نمایاں ترین پوزیشن میں یہ کورس پاس کیا۔ ہم دونوں مدینہ پاک کے ساتھی ہیں۔ جب سے پیرمحمد رمضان صاحب سے عقیدت و انسیت کا تعلق استوار ہوا ہے میں ان کے جامعہ میں پڑھا بھی رہا ہوں اور ان کے ساتھ باطنی اسرار و رموز اور فہم دین پر بات چیت بھی کرتا رہتا ہوں۔ میں بھی علوم طریقت اور عملیات پر دسترس رکھتا ہوں مگر میں نے دیکھا اور مشاہدہ و تجربہ کیا ہے کہ اس راہ میں بسا اوقات ایسے حساس اور پیچیدہ خفی معاملات بھی رونما ہو جاتے ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کیلئے مزید قابلیت، تربیت ،تجربہ اور اللہ کی خاص عطا حاصل ہونی چاہئے۔ میں نے اس بات میں کبھی عار محسوس نہیں کی اور ہر ایسا کیس پیر محمد رمضان صاحب کے سامنے پیش کر دیتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ یہ مسئلہ میرے بس میں نہیں ہے لہٰذا آپ ہی اس سائل و مریض کو سبنھالیں۔ الحمد اللہ پیر صاحب خوش دلی اور کسی طمع کے بغیر اس سائل کا علاج کرتے ہیں۔ حالانکہ بسا اوقات انتہائی سنگین ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ عملیات کرنے والے بہت ہوں گے مگر جو کلام اللہ پر یقین رکھتے ہے وہ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں۔

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 8 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پیر محمد رمضان صاحب ایک عاجز اور فقیر آدمی ہیں۔ ان کی جیب میں مال نہیں ٹھہرتا۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، جس قدر آتا ہے، اسی تناسب سے نکل جاتا ہے۔ میں نے ان کے اندر مال و دولت سے رغبت نہیں دیکھی۔ پیر محمد رمضان صاحب نے جب یہاں مسجد و مدرسہ تعمیر کیا تو میں نے اپنی حیثیت کے مطابق ان کے ساتھ تعاون کیا۔ یہ دین کی ترویج کا کام انتہائی جذبہ سے کرتے ہیں اور ان کا یہ خلوص انمول ہے۔
میں خود بھی پیر ہوں۔ ہمارا پھالیہ کے قریب گاؤں میں آستانہ ہے۔ میں جب جنات کا بھاری کیس نہیں کر سکتا تو اپنے مریدوں یا سالکین کو پیر صاحب کی خدمت میں پیش کردیتا ہوں۔ جہاں تک جنات نکالنے اور کسی مریض پر ان کے غلبہ و تسلط کو پرکھنے کا سوال ہے تو مجھے اس کا بچپن سے تجربہ ہے کیونکہ میں جنات کے ساتھ پڑھتا رہا ہوں۔ میرے خالو نابینا تھے ۔وہ بچوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔ ان کے پاس جنات پڑھنے آتے تھے۔ میرے کئی ہم مکتب جن زادے تھے اور میں اکثر ان کا مشاہدہ کیا کرتا تھا۔ لہٰذا مجھے علم ہو جاتا ہے کہ کس مریض پر جنات نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں میرا ایک مرید آیا جس پر جنات کا سایہ تھا۔ وہ بول بھی نہیں سکتا تھا۔ انتہائی بُری حالت تھی اسکی۔ میں نے اسے پیر صاحب کے حضور پیش کیا تو اللہ کے فضل و کرم سے وہ مرید صحت یاب ہو گیا۔
اسی طرح ایک روز مجھے کسی نے گلشن راوی میں ایک عمر رسیدہ مائی کا علاج کرنے کیلئے بلایا۔ پیر صاحب میرے ساتھ تھے۔ جب وہاں پہنچے تو مائی بیہوشی کی حالت میں چارپائی پر پڑی تھی۔ پیر صاحب نے اپنے علم کے ذریعے اس کی بیماری کا سبب دریافت کیا اور پھر کپڑے پر دم کر کے مائی کے سرے سے پاؤں تک پھیرا تو بیہوش مائی کو ہوش آ گیا۔ بعد ازاں پیر صاحب نے مجھے بتایا کہ اس مائی پر جادو اس کے سگے بیٹے نے کرایا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں خونی رشتوں کا تقدس پامال ہو گیا ہے۔ دولت کی ہوس اور آوارگی کے ستائے لوگوں نے اپنے ماں باپ کو بھی عملیات کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے اور یہ مرض عام ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس کا علاج کرنے والوں کو بھی اللہ توفیق عطا فرماتا ہے اور ان کے دست و نگاہ میں شفاء کا نور بخش دیتا ہے۔
پیر صاحب ،صاحب کرامت شخصیت ہیں۔ ان کی دعا میں اثر ہے۔ ایک روز میرے ایک سائل نے کراچی سے فون کیا کہ ان کا بچہ گم ہو گیا ہے۔ میں نے پیر صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے عرض کی تو پیر صاحب نے کہا ’’بچہ دس دن کے اندر اندر مل جائیگا‘‘۔ یہ کہہ کر پیر صاحب نے پڑھائی شروع کی اور بچہ چھ دن میں ہی مل گیا۔ یہ پیر صاحب کے روحانی تصرف و کمالات کا واقعہ بہت مشہور ہوا اور دنیا نیوز والوں نے پیر صاحب کا انٹرویو نشر کرکے دنیا کو بتایا کہ اللہ کے حقیقی بندے آج بھی موجود ہیں۔
چند روز پہلے انگلینڈ سے عمران صاحب تشریف لائے تھے۔ مجھ سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ ان پر اٹھارہ سال سے جنات قابض تھے۔ انہوں نے پیر رمضان صاحب سے رابطہ کیا اور جب علاج کرایا تو انہوں نے خود اس بات کا مشاہدہ کیا کہ جنات اس کے بدن کو کیسے چھوڑ کر نکل گئے ہیں۔ وہ طویل عرصہ کے بعد صحت یاب ہوئے ہیں اور انہوں نے پیر صاحب کے جامعہ میں کمپیوٹرز وغیرہ عطیہ کئے ہیں۔ وہ پیر صاحب کی شخصیت اور کردار اور سادگی سے بے حد متاثر ہوئے اور ان کے دست مبارک پر بیعت ہو کر ذکر کی نعمت سے مالا مال ہو گئے‘‘۔ (جاری ہے )

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 10 پڑھنے کیلئے یہاں کل کریں
(اس داستان کے بارے میں اپنی رائے دیجئےsnch1968@gmail.com )

مزید :

درویش کامل -