گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 82
میری وزارت خارجہ اور اس کے بعد وزارت عظمیٰ کے دور میں افغانستان کی حکومت نے میرے ساتھ جس غیر سگالی اور گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے لئے میں اس کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ افغانستان کے وزیر خارجہ اعلیٰ حضرت سردار نعیم خان کراچی تشریف لائے تو ہم نے دوستانہ ماحول میں آزادی سے سے بات چیت کی۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ میری حکومت کی پالیسی سابقہ حکومتوں کی پالیسی سے یکسر مختلف ہے۔ انہوں نے افغانستان کے خلاف اقتصادی معاملات میں کسی قدر سخت اور بے لوث رویہ اختیار کررکھا تھا، تاکہ اسے پاکستان کے ساتھ دوستی پرمجبور کیا جائے۔ میں نے اس کے برعکس فیاضانہ سلوک کی پالیسی اختیار کی ہے۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 81 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پاکستان چونکہ بڑا ملک ہے۔ اس لئے پہلے اسی کو جھکنا چاہیے۔ جہاں تک تجارت کا تعلق ہے۔ میں نے اس سے اتفاق کیا کہ افغان حکومت کراچی میں اپنا مال گودام قائم کرلے، جہاں سے ان کی مال بردار گاڑیاں سامان لے کر روانہ ہوا کریں اور گاڑی کے ڈبوں پر افغان حکومت کی مہر ہو۔ میں نے انہیں یہ بھی اجازت دے دی کہا گر وہ چاہیں تو پشاو رسے اپنے علاقہ میں پانچ میل اندر تک ریلوے لائن قائم کرسکتے ہیں۔ا گرچہ ہم یہ سہولتیں ہندوستان کو دے سکتے ہیں، جس کی ریل گاڑیاں لاہور آتی ہیں تو اپنے افغان ہمسایوں کو کیوں نہیں دے سکتے۔ میں اس پر بھی راضی ہوگیا کہ وہ ریل کے ڈبوں کے اندر پھلوں کی لدائی اپنے ہی ملک کی حدود میں کرلیا کریں، بجائے اس کے کہ کوئٹہ کے قریب ہمارے ریلوے سٹیشن پر لادیں۔
1958ء میں جبکہ میں وزیراعظم تھا، اطلاع آئی کہ افغان ایک ایسے مقام پر قلعہ بنارہے ہیں جو پاکستان کی حدود میں ایک میل اندر ہیں۔ ہم نے کابل میں اپنے سفیر کو ہدایت کی کہ افغان وزیر خارجہ سے ملاقات کریں چنانچہ قلعہ کی تعمیر کا کام فوراً رُک گیا۔اس طریقہ پر ہی عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان کے ساتھ جنگ کی نوبت نہ آئے۔ ان دنوں بسوں کی ہڑتال نے بڑی ناگوار صورت اختیار کرلی تھی۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان چھ سو بسیں چلتی تھیں، جن میں سے چار سو پاکستانی تھیں۔ ان کے مالکوں سے کہا گیا تھا کہ حکومت افغانستان کے احکام کی تعمیل کریں، بصورت دیگر ملک سے باہر نکل جائیں۔ میں نے اپنے سفیر کو بذریعہ تار ہدایت کی کہس ردار نعیم خان سے مل کر درخواست کریں کہ ہمارے اور اپنے بس مالکوں کے درمیان خود ہی ثالثی فرمائیں اور اپنے فیصلہ کا اعلان اس اعتماد کے ساتھ کریں گویا دونوں فریق انہی کے ملک سے تعلق رکھتے ہیں، میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ فی الواقع انہوں نے اپنی شہزادگی کی لاج رکھ لی۔ ہمارے یہاں کے لوگ ان کے فیصلہ سے پوری طرح مطمئن تھے۔ افغانستان کے ساتھ ہماری پالیسی اس طرح کی ہونی چاہیے، جیسے جگری دوستوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ انہیں اپنے ملک کو ترقی دینے کے لئے جس قدر امداد کی ضرورت ہے ہمیں حتی المقدور انہیں یہ امداد دینی چاہیے۔ مجھے ا مید ہے کہ ہم دانش مندی اور دور اندیشی سے کام لے کر کسی بھی ملک خاص طور پر ہمسایہ ملک کی مخالفت مول لینے سے گریز کریں گے۔ میری رائے میں اگر کوئی حکومت کسی دوسرے ملک کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے اس پر اقتصادی دباؤ ڈالتی ہے تو یہ اس کی صریح کوتاہ نظری ہے، حالیہ تاریخ سے میرے بیان کی تائید میں متعدد مثالیں مل جائیں گی۔
ایک تو یہی مثال ہے کہ مصر کو نئے اسوان بند کی تعمیر کے لئے امداد کی پیشکش کی گئی اور پھر یہ پیشکش واپس لے لی گئی۔ اس کے جو تباہ کن نتائج ظاہر ہوئے وہ ہمارے سامنے ہیں۔ اس سلسلے میں خود ہمارے ہمسایہ میں پاکستان کے خلاف ہندوستان کا رویہ ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے ہماری پٹ سن کا بائیکاٹ کردیا۔ اس کا ردعمل یہ نکلا کہ ہم نے نئی منڈیاں تلاش کرلیں اور پٹ سن کی مصنوعات تیار کرنے کے لئے مزید کارخانے کھول دئیے۔ کوتاہ اندیشی پر مبنی اس طرح کی پالیسیوں کی متعدد مثالیں مل جائیں گی۔ بیشتر صورتوں میں یہ پالیسیوں کامیاب نہیں ہوتیں۔ افغانستان عنقریب فاضل گندم پیدا کرنے لگے گا، لیکن میرا خیال ہے کہ فاضل گندم وہ لوگ ہمیں برآمد کرنے کی بجائے خود ہی کھا جایا کریں گے۔ یا پھر وہ قبائلی علاقے میں صرف ہوا کرے گی کیونکہ آج کل وہ لوگ اپنی ضرورت کے لئے بیشتر پاکستان کی گندم پر انحصار کرتے ہیں۔(جاری ہے)