گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 81
میں حزب اختلاف میں اٹھارہ مہینے رہا۔ اس دوران میں گورنر جنرل مسٹر غلام محمد ریٹائر ہوگئے، اور ان کی جگہ مسٹر سکندر مرزا کا انتخاب بطور گورنر جنرل عمل میں آیا۔ جب وہ اس منصب پر فائز ہوئے تو اس وقت مسٹر محمد علی بوکرہ وزیراعظم تھے۔
مسٹر غلام محمد نے 1954ء میں اسمبلی توڑنے کے بعد مسٹر بوکرہ کو واشنگٹن سے، جہاں وہ پاکستان کے سفیر تھے، طلب کرکے پاکستان کا وزیراعظم مقرر کیا تھا۔ اس وزارت میں کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو جو اب صدر مملکت ہیں، بطور وزیر دفاع مقرر کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ایوب کو اس وقت ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کی پیشکش کی گئی تھی، لیکن انہوں نے انکار کر دیاتھا۔ ایوب فی الاصل برطانوی تعلیم کا ماحصل ہیں اور ان کی شخصیت کے پاس منظر میں سینڈھرسٹ اور ہندوستانی فوج کی تربیت کی روایات کارفرما ہیں۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 80 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چند مہینوں کے بعد محمد علی بوگرہ کو واپس واشنگٹن بھیج دیاگیا اور چودھری محمد علی وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ انہی کے دور حکومت میں آئین منظور ہوا اور اسی زمانے میں ری پبلکن پارٹی معرض وجود میں آئی، جس کی جذباتی اعانت اور حوصلہ افزائی سکندر مرزا نے کی اور جس کی قیادت کا بار ڈاکٹر خان صاحب نے اُٹھایا، مسلم لیگ سے اکثریت کی علیحدگی اور ایک نئی جماعت کے قیام کا سبب مشترکہ یا جداگانہ انتخابات کے مسئلہ پر اختلاف رائے تھا۔ ری پبلکن ارکان نے بجا طور پر یہ موقف پیش کیا کہ جداگانہ انتخابات کا طریقہ فرسودہ ہوچکا ہے کیونکہ مسلمانوں کو اپنی آزاد ریاست ہیں اب ایسے کسی تحفظ کی ضرورت نہیں رہی۔ میں پہلے ایک آزاد رکن کی حیثیت سے حزب اختلاف میں شریک تھا۔ اب ری پبلکن پارٹی میں شامل ہوگیا۔ نتیجہ یہ کہ چودھری محمد علی اکثریت کی حمایت سے محروم ہوگئے اور حزب اختلاف اور عوامی لیگ کے لیڈر شہید سہروردی کو وزارت بنانے کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے ری پبلکن پارٹی کے اشتراک سے ایک مشترکہ حکومت قائم کی اور میں ان کی وزارت میں وزیر خارجہ کے طور پر شامل ہوا۔
میں جب تک وزیر خارجہ رہا، خارجہ پالیسی کے سوال پر صدر سکندر مرزا اور میرے درمیان یا سہروردی اور سکندر مرزا کے درمیان کبھی اختلاف رائے پیدا نہیں ہوا۔ اس کا سبب معلوم کرنا مشکل نہیں۔ خارجہ پالیسی میں ملک کے مفادات پیش نظر ہوتے ہیں۔ وہاں جماعتی مفادات کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ ہمیں مغربی ممالک کے بارے میں اپنے رویہ میں گزشتہ مسلم لیگی حکومت کی پالیسی اختیار کرتے وقت کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ البتہ میں بعض امریکی اور برطانوی اقدامات پر نکتہ چینی کرتے وقت غالباً کچھ زیادہ بیباک تھا اور اس اندیشے سے بے پرواہ تھا کہ ان بیانات سے کہیں غلط فہمی پیدا نہ ہو، میں نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ ہمیں روس سے قریب تر ہونا چاہیے۔ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ معاملات میں مَیں نے نئے خطوط پر کام شروع کیا اور مشترکہ مسائل کے تصفیہ کی خاطر صلح جویا نہ رویہ اختیار کیا۔
ہم نے معاہدہ بغداد اور سیٹو کے معاہدوں کی بھی مکمل تائید کی، کیونکہ یہ معاہدے تو ملک کے خلاف نہیں، اور اقوام متحدہ کے میثاق کی دفعات کے عین مطابق ہیں۔ ہم نے روسیوں کے اس دعویٰ کی صحت سے بڑی شدومد کے ساتھ انکار کیا کہ مذکورہ معاہدے ان کے خلاف عمل میں آئے ہیں لیکن یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ترکی، ایران، عراق، افغانستان اور پاکستان کو آزادی کے خلاف حملہ کا خطرہ امریکہ یا کسی یورپی ملک کی طرف سے نہیں بلکہ روس کی طرف سے ہی ہوسکتا ہے، لہٰذا فوجی معاہدوں کے بارے میں روسیوں کی یہ خواہش تھا کہ وہ بحرہند کے پانی تک رسائل حاصل کرلے۔ مجھے یقین واثق ہے کہ اگر جنگ چھڑگئی تو روس کی اشتراکی حکومت بھی ان مسلمان ملکوں پر قبضہ کرنے میں تامل نہیں کرے گی۔
یہ قیاس کرنا کہ روس اور مغربی ممالک کے درمیان جنگ کی صورت میں پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک کو غیر جانبدار رہیں گے اور ان پر قبضہ نہیں کیا جائے گا، محض خوش فہمی ہوگی۔ ایک دن میں روس کے ایک سفارتی عہدیدار سے گفتگو کررہا تھا۔ وہ مجھے قائل کرنا چاہتا تھا کہ روس مشرق وسطیٰ کے کسی بھی مسلمان ملک کے خلاف برے عزائم نہیں رکھتا۔ میں نے اس روسی مدبر سے سوال کیا، ’’فرض کیجئے کہ امریکہ اور روس کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے، اور خلیج فارس کے تیل کے کنوؤں سے آپ کے دشمنوں کو تیل فراہم کیا جاتا ہے تو اس صورت میں آپ ان کنوؤں پر بمباری کریں گے یا نہیں؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’ضرور کریں گے‘‘ اب میں نے دوسرا سوال کیا کہ ’’آپ ان ملکوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی اس دولت کی جس پر ان کے عوام کی بقاء کا انحصار ہے حفاظت کریں گے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’جی ہاں‘‘ میں نے کہا ’’پھر تو آپ ان مسلمان ملکوں کے خلاف جنگ سے گریز نہیں کرسکتے‘‘ لہٰذا ہمارے تحفظ کا تقاضا ہے کہ روس اور مغربی ممالک کے درمیان امن قائم رہے۔‘‘
افغانستان فوجی معاہدہ کارکن نہیں ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ غیر جانبدار رہنا چاہتا ہے۔ اس کی یہ خواہش قابل فہم ہے کیونکہ وہ جغرافیائی طور پر بڑی نازک پوزیشن میں ہے، لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ اگر جنگ چھڑگئی تو اس کی آزادی صریحاً خطرہ میں پڑجائے گی اور وہ بھی دوسرے ہمسایہ ملکوں کی طرح روس کے دائرہ اثر میں چلا جائے گا۔
افغانستان کی حکومت روس سے حصول امداد کی پالیسی ہماری سمجھ میں آتی ہے۔ ہمیں خاموشی سے اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ افغانستان نے روسی امداد قبول کرکے روسی عملہ کے علاوہ ان کے نظریات کے داخلہ کے لئے بھی اپنے گھر کا دروازہ تو نہیں کھول دیا ہے، اگر روس کے زیر اثر افغانستان میں جمہوری طریق کار کا پرامن ارتقاء روبہ عمل آتا ہے۔ تو اس کامیابی پر مجھ سے زیادہ خوشی کسی کو نہیں ہوگی۔(جاری ہے )