گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 80
اس دوران میں گورنر جنرل مسٹر غلام محمد نے مرکزی قانون ساز اسمبلی، جو آئین ساز اسمبلی بھی تھی، توڑ دی اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برخواسست کردیا۔ اس کے فوری بعد صوبائی اسمبلیوں کے توسط سے کراچی میں نئی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے والے تھے جس میں ہر صوبائی رکن کا ایک ناقابل انتقال ووٹ تھا۔ اس مقصد کے لئے ہمیں ان ناموں کی فہرست دے دی گئی جنہیں منتخب کیا جانا مقصود تھا۔
میں نے مذکورہ فہرست میں اپنے بعض احباب کا نام شامل نہ ہونے پر اعتراض کیا۔ مثال کے طور پر نواب سرمظفر علی قزلباس، چوہدری علی اکبر اور چند دوسرے افراد کے نام اس فہرست میں شامل نہ تھے۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 79 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں جانتا تھا کہ اب طاقت کا امتحان ہوگا چنانچہ وہی ہوا اور میں ہار گیا۔ نواب گورمانی اس وقت گورنر تھے اور سکندر مرزا مرکز میں وزیر داخلہ، انہوں نے آپس میں اور پھر گورنر جنرل مسٹر غلام محمد کے ساتھ مل کر طے کیا کہ میری وزارت ’’مفاد عامہ کے تحت‘‘ توڑ دی جائے۔ یہ ایک بڑی کارآمد اصطلاح ہے کیونکہ بدقسمتی سے عوام کے مفاد کو ہمارے ملک میں اب تک مہم اور تشریح طلب رکھا گیا ہے۔ سرکاری سبب یہ تھا کہ میں مغربی پاکستان کی وحدت کا مخالف تھا۔
جب میں نے اور میرے دوستوں نے مسلم لیگ ہائی کمان سے انحراف کیا تو ہمیں مسلم لیگ پارٹی سے خارج کردیا گیا۔ مسلم لیگ اور پاکستان کے لیے برسوں کام کرنے کے بعد آخر یہ دن بھی آنا تھا لیکن ہم نے حوصلہ نہیں ہار اور مرکزی اسمبلی کے ان ہنگامہ خیز انتخابات میں مقابلہ کا فیصلہ کرلیا۔ انتخابات کے نتائج کا جس دن اعلان ہوا اس سے ایک رات پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور میرے دوست علی اکبر ایک سانڈ پر سوار ہوکر کسی طرف جارہے ہیں۔ (میں جس وقت ان سطور پر نظر ثانی کررہا تھا۔ علی اکبر مرکزی کابینہ میں وزیر تھے) میرے سامنے ایک بہت بڑی نہر بہہ رہی تھی۔ میرے سانڈ نے اس نہر کو نہایت آسانی کے ساتھ، گویا اُڑ کر پار کرلیا اور اطمینان سے دوسرے کنارے پر جاپہنچا، جہاں ایک سائیس ہمارا منتظر تھا۔ میں سواری سے اُتر پڑا اور سائیس کو حکم دیا کہ سانڈ کو اصطبل میں لے جائے ۔ میں یہاں سے آگے ریلوے سیلون میں جاؤں گا۔ دریا کے کنارے کچھ بلندی پر ایک انجن گویا میرا ہی منتظر تھا۔ میں نے نہر کے دوسری طرف نگاہ کی تو علی اکبر وہاں کہیں نظر نہیں آئے۔
صبح ہوتے ہی میں نے اس خواب کا ذکر مظفر علی قزلباش سے کیا۔ ہم دونوں کامیاب رہے۔ البتہ ہمارے دوست علی اکبر، جو میرے خواب میں اپنے سانڈ سمیت کہیں غائب ہوگئے تھے، ناکام ہوگئے۔ اس کے بعد میری زندگی کے اٹھارہ مہینے مرکزی اسمبلی میں ایک آزاد مخالف رکن کی حیثیت سے گزرے۔ عوامی لیگ پارٹی کے لیڈر شہید سہروردی ایوان میں حزب اختلاف کے قائد تھے۔ میں نے یہ زمانہ نہایت اچھا گزارا کیونکہ مجھے اختلاف رائے کے جمہوری حق کو استعمال کرنے کا پہلی بار موقع ملا تھا، تاہم میں نے اس حق کو محض مخالفت کی خاطر استعمال نہیں کیا بلکہ اختلاف صرف ان مسائل میں کیا، جہاں مجھے اس کی ضرورت محسوس ہوئی۔
چوہدری محمد علی نے وزیراعظم کی حیثیت سے ایوان میں آئین کا مسودہ پیش کیا جس کے لیے ہم آٹھ سال سے چشم براہ تھے۔ (ہندوستان نے آزادی کے دو ہی سال کے اندر اپنا آئین منظور کرلیا تھا اور اس کے تحت وہاں عام انتخابات بھی ہوگئے تھے) محمد علی بوکرہ کی وزارت چندے قائم رہ کر رخصت ہوچکی تھی۔ گورنر جنرل غلام محمد کو خرابی صحت کی بنا پر مستعفی ہونا پڑا تھا اور کابینہ نے گورنر جنرل کے عہدہ کے لیے سکندر مرزا کو منتخب کرلیا تھا۔
یہاںیہ بات قابل غور ہے کہ انتظامیہ کے تین عہدیدار مرکزی کابینہ پر تمام وقت مسلط رہے۔ ایک مسٹر غلام محمد جو آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کے رکن تھے، دوسرے چوہدری محمد علی، وہ بھی آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کے رکن تھے۔ تیسرے سکندر مرزا جو پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ اکتوبر 1951ء میں نواب زادہ لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد مرکز میں ایسی کوئی غیر سرکاری شخصیت نہیں تھی جو ان لوگوں کا مقابلہ کرنے کی جسارت تھی۔
ان سرکاری ملازمتوں نے، جو اعلیٰ سیاسی عہدوں پر متمکن تھے کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔ نہ انہیں اپنے ووٹرو ں کے سامنے پیش ہونے کا شوق تھا اور نہ انہیں یہ معلوم تھا کہ انتخابات میں مقابلہ کس طرح کرتے ہیں۔ ہماری تاریخ کے ابتدائی دس سال کی بیشتر خرابیوں کا سبب یہ حقیقت بھی تھی۔(جاری ہے )