گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 74
ہم نے چند گھڑیال بھی دریا کے کنارے دھوپ سینکتے ہوئے دیکھے جو نہایت طویل قامت تھے۔ ہم نے کئی گھڑیالوں کو مارنے کی کوشش کی اور ایک کے تو بڑے قریب سے گولی ماری۔ وہ کوئی پندرہ فٹ لمبا ہوگا۔ وہ جماہی لینے کے لئے بار بار اپنے بڑے بڑے جبڑے کھولتا اور بند کرتا تھا لیکن نشانہ کارگر ثابت نہ ہوا۔ گھڑیال کو خشکی پر مارنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ ہم نے اسے گولی ماری تو اس نے اپنی دم کو ایک زور کا جھٹکا دیا اور پانی میں ڈبکی مارگیا۔ گھڑیال کو مارنے کے لئے اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان میں یا گردن پر نشانہ لگانا چاہیے۔ ہمیں ایسا کوئی گھڑیال نظر نہیں آیا جو صحیح پہلو پر لیٹا ہوا ہو۔ یہاں کے لوگ گھڑیال عموماً رات کے وقت مارتے ہیں۔ اس وقت اس کی آنکھیں چمکتی ہوتی ہیں اور نیزہ باز دونوں آنکھوں کے بیچ میں نیزہ پیوست کرکے انہیں ہلاک کردیتے ہیں۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 73 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سندر بن کا چند روزہ قیام ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا۔ یہاں پر پیچ ندیاں ہیں اور ان کے کناروں پر گھنے اور شاداب جنگل۔ جن میں طرح طرح کے پرندے، بندر، ہرن اور شیر رہتے یں۔ اگر کوئی شخص کسی ندی میں گرپڑے تو اس کا خدا ہی حافظ ہے۔ یہ علاقے جانوروں کی جنت ہیں۔ تقریباً تمام اقسام کے پودے یہاں پیدا ہوتے ہیں لیکن یہ بات بھلا کب تک رہے گی۔ کھلنا کی بندرگاہ جو بے سمندر سے دور خشکی کو کاٹ کر بنائی گئی ہے، روز بروز اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے۔ یہ بندرگاہ ساحل سمندر سے 50 میل شمال میں تعمیر ہوئی ہے اور تمام اہم کارخانے مثلاً ماچس بنانے کی فیکٹریاں، جیوٹ ملیں اور اخباری کاغذ بنانے کی ایک فیکٹری یہیں پر ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ انسان جلد ہی سندر بن کے جنگلوں پر بھی حملہ آور ہوگا اور جانوروں کو گھنے جنگل میں مزید پسپائی اختیار کرنی پڑے گی۔
ایک دن ہم لوگ چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے میں نیا بتی کے مقام پر سیر کے لئے گئے۔ یہ کھیدا یعنی ہاتھی پکڑنے کا زمانہ تھا۔ اس زمانہ میں س رکاری جنگلوں سے ہاتھی پکڑے جاتے ہیں۔ یہ کام ٹھیکیدار کرتا ہے اور اس کے عوض ایک خاصی بڑی رقم حکومت کو ادا کرتا ہے۔ ٹھیکیدار نے کھیدے کے لئے کوئی تین ہزار ٹین بجانے والے بھرتی کرلئے تھے۔ انہوں نے جب ہاتھیوں کا جھنڈ دیکھا تو انہیں ہانک کر ایک مدورحصار یا مورچے کی طرف لے گئے۔ جس کے نیچے غار تھا اور غار کے اوپر بانس کا ڈھکنا لگاتھا۔ اس حصار میں چودہ ہاتھی آگئے تھے۔ ان کے حصار میں پہنچتے ہی وہ مضبوط رسی، جس نے غار کے مضبوط ڈھکنے کو سنبھال رکھا تھا کاٹ دی گئی۔ ڈھکنا رسی کے کٹتے ہی ایک جھٹکے سے نیچے آگیا اور ہاتھی غار میں گر گئے۔ ان میں ایک ہتھنی اور اس کا بچہ بھی تھا جسے جنگل کے قانون کے تحت رہا کردینا ضروری تھا۔ غار کے اندر ہاتھی چنگھاڑتے، پاؤں ٹیکتے اور ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے گھوم رہے تھے اور بیچاری ہتھنی اپنے بچہ کو پیٹ کے نیچے چھپائے چپ چاپ کھڑی تھی۔ اس کے پہلو میں ایک اور ہتھنی بھی تھی جو بچے کی ’’خالہ‘‘ تھی۔ ہر مادہ ہتھنی ایک خالہ کو ضرور اپنے ساتھ رکھتی ہے تاکہ جب وہ اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے شیر سے مقابلہ میں مصروف ہو تو خالہ بچوں کو اپنی امان میں رکھے۔ شیر ہاتھی کے ان ننھے بچوں کو بڑی لذیذ غذا تصور کرتے ہیں۔ میں یہ نظارہ کبھی فراموش نہیں کرسکوں گا۔ بچہ، جونہی دونوں ہتھنیوں کی حفاظت سے نکل کر ادھر اُدھر بہکتا تو وہ فوراً اپنے سونڈ سے پکڑ کر پیٹ کے نیچے چھپالیتی تھیں۔ سارے مشتعل ہاتھی اگر مل کر زور لگاتے تو حفاظتی دیوار ٹوٹ جاتی لیکن دیواروں کے اوپر نیزہ بردار کھڑے تھے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ہاتھی کی کھال بڑی جلدی پھٹ جاتی ہے اور اس میں سے خون کی دھاریں بہنے لگتی ہیں۔ غروب آفتاب کے بعد ہم میں سے بعض احباب کھلے آسمان کے نیچے الاؤ کے گرد رات گئے تک بیٹھے رہے۔ ہم جھونپڑیوں میں سونے کو تو سوگئے لیکن کبھی کبھی قریب سے ہی شیر کے گرجنے کی آواز سنائی دے جاتی جس سے نیند کا سارا مزہ کرکرا ہوجاتا۔
گرفتار شدہ ہاتھی، ایک یا دو دن کے بعد یکے بعد دیگر غار سے نکالے جاتے ہیں۔ یہ کام تربیت یافتہ ہاتھی انجام دیتے ہیں۔ تمام ہاتھیوں کو درخت کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو بیس گھنٹے تک بھوکا رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہیں کھانے کو دیا جاتا ہے اور جو آدمی انہیں کھانا دیتا ہے وہ اسے اپنا ہمدرد خیال کرنے لگتے ہیں۔ فارسی کا ایک شہر ہے
آنکہ شیراں راکند روبہ مزاج
احتیاج است، احتیاج است، احتیاج
یعنی احتیاج و افلاس شیروں کو گیدڑ بنادیتے ہیں۔ تین مہینے کے بعد ان ہاتھیوں کو بازار میں لے جاتے ہیں۔ ایک ہاتھی اوسطاً تین ہزار روپیہ میں فروخت ہوتاہے۔ لوگ ہاتھیوں کو بالعموم وجاہت اور شان و شوکت کی نمائش کے لئے خریدتے ہیں لیکن اب چونکہ راجے اور بڑے بڑے مالکان اراضی نہیں رہے۔ اس لئے ہاتھی زیادہ تر سرکاری جنگلوں میں لکڑی ڈھونے یا پھرسرکس اور چڑیا گھر کے کام آتے ہیں۔(جاری ہے )