گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 50
برطانیہ میں جو لوگ یہ محسوس کرتے تھے کہ چیمبرلین اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے جرمتوں کے ہاتھوں دھوکا کھا گئے ہیں، وہ میری رائے میں غلطی پر تھے۔ اگر چیمبر لین کو یہ یقین بھی ہوتا کہ ہٹلر نے کاغذ پر جو کچھ تسلیم کیا ہے اس کی پابندی نہیں کرے گا ، تو اس کے باوجود ، وہ اپنے شکوک کا آزادانہ اظہار نہیں کر سکتے تھے۔ اُن کا واحد لائحہ عمل یہ تھا کہ امن پر اپنے اعتماد کا اعلان کریں اور جنگ کے لیے اپنے دفاعی مورچے مضبوط بنائیں۔ انہوں نے عافیت کا ایک وقفہ مہیا کر دیا تھا۔ جسے ان کی حکومت اور عوام مناسب طور پر استعمال کر سکتے تھے۔ ہٹلر کا ارادہ ساری دنیا کی تسخیر تھا اور یہ بات چیمبر لین کو بھی معلوم تھی لیکن ملک میں فوجی تیاری نہ ہونے کی بنا پر انہیں ہٹلر کو خوش کرنے کیلئے یہ ذلت آمیز رویہ اختیار کرنا پڑا۔ عوام اور اخبارات نے چیمبرلین کے کاموں پر نکتہ چینی کرتے وقت اکثر انصاف نہیں کیا۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 49 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک دن لندن میں ایک تقریب کے موقع پر میں نیوزی لینڈ کے ہائی کمشنر مسٹر جورڈن کے پاس کھڑا تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا ۔ ’’کیا جنگ ہو گی؟ میں نے کہا ۔ ’’آپ کا کیا خیال ہے ؟ ‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’جنگ کا کوئی امکان نہیں۔ کیونکہ انگریز جرمنی کے ہاتھ اب تک لوہا فروخت کر رہے ہیں۔ ‘‘ یہی حال امریکیوں کا تھا۔ امریکی سالانہ نوکروڑ پونڈ تیل جاپان کے ہاتھ فروخت کرتے تھے۔ حتیٰ کہ پرل ہاربر کے المیہ کے دن تک یہ سودا ہوتا رہا۔ اس طرح کے معاملات میں کوئی ملک اپنے مخالفوں پر آخری لمحہ تک یہ منکشف ہونے نہیں دیتا کہ ان کے عزائم کیا ہیں۔ فریب کے ہر امکان سے بظاہر بے خبر رہنا تدبراور سیاست کا ایک اچھا قرینہ ہے ۔ عیاری اور رازداری بین الاقوامی تعلقات کی بنیادیں ہیں اور انگریزان میں سے کسی بھی خصوصیت کے اعتبار سے احمق نہیں ہیں۔
مسٹر چیمبرلین غیر معمولی غیر معمولی علم و فضل کے مالک تھے۔ ایک بار شہزاد ہ برار نظام حیدر آباد کے جانشین) نے مسٹر چیمبرلین اور ان کی اہلیہ کو ہائیڈپارک کے ایک ہوٹل میں کھانے پر مدعو کیا اور مجھے بھی بُلا بھیجا۔ ادھر اُدھر کی گفتگو کے بعد یہ بات چل نکلی کہ آج تک کسی کو افریقہ کے جنگلوں میں مردہ ہاتھیوں کی ہڈیاں کیوں دست یاب نہیں ہوئیں ؟ اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق سبھی نے قیاس آرائی کی لیکن اصل سبب کا انکشاف چیمبرلین نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہاتھی جب مرنے لگتا ہے تو اسے سخت پیاس لگتی ہے اور وہ پیاس بُجھانے کیلئے نندی پر جاتا ہے۔ پانی پیتے ہی اس پر دل کا دورہ پڑتا ہے اور وہیں پانی میں گر کر مرجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو بعض سُوکھے ہوئے دریاؤں کی تلیٹی میں ہاتھی کی ہڈیوں کے انبار ملے ہیں اور یوں لگتا تھا جیسے وہ ہاتھیوں کا قبرستان ہو ۔
مسٹر چیمبر لین کے بعد مسٹر چرچل ان کے جانشین ہوئے۔ ان کے لیے میرے دل میں سب سے زیادہ احترام تھا۔ وہ بڑے صاف گو ثابت قدم اور صاف ستھرے ذہن کے آدمی تھے اور بیشتر اختلافی اور بیشتر اختلافی معاملات میں ان کا نقطہ نظر بالعموم درست ہوتا تھا۔
جب جنگ شروع ہوئی تو میرا قیام لندن میں ۴۹ پُٹنی ہل پر تھا۔ یہ جگہ ومبلڈن کا من سے قریب ہی تھا۔ میں نے اس جگہ کا انتخاب خاص طور پر اس لیے کیا تھا کہ صبح کو گھڑ سواری کا لطف رہے گا۔ چنانچہ میں روز ہی صبح کو سواری کیلئے نکلتا تھا ۔ گھوڑوں کے اصطبل وہاں سے قریب ہی تھے اور مجھے ہر صبح وہاں سے ایک نہایت خوبصورت اور سیدھا ہوا گھوڑا کرایہ پر مل جاتا تھا ۔ اس زمانہ میں اس تفریح کے لیے صرف پانچ شلنگ یومیہ دینے پڑتے تھے۔
سائیس کو ایک شلنگ کی بخشیش اس کے علاوہ تھی اور اسی میں نہال ہو جاتا تھا۔ میرا ایک دن بھی صبح کی گُھڑ سواری کا ناغہ نہیں ہوا حالانکہ کسی کسی دن گہری کہر چھائی ہوتی تھی۔ کسی ایسے ہی روز میری ملاقات لندن کے بازارِ حصص کے ایک دلال سے ہوئی جو میری طرح گھڑ سواری کا شائق تھا اور کہرکے باوجود سیر کے لیے نکل آتا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ گرم ملک کا رہنے والا شخص ایسے بھیانک موسم میں گھوڑے پر سوار مزے سے پھر رہا ہے۔
جن دنوں میرے اہل و عیال میرے ساتھ لندن میں مقیم تھے ۔ میرے ملازم بھی بیشتر ہندوستانی تھے، جنہیں میں اپنے ہمراہ لایا تھا اور ان میں دوخا د مائیں بھی شامل تھیں۔ ایک صبح میرا ملازم محمد خاں ٹیکہ معمول کے مطابق مختلف کمروں کے پردے سرکا کر صفائی کر رہا تھا کہ ڈرائنگ روم میں اس کی نظر ایک انگریز پر پڑی۔جو وہاں سو رہا تھا۔ جس طرح کے انگریز ہندوستان میں اس کی نظر سے گزرے تھے اس کے بعد تو سبھی انگریز اس کے لیے معزز تھے۔ لہٰذا محض احتراماً اُس نے صاحب کو سونے سے جگانا مناسب نہیں سمجھا لیکن اس نے خود ہی آواز سن لی اور وہ جاگ گیا تھا۔خان نے یہ سوچتے ہوئے کہ شاید میرا کوئی دوست ہوگا، صاحب کو ایک زور کی سلیوٹ ماری ۔ لیکن وہ شخص جب کھسکنے لگا تو خان کو شک گزرا اور وہ اس کے پیچھے دوڑا اور لپک کر اُسے گردن سے پکڑ لیا ۔ بعد میں پولیس نے خان کو حسن کارکردگی کی ایک سند دی اور ہمارے باغیچہ سے ایک بیش قرار دولت کھود کر لے گئی۔ جسے اس ’صاحب نے ہمسائے کے مکان سے چرا کر یہاں دبا دیا تھا۔(جاری ہے)