گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 56
میں نے ان تمام شہروں میں ایک وقت میں پانچ پانچ سو افراد سے خطاب کیا اور اپنے ملک کی صنعتی اورجنگی طاقت کے بارے میں انہیں بتایا۔ امریکہ میں لوگوں کا اکٹھا کرنے کا ایک بڑا نادر طریقہ رائج ہے ۔ ہر شخص ایک ڈالر دیتا ہے جس کے عوض اسے کھانا مہیا کیا جاتا ہے اور جب لوگ کھانے سے فارغ ہو جاتے ہیں تو تقریباً گھنٹہ بھر ان لوگوں کی تقریریں سنتے ہیں ۔ جو دنیا کے مختلف ملکوں سے یہاں آتے رہتے ہیں۔ ایک دن میں نے خواتین کے ایک کلب میں تقریبا ۵ سو افراد سے خطاب کیا۔ میرے اور میرے سیکرٹری کے سوا کسی مرد کو وہاں داخلہ کی اجازت نہ تھی۔ کنساس سٹی میں بھی میں نے ایک بڑے مجمع سے خطاب کیااور جلسہ کے خاتمہ پر دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ایک شخص کے گرد اکٹھا ہوتا ہے ، ٹھٹھے لگاتا ہے اور رخصت ہو جاتا ہے ۔ میں نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری سے کہا کہ جاؤ ، دیکھو، معلوم تو کرو کہ یہ قصہ کیا ہے۔ اس نے پوچھا تو یہ راز کھلا کہ وہ کوئی ستر برس کا ایک بوڑھا جرمن ہے۔ امریکہ میں رہتے ہوئے اسے سترہ سال ہو گئے ہیں اور وہ نازیوں کا ہمدرد ہے۔ یہ شخص کھانے کی دعوت میں تقریر کے بعد نہایت بیہودہ اور مصحکہ خیز تصویریں تقسیم کرتا تھا تاکہ مقرر کی تقریر کی تضحیک ہو اور اس کا اثر زائل ہو جائے ۔ میں اس بوڑھے کو اپنے ساتھ ہوٹل میں لے گیا اور کوئی ڈیڑھ گھنٹہ تک بٹھائے رکھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو گاندھی کے ساتھ اتحاد کر کے انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نکال دینا چاہیے۔ میں نے اسے اپنے اس خیال کا ہمنوا بنانا چاہا کہ ہم کو سب سے پہلے ہٹلر سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ اور خود اسے بھی ہٹلر کے خلاف لڑنا چاہیے۔ اگرچہ میں اسے قائل نہ کر سکا تاہم دونوں میں کسی قسم کی رنجش پیدا نہیں ہوئی۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک شہر میں کسی پولو کلب کے ۳۱۔ ارکان نے مجھے عشائیہ پر مدعو کیا۔ ان میں سے تین افراد آئرلینڈ کے رہنے والے تھے اور تینوں وکیل تھے کھانے کے بعد جب میں نے اپنے دلائل سے انہیں گھیر لیا تو ان میں سے ایک نے میز پر زور سے مکامارتے ہوئے کہا ’’لیکن ہم انگریزوں سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘ باہر کے لوگوں کو اس بات کا بہت کم احساس ہے کہ امریکہ میں آئرش ، جرمن، اطالوی اور دوسری چھوٹی چھوٹی قومیتوں کے لاکھوں افراد آباد ہیں۔ ایک کروڑساٹھ یاسترلاکھ سیاہ فام باشندوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ جنگ میں جرمنی کے خلاف ان سب لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا آسان کام نہ تھا۔ امریکی لوگ دھڑا دھڑ دولت جمع کر رہے تھے۔ وہ بے حد خوش حال تھے۔ اور انہیں اپنا امن بہت عزیز تھا۔ ڈین ور کے کروڑ پتی لوگوں کے محلات ، ان کے باغات اورعوامی پارک دیکھ کر میں بہت متاثر ہوا۔ میں نے ایک دولت مند خاتون کے یہاں قیام کیا تھا، جنہیں دنیا بھر کی تمام نعمتیں اور آسائشیں میسر تھیں ۔ مثال کے طور پر ایک بٹن دبایا تو کمرہ گرم ہو گیا اور دوسرا دبایا تو ٹھنڈا ہو گیا۔ بستروں پر ریشم کی چادریں اور تکیوں پر ریشمی غلاف چڑھے ہوئے تھے۔
لاس اینجلز میں بہت دلچسپ وقت گزرا۔ گیری کو پراور ان کے خاندان کے دوسرے لوگوں کے علاوہ سسیل بی ڈی مل نے بھی میری بڑی تواضع کی۔ انہین کے مکان پر پالے گوڈ رڈ سے ملاقات ہوئی جس سٹوڈیو میں نے دیکھا ، اس کا فرش کچا ۔ ٹھنڈا اور تکلیف دہ تھا۔ ایکٹروں کے بیٹھنے کیلئے نشست تک نہ تھی اور ہرایکٹر کو ہر فقرہ تین چار بار دہرانا پڑتا تھا۔ اس کے بعد ہی کہیں کیمرے سے اس منظر کی آخری تصویر لی جاتی تھی۔ نہیں نہیں ، واپس جاؤ ، نہیں نہیں پھر سے آؤ‘‘ کے الفاظ کی تکرار سے سخت کوفت اور بیزاری محسوس ہو رہی تھی۔ اگر میں ایکٹر ہوتا تو کب کا بھاگ جاتا ، بہرحال انہیں اس کام کا گرانقدر معاوضہ ملتا ہے۔
ایک دن میں ایک امریکی دوست کے ساتھ کار میں بیٹھا کہیں جا رہا تھا کہ میں نے دائیں طرف اینٹوں کے دوستوں بنے ہوئے دیکھے۔ ایک ستون پر لکھا تھا۔‘‘ یہودیوں کا گاف کلب۔‘‘ میں نے اپنے دوست سے پوچھا ۔‘‘ یہ فرقہ وارانہ کلب کیسا؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ یہودیوں کو دوسرے امریکی کلبوں میں داخلہ کی اجازت نہیں ۔ بہت سے ہوٹلوں میں بھی یہودیوں کو گھسنے نہیں دیا جاتا۔ اس اطلاع سے مجھے دس آدمیوں کے ساتھ سیروز ریستوراں میں ایک عشائیہ پر مدعو کیا۔ وہاں دلچسپی اور تفریح کا کشش انگیز سامان موجود تھا۔ تمام بے روزگار ایکٹر اتوار کے دن وہاں جمع ہوتے تھے اور انہیں اپنی اہلیت کے اظہار کا موقع دیا جاتا تھا۔ فلموں کے پروڈیوسر بھی وہاں موجود ہوتے تھے۔ وہیں میں نے جوڈی گارلینڈ کا نام سنا اور جب باربراہٹن کے مکان پر گیا تو وہاں کیری گرانٹ سے ملاقات ہوئی۔باربراہٹن نے ازدراہ نوازش مجھے عشائیہ پر بھی مدعو کیا، کیونکہ اس کے ایک رشتہ دار جو کینن ڈائل کے بھی رشتہ دار تھے، مجھ سے لندن میں ملاقات کرچکے تھے۔ بعد میں جب میں کیری گرانٹ کے یہاں گیا تو معلوم ہوا کہ بیرونی دروازہ پر ایک گھنٹی لگی ہوئی ہے اور ٹیلی فون بھی رکھا ہے۔ میں نے بٹن دبایا تو ایک ملازم نے مکان کے اندر سے جو چند گز کے فاصلے پر تھا پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس کے بعد مجھے دوسرا بٹن دبانا پڑا جس سے دروازہ کھل گیا اور میں صدر دروازہ کے اندر داخل ہوگیا۔ اس کے بعد مجھے مکان میں داخل ہونے کے لئے ایک اور بٹن دبانا پڑا۔ بڑے بڑے فلمی اداکاروں کو بن بلائے ملاقاتیوں کی مداخلت بے جا سے بچنے کے لئے بہت کچھ جتن کرنا پڑتے ہیں۔ کیری گرانٹ اپنے بنگلے کے تالاب میں نہا رہا تھا۔ یہ تالاب بنگلے کے عقبی برآمدے کی دیوار تک وسیع تھا اور وہاں بار براہٹن کی ایک تصویر پر ایستادہ تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے باربراہٹن سے محبت ہے اور ہم دنوں شادی کرنے کے لئے جنوبی امریکہ جانے واے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بعد میں انہوں نے شادی کرلی تھی۔
میں نے لاس اینجلز میں بیورلی ہلز پر گھڑ سواری کا بھی لطف اٹھایا۔ سان فرانسسکو میں مجھے ایک بہت بڑے ہال میں لیجایا گیا جہاں لوگ برطانیہ کے لئے تحائف کے بنڈل باندھ رہے تھے۔ اس شام کو مہمان خصوصی نامور ایکٹریس مس ہیلن ہیز تھیں۔ یہاں مجھے کسی نے بتایا کہ جو کچھ انگروزوں نے برطانیہ کے لئے اکٹھا کیا ہے اس سے کہیں زیادہ یہاں جرمن باشندوں نے جرمنی کے لئے جمع کرلیا ہے۔ جرمنوں کا طریق کار یہ تھا کہ وہ تین چار نہایت خوبرو نوجوانوں کو مختلف مکانوں پر مانگنے کے لئے بھیج دیتے تھے۔ وہ جاکر مکان کی گھنٹی بجاتے اور جب خواتین باہر نکلتیں تو ان نوجوانوں کی خوش پوشی اور خوب خوب روئی سے متاثر ہوکر وہ انہیں کچھ نہ کچھ ضرور دے دیتیں۔ بعد میں یہ تحائف کسی نہ کسی طرح جرمنی بھجوادئیے جاتے تھے۔
1941ء میں امریکہ سے کینیڈا کی حدود میں داخل ہوتے وقت مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے نیویارک دفتر کی خاتون ٹائپسٹ کے پاس کینیڈا کا ویزا نہیں ہے۔ کینیڈا اور امریکہ کے شہریا پنے پاسپورٹ تو رکھتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے ملک میں داخل ہوتے وقت انہیں ویزا حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کاش ایسا ہی انتظام بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی ہوتا لیکن کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے ہمارے اختلافات بہت کشیدہ ہوگئے ہیں۔
میں نے 1941ء کے دورہ امریکہ میں یہ تاثر لیا کہ امریکی ہرگز جنگ نہیں کریں گے۔ وہ پیسے بٹوررہے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ توقف کریں اور دیکھیں کہ جنگ میں کس کا پلہ بھاری ہوتا ہے۔ا گر انجام کار یہ ظاہر ہوا کہ انگریز جیت رہے ہیں اور انہوں نے جرمنی کو تھکا مارا ہے تو امریکی بالکل آخری لمحہ پر شکار میں حصہ لینے کے لئے آجائیں گے۔ روز ولٹ نہایت دانشمندی کے ساتھ چل رہے تھے کیونکہ امریکہ جیسے ملک میں، جہاں اتنی متنوع قومیں آباد ہیں، جنگ کے لئے تیار ہونا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ ان کے رویہ سے ظاہر تھا کہ انہیں کوئی عجلت نہیں لیکن برطانیہ عظمیٰ اور اس کے اتحادیوں کے نقطہ نظر سے یہ صورتحال انتہائی ناقابل اطمینان تھی۔ روز ولٹ کی یہ حکمت عملی اس عظیم شخص چرچل کی پالیسی سے کس قدر مختلف تھی! لندن کے ایک اجلاس میں کسی مسئلے کے متعلق میں نے انہیں یہ کہتے سنا تھا کہ میں کوئی کارروائی کرنے سے پہلے اس بات کا انتظار نہیں کروں گا کہ دیہات کے آخری گھامڑ آدمی سے بھی مشورہ کرلیا جائے۔ ذمہ داری میری ہے اور میں جو مناسب سمجھوں گا کروں گا۔ جہاں تک جنگ کا تعلق ہے، میں امریکہ سے وہاں کے لوگوں کے متعلق، کچھ زیادہ خوش آئند تصور لے کر نہیں آیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جاپانیوں نے جب پرل ہاربر کے امریکی بیڑے پر حملہ کیا تو اس عمل میں درپردہ قضا وقدرکا ہاتھ شامل تھا۔ چنانچہ حملے کے فوراً بعد روز ولٹ کو اعلان جنگ کرنا پڑا۔ یہ میرا پختہ عقیدہ ہے کہ پرل ہاربر کا حملہ دست قدرت کا کرشمہ تھا، جس نے امریکیوں کو جنگ میں حصہ لینے پر مجبور کردیا۔ اسی طرح روس پر ہٹلر کے مجنونانہ حملہ میں بھی اللہ کا ہاتھ کارفرما تھا۔
1941ء میں امریکہ جاتے ہوئے مجھے ایک نہایت ناگوار تجربہ سے دو چار ہونا پڑا تھا۔ مارچ کا مہینہ تھا اور جرمن افواج یورپ کے تمام ساحلی علاقہ پر جنگی کارروائیوں میں سرگرم تھیں۔ ہمیں ساؤ تھمپین سے طیارہ میں سوار ہوکر لزبن پہنچنا تھا۔ میرے طیارے کے عین عقب میں یہودیوں کے لیڈر ڈاکٹر ویزمین کا طیارہ تھا۔ ہٹلر کی فضائیہ کے طیارے اس کی نگرانی کررہے تھے۔ انہوں نے ویز کے طیارے کو پہچان لیا اور اس پر حملہ کردیا لیکن پائلٹ نے ڈبکی لگائی اور اپنے طیارے کو نشیب میں سطح سمندر سے محض دو سو فٹ کی بلندی تک لے گیا اور بالآخر حفاظت سے لزبن پہنچ گیا۔ میں نے لزبن میں دو دن قیام کیا مجھے ہر روز باہر جانے سے پہلے پولیس کو اطلاع دینی ہوتی تھی۔ تب کہیں باہر نکلنے کی اجازت ملتی۔ لزبن سے ہم طیارہ میں بیٹھ کر افریقہ کے مغربی ساحل پر واقع ایک شہربیلم پہنچے اور وہاں سے جنوبی امریکہ میں دریائے ایمزون کے دہانے پر واقع بولامہ کے شہر میں وار د ہوئے۔ یہاں ہم نے ایک کشتی میں بیٹھ کر ناشتہ کیا پھر یہاں سے طیارہ میں سوار ہوکر ٹرینیڈاڈ گئے جہاں میری ملاقات بہت سے ہندوستانی باشندوں سے ہوئی۔
ٹرینیڈاڈ سے ہم واشنگٹن اور پھر وہاں سے نیویارک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ مارچ 1941ء میں جب میں نے نیویارک کی سرزمین پر قدم رکھا تو ہمارے کونسل جنرل متعین نیویارک ہر وقت سنگھ ملک نے وہ تار میرے حوالے کیا جس میں والد صاحب کی رحلت کی خبر درج تھی۔ دوستوں نے مجھے بتایا کہ مرحوم بی بی سی کی خبریں سننے کے لئے رات کو دیر تک جاگتے رہتے تھے اور اس بات سے بے حد پریشان تھے کہ میں بمباری کے دوران میں لندن میں بیٹھا ہوں۔ لاہور میں ان پر دل کا دورہ پڑا تھا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔(جاری ہے)