بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔پہلی قسط

بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی ...
بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔پہلی قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں نے پاکستان میں اپنی گرفتاری سے تقریباً چھ دن قبل ایسا خواب دیکھا جو بڑا دردناک اور وحشت ناک تھا جس نے مجھے چونکا دیا۔ 

میں نے خواب میں دیکھا کہ میرا بڑا بھائی جس کے ہاتھ میں قصابوں والی بڑی چھری تھی، لہراتا ہوا میرے قریب آیا، اس کے چہرے پر غصے کے تاثرات تھے اور مسلسل مجھے گھور رہا تھا، مزید قریب آکر اس نے نرم لہجے میں کہا’’بھائی اس چھری سے میں آپ کو ذبح کرنا چاہتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر اس نے آستین چڑھائی۔ میں حیران تھا اور وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرا اپنا بھائی اس قسم کا ناروا ارادہ باندھ سکتا ہے۔
میں نے اپنے بھائی کے ساتھ کبھی برا سلوک بھی نہ کیا تھا نہ ہی اس کے حق میں کوئی کوتاہی کی تھی۔ میں نے سوچا آخر اس کو اس خطرناک ارادے پر کس نے ابھارا ہے۔ اور یہ کہ اگر بڑے بھائی کی خوشی اسی میں ہے تو مجھے ان کی خواہش پوری کرنا چاہئے اور مزاحمت نہیں کرنا چاہئے۔ میں نے نرمی سے پوچھا:’’بھائی! میں نے کبھی آپ کے ساتھ برا سلوک نہیں کیا۔ پھر آپ نے اتنا خطرناک ارادہ کر لیا آپ کس بات کا انتقام لینا چاہتے ہیں اور کیوں غیر شرعی کام کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟‘‘
بھائی نے جواب نہیں دیا اور آگے سے اس پر اصرار کر رہا تھا کہ مجھے آپ کو ذبح کرنا ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ پہلے تو میں اسے منا لوں گا کہ یہ بہت بڑا اقدام ہے لیکن اگر وہ نہ مانا تو پھر بڑا سمجھ کر میں خود قربانی دے دوں گا۔ چنانچہ ہوا یوں کہ میں نے اسے منانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی بات پر ڈٹا ہوا تھا آخر میں نے کہا کہ اپنا ارادہ شوق سے پورا کر لے اور اس امید کے ساتھ زمین پر لیٹ گیا کہ شاید اس کا دل پسیج جائے اور تھوڑا رحم آجائے مگر میری امیدوں پر پانی پھر گیا اور میرے اپنے بھائی نے انتہائی بے رحمی سے چھری میرے گلے پر پھیر کر مجھے ذبح کر ڈالا۔
میں نے یہ خواب کسی کو سنایا اور نہ خود تعبیر معلوم کرنے کی کوشش کی اس بھیانک خواب کو دیکھنے کے ٹھیک چار پانچ دن بعد میں نے پاکستانی حکام کو اپنے گھر کا چاروں طرف سے محاصرہ کرتے ہوئے پایا۔
گرفتاری:
یہ 2جنوری2002ء کی صبح تھی، پاکستان میں سال نو کی تقریبات اختتام پذیر ہو چکی تھیں۔ میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ معمول کی زندگی گزار رہا تھا اور ہر وقت افغانستان میں رہنے والے گمشدہ بھائیوں اور شہیدوں کی فکر میں مبتلا رہتا تھا۔ جو سنگدل ظالم دوست کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ میں ان کی قسمت پر کڑھتا تھا مگر اپنی تقدیر سے لاعلم تھا۔ تقریباً 8بجے کا وقت تھا گھر کے محافظوں نے اطلاع دی کہ چند پاکستانی سرکاری اہلکار آپ سے ملنے آئے ہیں۔ مہمانوں کو ایک چھوٹے سے کمرے میں بٹھایا۔ یہ تین افراد تھے ان میں ایک پختون(جو اپنا نام گلزار بتاتا تھا) اور باقی دو اردو بولنے والے تھے۔ میں نے افغان روایات کے مطابق تینوں مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور چائے بسکٹ سے تواضع کیا۔ میں متجسس تھا کہ وہ کیا پیغام لے کر آئے ہیں؟
اب تم محترم نہیں ہو:
اردو بولنے والے ایک سیاہ رنگ کے موٹے کلین شیو شخص نے جس کے چہرے سے نفرت اور تعصب ٹپکتی تھی جس کا پیٹ پھولا ہوا اور بڑے موٹے ہونٹ تھے اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے دوزخ کا ایلچی ہو، نے بڑے غیر موؤبانہ انداز میں بات شروع کی اور پہلا جملہ ادا کیا:
Your Excellenecy you are no more Excellency
(بڑے محترم اب تم محترم نہیں ہو)
یہ وہ الفاظ تھے جو سخت دشمنی اور تعصب کی بنیاد پر استعمال ہوتے ہیں اور کم عقل لوگوں کے منہ سے اکثر و بیشتر استعمال ہوتے ہیں اور یہاں ان الفاظ کی کوئی ضرورت نہ تھی سوائے تعصب اور دشمنی کے اظہار کے۔
پھر وہ شخص بولا: ’’آپ جانتے ہیں کہ امریکا بہت بڑی طاقت ہے اور کوئی اس کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا نہ ہی کوئی اس کا حکم ماننے سے انکار کی جرات کر سکتا ہے۔ امریکا کو آپ کی ضرورت ہے تاکہ آپ سے پوچھ گچھ کی جا سکے۔ ہم آپ کو امریکہ کے حوالے کرنے آئے ہیں تاکہ اس کا مقصد بھی پورا ہو اور پاکستان کو بھی برے خطرے سے بچایا جا سکے۔‘‘ میں نے بحث شروع کر دی اور کہا کہ چلو مان لیا آپ کے بقول امریکا ایک سپر طاقت ہے لیکن دنیا کے کچھ قوانین اور اصول بھی تو ہیں جن کے تحت لوگ زندگی گزارتے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ کن مروجہ اسلامی یا غیر اسلامی قوانین کے تحت مجھ سے یہ بدسلوکی کی جا رہی ہے؟(حالانکہ کسی بھی ملک کے سفیر کا تحفظ اور عزت بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے) آپ کس کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ مجھے میرے سوالوں کا جواب دیں اور مجھے اتنی مہلت دیں کہ میں آپ کا ملک پاکستان چھوڑ دوں ۔
میری باتوں پر اس بے رحم بد بخت’’مزدور‘‘ نے انتہائی بے شرمی سے اور غراتے ہوئے کہا:’’آج ہمیں اسلام یا قانون نہیں پاکستان کے مفادات عزیز ہیں۔‘‘ (درحقیقت اپنے شخصی اقتدار کا تحفظ مقصود تھا) میں نے یہ بات سنی تو سمجھ گیا کہ اب کوئی دلیل اور عذر کام نہ آسکے گا۔ خاموشی اختیار کرنے سے قبل صرف اتنا کہا کہ جو آپ کی مرضی ہے کریں ہم بے بس اور مجبور لوگ ہیں ۔سوائے خدا وند قدوس کے کوئی دوسرا آسرا اور امید نہیں۔ وہی ہمارا حامی و ناصر ہے۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا کہ آپ 12بجے تک گھر میں رہیں گے۔ اس کے بعد آپ کو پشاور لے جایا جائے گا۔ میری رہائش گاہ کو چاروں طرف سے محاصرے میں لیا گیا تھا اور باہر جانے کا کوئی راستہ تھا نہ کوئی امید۔ ٹیلی فون کے ذریعے پاکستان کے دفتر خارجہ سے رابطہ مگر سوائے خاموشی کے کچھ ہاتھ نہ آیا اور ذمہ داروں نے جواب دینے سے اعراض کیا۔
گھر سے بیدخلی:
پھر وہ لمحہ بھی آیا جب مزید سرکاری حکام آئے اور شاہی حکم صادر کیا کہ آپ کو پشاور منتقل کیا جا رہا ہے جہاں آپ ہمارے مہمان رہیں گے اور امریکی آپ سے صرف پوچھ گچھ کریں گے۔ ہو سکتا ہے دس دن بعد آپ گھر واپس آجائیں۔ یہی اطمینان میرے اہل و عیال کو بھی دلایا گیا اور مجھے یقین دلایا گیا کہ جب تک میں ان کا ’’مہمان‘‘ ہوں میرے خاندان کی رہائش اور خوراک وغیرہ کا بندوبست کیا جاتا رہے گا۔ میرا یہ سب کچھ ادھر ہی رہ گیا۔ میرے پاس دس مہینے کا ویزا تھا اور حکومت پاکستان کا یہ رسمی اجازت نامہ بھی کہ میں اس وقت تک پاکستان میں قیام کر سکتا ہوں۔ جب تک افغانستان کے حالات ٹھیک نہیں ہو جاتے جبکہ اقوام متحدہ کا وہ لیٹر بھی تھا جس میں پاکستانی حکام کو کہا گیا تھا کہ یہ (ملا عبدالسلام ضعیف) اہم شخصیت ہیں ان کا احترام ہونا چاہئے۔

جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

۔

(نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔حاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کی حیثیت کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔)

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان مٰیں شائع ہونیوالی تحاریر سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔