بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘سے سابق افغان سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کی کہانی۔۔۔دوسری قسط
بچوں کی چیخ و پکار:
لگ بھگ 12بجے کا وقت تھا جب تین گاڑیاں آئیں اور مسلح اہلکاروں نے گھر کا محاصرہ کرکے راستے اور لوگوں کی آمد و رفت کو بند کر دیا۔ اس وقت میڈیا کے لوگوں کو بھی مجھ سے ملنے کی اجازت نہ دی گئی۔ مجھے باہر نکلنے کا حکم دیا۔ میں ایسے حال میں گھر سے نکلا جب میرے بیوی بچے چیخ و پکار کر رہے تھے۔ میں اپنے بچوں کی طرف مڑ کر نہ دیکھ سکتا تھا کیونکہ میرے پاس ان کے لیے تسلی کا ایک لفظ بھی نہ تھا۔
’’اسلام کے محافظ‘‘ پاکستانی حکام سے مجھے ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ مجھے چند پیسوں کی خاطر امریکہ کو ’’تحفہ‘‘ بنا کر پیش کر دیا جائے گا(جس کا اعتراف جرنل پرویز مشرف نے اپنی کتاب ’’ان دی لائن آف دی فائر‘‘ میں بھی کیا ہے) میں اس فکر میں گھر سے نکلا کہ اتنا ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ کہاں گئی جمہوریت اور کہاں گئے انسانی حقوق ؟ مقدس جہاد کی باتیں کرنے والوں کو آخر کیا ہوگیا؟
پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مجھے ایک گاڑی میں درمیان میں بٹھایا گیا۔ گاڑی کے شیشے کالے تھے جن کے آر پار کچھ نہ دیکھا جا سکتا تھا۔ ہماری گاڑی کے آگے سکیورٹی کی گاڑی تھی جبکہ تیسری گاڑی ہمارے پیچھے تھی جس میں مسلح اہلکار تھے۔ مجھے پشاور روانہ کیا گیا۔ راستے میں نسوانی آواز میں گانے سنائے جاتے رہے تاکہ مجھے تنگ کیا جائے اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جائے ۔میں نے راستے میں ظہر کی نماز پڑھنا چاہی جو قضاء ہونے کے قریب تھی مگر کہا گیا کہ پشاور میں پڑھ لینا ۔ میرے بار بار مطالبے پر بھی پروا نہیں کی گئی۔ پشاور پہنچے تو ایک دفتر نما جگہ لے جایا گیا ۔یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ کون سی جگہ تھی۔ مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا جو خوبصورت میز اور کرسیوں سے سجا ہوا تھا۔ کمرے میں قائد اعظم کی تصویر تھی جبکہ میز پر پاکستانی جھنڈا لگا ہوا تھا۔ سامنے گھومنے والی کرسی پر پاکستانی شلوار قمیص میں ملبوس ایک میانہ قد پختون بیٹھا مسلسل کرسی میں گھومے جا رہا تھا۔ اس نے مجھے خوش آمدید کہا اور اپنا تعارف دفتر کے سربراہ کے طور پر کرایا۔ اس نے کہا ’’آپ ہمارے ایسے مہمان ہیں جن کے آنے پر ہم بہت خوش ہیں‘‘
میں ان الفاظ کے معانی جاننے سے قاصر تھا مگر لگتا تھا کہ وہ شخص ٹھیک کہتا تھا ۔شاید وہ خوش اس لیے تھا کہ اس کو میرے فروخت کرنے کے عوض بہت اچھا معاوضہ ملنے والا تھا۔ انسانوں کے سوداگروں (درحقیقت ضمیر فروشوں) کے لیے ڈالروں کے بدلے کسی مسلمان کا سودا جائز اور عین ’’جہاد‘‘ ہے۔
یہاں میں نے نماز پڑھی۔ دفتر کے سربراہ نے چائے پلائی اور کھانا کھلایا۔ پھر مجھے ایسے کمرے میں لے جایا گیا جو قیدیوں کے لیے مخصوص تھا۔ نسبتاً اچھا کمرہ تھا جس میں گیس، بجلی وغیرہ کی سہولت تھی جو سردی کو روکتی تھی۔ اٹیچ باتھ روم تھا جہاں پانی وافر مقدار میں موجود تھا۔ اچھی خوراک دی گئی۔ قرآن پاک کا نسخہ اور قلم کتابچہ بھی دیا گیا۔ ایک پہرے دار کو مجھ پر نظر رکھنے پر مامور کر دیا گیا۔ جس سے جو مانگتا دے دیتا تھا۔ تفتیش وغیرہ کا سلسلہ نہ تھا البتہ ایک شخص بار بار آتا جو عہدیدار معلوم ہوتا تھا، پشتو نہیں جانتا تھا اور مجھے اردو نہیں آتی تھی اس نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا’’What will happend
(کیا ہونے والا ہے؟)
میں نے جواب دیا’’ اللہ جانتا ہے۔ میں نہیں جانتا‘‘
اس دوران حکام آتے ، اچھے طریقے سے سلام دعا کرتے اور مجھے احترام دیتے۔ باتیں نہیں کرتے تھے مگر صاف دکھائی دیتا تھا کہ جب وہ مجھے دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آتے اور واپس پلٹ جاتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کمرے میں آیا۔ بہت احترام دیا پھر اچانک بلک بلک کر رونے لگا۔ اتنا رویا کہ بے ہوش ہوگیا۔ اس کو اٹھا کر باہر لے جایا گیا جس کے بعد کوئی کمرے میں نہیں آیا۔ چار گھنٹے بعد مجھے (پروگرام کے مطابق) امریکیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس واقعہ سے پہلے میں نے دو راتیں اسی کمرے میں گزاریں۔ تیسری رات 11بجے کے قریب میں نے سونے کا ارادہ کیا کہ اچانک دروازہ کھلا اور شلوار قمیص میں ملبوس چھوٹی ڈاڑھی والا ایک شخص اندر داخل ہوا اور خیریت دریافت کرنے کے بعد پوچھا ’’کیا ہونے والا ہے؟‘‘
میں نے لا علمی ظاہر کی پھر اس نے کہا ’’ہم آپ کو دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں‘‘
’’خدا حافظ‘‘
میں نے یہ نہیں پوچھا کہ مجھے کہاں لے جایا جا رہا ہے کیونکہ مجھے سچ کی امید نہیں تھی۔ مجھے واش روم استعمال کرنے کے لیے پانچ منٹ دیے گئے۔ ٹھیک دس منٹ بعد کمرے سے نکال کر پہلی بار ہتھکڑیاں لگائی تھیں اور آنکھوں پر کالی پٹی باندھی گئی۔ جیبوں کی تلاشی لی گئی اور ڈیجیٹل ڈائریکٹری، پاکٹ سائز قرآن مجید کا نسخہ اور کچھ رقم لے کر مجھے دھکے دے کر گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھے افراد خاموش تھے ۔کوئی کچھ نہ بول رہا تھا۔ گاڑی نے حرکت کی اور لگ بھگ ایک گھنٹے بعد میں نے ہیلی کاپٹر کی آواز سنی۔ مجھے (آثار و قرائن سے) یقین ہونے لگا کہ ہیلی کاپٹر امریکی ہے۔ پھر رفتہ رفتہ گاڑی ہیلی کاپٹر کے قریب ہوتی گئی اور اس کی آواز کانوں کو پھاڑنے لگی۔ اس دوران مجھے ضرب پڑی اور میری کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی اس ضرب کے نتیجے میں گر گئی یا(اس بہانے) مجھ سے لے لی گئی۔ ہیلی کاپٹر کے قریب پہنچ کر مجھے دو افراد کی مدد سے گاڑی سے اتارا گیا اور ہیلی کاپٹر سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا کر دیا گیا۔ چند لمحوں بعد میں نے ’’خدا حافظ‘‘ کے الفاظ سنے ۔یہاں مجھے پوری طرح یقین ہوگیا کہ میں امریکیوں کے حوالے کر دیا گیا ہوں۔
(جاری ہے، اس کے بعد کیا ہوا؟ اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
(نائن الیون کے بعد جب امریکی افواج نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کیا تو طالبان کی امن پسندقیادت کوبھی چن چن کر تحقیقات کے نام پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ جیلوں میں انہیں جانوروں سے بدترزندگی گزارنے پر مجبور کیاگیا تاہم ان میں سے اکثر قیدی بے گناہ ثابت ہوئے ۔ملا عبدالسلام ضعیف افغان حکومت کے حاضر سفیر کے طور پر پاکستان میں تعینات تھے لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کے چارٹراور سفارت کے تمام آداب و اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے پاکستانی حکومت کو مجبور کرکیااور انکو گرفتارکرکے گوانتانہ موبے لے جاکر جس بیہیمانہ اور انسانیت سوز تشدد کوروا رکھا اسکو ملاّ ضعیف نے اپنی آپ بیتی میں رقم کرکے مہذب ملکوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیاتھا ۔انکی یہ کہانی جہاں خونچکاں واقعات ، مشاہدات اور صبر آزما آزمائشوں پر مبنی ہے وہاں ملاّ صاحب کی یہ نوحہ کہانی انسانیت اورامریکہ کا دم بھرنے والے مفاد پرستوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے۔حاضر تاریخ میں کسی سفیر کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ حیوانی سلوک اقوام متحدہ کی حیثیت کا شرمناک چہرہ بھی بے نقاب کرتا ہے۔)
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں چھپنے والی تحاریر سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیں ۔