جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے۔۔۔ (نویں قسط)
شاہدنذیرچودھری
ساری زندگی یہی بات سنتے اور پڑھتے بھی آئے ہیں کہ جنات انسانوں کے لئے مخصوص غذائیں نہیں کھاتے پیتے لیکن میر اتجربہ بتا رہا تھا کہ وہ انسانوں کی غذائیں بھی کھاتے ہیں ۔بابا جی کے ساتھ گذاراہواوقت... وہ چائے پیتے ،آم کھاتے تھے،غازی آئس کریم کا شوقین تھا اور یہ جناتی تو لسّی بھی پی رہا تھا۔مور تو عامل جنات کی غذا ہے اور یہ بات کئی عاملوں کو بھی معلوم ہے کہ مسلمان عامل جن کالے بکرے ،کالے مرغے اور کالے مور رغبت سے کھالیتے ہیں لیکن کافر اور شیطان کے پیروکار جنات اُلّو کا گوشت اور خون پسند کرتے ہیں۔وہ زیادہ تر ناپاک چیزیں کھا کر اپنی شیطانی حیوانیت کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔یہ قدرت کے قانون اور اصول ہیں۔جس طرح حلال حرام سے ایک مسلمان اور کافر انسان کا تعین کیا جاتا ہے اسیطرح مسلمان اور کافر جنات میں فرق قائم ہوتا ہے۔کافر جنات اورعامل جوشیطانیت پر مائل ہوتے ہیں وہ اُلّو تنتراور کالا جادو کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔میں جناتی سے اس بات کا راز پوچھنا چاہتا تھا کہ آخر وہ انسانوں والی غذائیں کیوں کھاتے اور پیتے ہیں ۔میں نے ہمت کی اور اس سے پوچھا” میں حیران ہوں کہ یار تم نے لسّی کیوں پی ہے۔ کیا جن اور جن کا ہمزاد ایسی چیز پی کر اسکو ہضم کرسکتا ہے“
” اس میں کیا مسئلہ ہے۔“ جناتی بولا ” جب ہم پردہ اسرار سے باہر نکل آتے اور تم انسانوںکو نظر آنے لگتے ہیں تو ایسی چیزیں کھا بھی سکتے ہیں ۔اس وقت ہم تمہاری دنیا میں ہیں۔ویسے یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے جس نے ہم جناتوں اور اپنی بے شمار مخلوق کو ایسی قوتیں عطا فرمائی ہیں کہ وہ کیا کیا کھاپی سکتے ہیں۔تم انسان بھی تو ایسی ایسی گندی مندی چیزیں کھاجاتے ہو جو جانور بھی نہ کھاتے ہوں گے ۔ویسے ایک بات تمہیں شاید معلوم ہوگی کہ عامل جنات ہر شے کھاجاتے ہیں۔میں نے لسّی اس وجہ سے پی تھی کہ مجھے اور میرے ہمزادشتونگڑوں کے کلیجوں میں آگ لگ گئی تھی۔یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہمیں کسی طاقتور شیطانی مخلوق کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہمارا عامل بھی کمزور ہوتا ہے۔اگر یہ گرمی جو ہمارے جگر کو جلا رہی ہوتی ہے اسکو ٹھنڈا نہ کیا جائے ہم جل جاتے اور اس وقت لسّی سے زیادہ کوئی چیز تریاق نہیں ہوسکتا تھا“
” اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تم لوگوں کے اعضا بھی انسانوں کی طرح کام کرتے ہیں‘،دل معدہ جگر وغیرہ وغیرہ...‘ میں نے تجسس سے پوچھا۔
جناتی نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
” سارے اعضا بھی کام کرتے ہیں اور ہمارے اندر بھی انسانوں جیسی خواہشات پیدا ہوتی ہیں۔تم جانتے تو ہو کہ جنات انسانوں کی عورتوں اور مردوں سے شادیاں بھی کرتے ہیں اورتو اور جنات میں قوم لوط جیسی عادات رکھنے والے جن بھی موجود ہیں ۔یہ ایک خاص قبیلہ اور نسل کے جنات ہوتے ہیں ۔تم انسانوں میں بھی جیسے کسی علاقے کے لوگ اس بری عادت میں گرفتار ہوتے .... اب تو پوری دنیا میں قوم لوط پھر سے پیدا ہوچکی ہے بھاجی۔دور چاہے جو بھی ہو،اس میں ہر زمانہ کے لوگ ہوتے ہیں۔جنات کی دنیا میں بھی ایسے رویے اور مزاج اورعادتیں پائی جاتی ہیں“
باتیں کرتے ہوئے جناتی نے لمبا سا ڈکار مارا اور ہنس دیا” دیکھا لسّی کا کمال ۔ٹھنڈ پڑگئی ہے اور ہضم بھی ہوگئی ہے“
جناتی زندہ دلی سے باتیں کررہا تھا لیکن مجھے اسکی آمد کے وقت کا سمے نہیں بھولا تھا۔
” بابر حسین کا کیا کرنا ہے‘؟‘ میں نے پوچھا ۔
وہ خاموش ہوگیا ۔اور اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگا۔
” اندازہ تو ہوگیا ہے کہ وہ بہت بڑی مشکل میں گرفتار ہے۔اسکی بیوی کی حالت دیکھ چکا ہوں۔ایسی عورت جس پر جنات کا تسلط بری طرح سے ہو وہ نارمل نہیں رہتی اور اولاد پیدا کرے گی تو کچھ کہا نہیں جاسکتا زندہ رہتی ہے یا معذور ہوتی ہے۔‘جنات اسکے ساتھ ہم بستری کرتے ہیں۔اس کا مجھے پورا پورا یقین ہے۔اس صورت میں بابر حسین اسکے ساتھ سو نہیں سکتا“ جناتی کا انداز تشویشناک تھا” آسان کام نہیں ... میں کہوں کہ میں یہ کام اکیلاکردوں گا... یہ بھی ممکن نظر نہیںآرہا۔اور اگر تم یہ سوچو کہ تم کسی کتابی وظیفہ اور عمل سے اسکا علاج کرپائو گے تو یہ بھی ممکن نہیں... میں تو ابھی تک حیران ہوں کہ ان کے ساتھ وہ مخلوق کون تھی... کیونکہ ابھی تک میں نے ایسی شکل وصورت والے جنات نہیں دیکھے“
” تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہم بابر حسین کی کوئی مدد نہیں کرسکتے“ میں نے مایوسی سے اسکا منہ دیکھا ... جناتی بے قراری سے آنکھیں یوں جھپکنے لگا جیسے برقی قمقمے جلتے بجھتے ہیں۔اس نے لمبی آہ بھری اور بولا” کوئی نہ کوئی تو راہ ہوگی۔کوئی نہ کوئی تو چارہ ہوگا... “ یہ کہتے ہوئے وہ چونکا۔” بابا جی...“ اس نے میری جانب دیکھا تو اسکے سیاہ عفونت زدہ چہرے پر تبسم سا پھیلا۔
” کیا مطلب باباجی“ میں نے سوالیہ انداز میں دیکھا۔
” ایک صورت ہے اگر باباجی ہماری مددکریں تو شیطانوں کی اس پکھی کو بابر حسین کے گھر سے اٹھایا جاسکتا ہے اور بابا جی ہی اسکی بیوی کا علاج بھی کرسکتے ہیں“
” لیکن تم جانتے ہو کہ بابا جی کو بلانا مشکل ہے۔میں تو انہیں نہیں بلا سکتا حالانکہ ان برسوں میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا ہوگا جب مجھے یہ احساس نہ ہوتا ہو کہ وہ میرے آس پاس ہیں ...“ میں نے تاسف اور دکھ سے اپنے اندر کے زخموں کو کریدا۔” باباجی کے بغیر میں ادھورا ہوں... تنہا ہوں۔ان کے محبت بھرے شفیقانہ لمس کو ترس رہا ہوں...“
”آہ “ جناتی بولا” کاش میں اکیلا یہ کام کرسکتا .... لیکن میں اب یہ کام کرنا بھی چاہتا ہوں ...“
” کچھ سوچو جناتی بھائی۔کوئی اور ایسا راستہ۔مجھ سے رتی بھر محبت ہے تو مجھے بتاو¿ ہم کیسے ان مصیبت زدہ انسانوں کی مدد کرسکتے ہیں“
” بھا جی ... آپ سے محبت کا میں کوئی دعویٰ نہیں کرنا چاہتا ۔ابھی تو پہلی ملاقاتیں ہیں آپ سے ... میں تو جس ہوشربا جن زادی کو دیکھ کر آیا ہوں مجھے اسکی کشش اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔اگر میں بابرحسین کی کوئی مدد کروں گا تو سچی بات ہے اس میں اپنی غرض بھی شامل ہوگی ۔اس بدمعاش حسن کے سامنے دل ہار بیٹھا ہوں“ جناتی نے صاف گوئی سے اعتراف کیا۔
” اچھی بات ہے کہ تم نے جھوٹ نہیں بولا نہ غلط امید دل میں جگائی ہے۔اچھی بات ہے۔بندے کو صاف گو ہونا چاہے۔ بندے کو کوئی آس اور امید ہی آگے کی جانب لئے چلتی ہے۔“
میں اور جناتی کافی دیر تک باتیں کرتے رہے اور اسکا کوئی اور حل تلاش کرنے پر غور کرتے رہے ۔اسکی ایک بات پر مجھے خیال آیا ” جناتی ... کیا غازی بھی ہماری مدد نہیں کرسکتا؟“
جناتی نے چونک کر مجھے دیکھا” کرتوسکتا ہے مگر اس صورت میں کہ باباجی اسکے ساتھ ہوں۔اکیلا وہ بھی نہیں کرسکتا۔چھوٹے موٹے کاموں میں مددکردیتا ہے لیکن طاقتور جنات کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگا اسکے لئے بھی...“
” میرا مطلب یہ ہے کہ اگر میں غازی کو بلا لوں اور پھر اسکی مدد سے بابا جی کی بھی حاضری کا کوئی راستہ نکل آئے تو معاملہ حل ہوسکتا ہے“
” لیکن اس میں ایک خرابی ہے۔تم غازی کو کیسے بلاو¿گے“ جناتی نے کہا” تم اسکو بلانے کے لئے درست عمل کیسے کروگے؟ جبکہ یہ عمل میں پڑھ کردرست نہیں کراسکتا ... لیکن اسکی ایک صورت نکل سکتی ہے“
جناتی کی یہ تجویز حیران کن تھی” میں نے اگر تمہیں غازی کا کوڈ یعنی عمل بتایا تو غازی کو یہ علم ہوجائے گا اور میری شامت آجائے گی۔جب ایک ہمزاد کوئی عمل کرتا ہے تو عامل جن کو اسکا علم ہوجاتا ہے ۔ہمارے دستور بڑے ظالم ہیں اس لئے میں تمہیں اپنے ساتھ بابا موج دریا ؒ کے مزار پر لے جاتا ہوں ۔رات کافی ہوچکی ہے۔یہ رات ہے بھی نوچندی ۔تم بوریا بستر لپیٹو... اور مزار شریف پر پہنچو اور یہ وظیفہ پڑھ کر وہیں سوجانا ۔مجھے امید ہے جب سو جاو¿ گے تو صاحب مزار کے فیض سے تمہیں خواب میں اس عمل کی رہ نمائی حاصل ہوجائے گی“جناتی نے مجھے ساری بات سمجھا دی اوراس عمل کا صدقہ یا زکٰوة کی ادائیگی کا طریقہ بھی مجھے سمجھا دیا اور ہدایت کردی کہ پہلے عمل کا صدقہ اتارنا لازمی ہے۔ میں تہجد کے وقت رکشہ لیکر بابا موج دریاؒ کے مزار شریف پہنچا توسارا شہر روشنیوں میں نہایا تھا،آسمان پر چاند سے نور کا اجالا پھیلا ہواتھا۔ راستے میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں ایک مانوس سی مہک سے سرور اور کیف سا محسوس ہونے لگا نہ جانے میں اس کیفیت میں کتنی دیر تک رہتا کہ جین مندر کے پاس رکشہ ایک جھٹکے سے رک گیا،میں نے سامنے دیکھا تو رکشہ کے سامنے ایک درمیانے قد کا ننگ دھڑنگ ملنگ کھڑا تھا۔رکشے والے نے منہ باہر نکالا اور اکتاہٹ سے بولا” بابیو کیا مرنے کی صلاح ہے“
ملنگ نے اپنی بغل سے ایک پتلا سا ڈنڈا نکالا اور رکشہ ڈرائیور کے پاس آکر اسنے ڈنڈے کی نوک اسکے گلے پر رکھ دی اور گھور گھور کر اسکو دیکھنے لگا۔میں جھٹ سے نیچے اترا اور کہا ” نہ نہ سرکار غریب بندہ ہے،حکم کریں کیا چاہئے۔“
ملنگ نے ایک نظر مجھے سر سے پائوں تک دیکھا اور پھر ڈنڈے کی نوک ڈرائیورکی گردن سے ہٹا کر اسے ڈنڈے سے ہی اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ دفع ہوجاو¿۔میںنے رکشے والے کو کرایہ ادا کیا اور کہا” تم جائو یار میں یہاں سے پیدل چلا جاو¿ں گا“
اس نے کلچ دبایا اور جلدی سے رکشہ لیکر چلا گیا۔
” سرکار حکم “ میں نے ملنگ کی طرف عاجزانہ انداز میں دیکھا ۔
آٹھویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں
” صدقہ دے“ اسکی بات سن کر اچانک میرے بدن میں جھرجھری سی پیدا ہوئی لیکن میں نے جی کڑا کیا اور کہا” سرکار صدقہ تو ادھر دربار میں جاکر دینا ہے۔ابھی تو میں نے صدقہ خریدا بھی نہیں“ یہ سن کر وہ دانت نکوسنے لگا۔پھر اس نے جین مندر کی بوسیدہ زمین بوس عمارت کی طرف دیکھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر مندر کی طرف چلنے کا اشارہ کیا۔یہ مندر چند سال پہلے گرادیا گیا تھا۔میں مخمصے میں پڑگیا کہ جناتی نے تو مجھے کسی ایسے حالات سے خبردار نہیں کیا تھا۔یہ کیا افتاد آن پڑی ہے۔میں حیران و پریشان تھا لیکن میں نے محسوس کیا کہ میرے دل میں رک جانے کی خواہش پیدا ہورہی ہے لیکن کوئی طاقت مجھے مندر کی جانب کھینچے چلی جارہی تھی... اور ایک حیران کن منظر میرے سامنے ہویدا ہوتا جارہا تھا۔حالانکہ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ مندر اب ڈھہ چکا ہے لیکن اس منظر میں دودھیا سا اجالا پھیلنے لگاتھا اور اس اجالے میں سے ایک انسانی ہاتھ بلنداور دراز ہوتا ہوا میری جانب بڑھنے لگاتھا۔میں نے دائیں اور بائیں جانب دیکھا ،میرے اردگرد سارے مناظر تبدیل ہورہے تھے۔نہ کوئی سڑک،نہ گاڑی،نہ کوئی اور عمارت... یہ کیا۔میں ایک کچے راستے پر کھڑا تھا ۔دور دور تک چاند کی روشنی میں کھیت نظر آرہے تھے۔سامنے سربلند درازہاتھ،اسکے گرد دودھیا اجالا اور اس کے پس منظر میں ایک مندر کا ہیولا... میں نے خود پر نظر ڈالی تو مجھے شدید جھٹکا لگا... یہ میں نے کیا پہن رکھا ہے...گھر سے تو میں یہ کپڑے پہن کر نہیں آیا تھا؟؟؟
(جاری ہے، دسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)