جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔قسط نمبر26
منڈپ کی آگ میں شعلہ سا چھت کو لپکا اور شڑشڑ کرکے نیچے بیٹھ گیا،اس میں سے بو کا بھبکا اٹھا تو گنگو نے بے اختیار اپنی ناک کو دبا لیا، منمنی سی آواز میں بولا ’’ بڑی بو ماری ہے اس نے ‘‘
پتا گرو اسکی بات سن کر قہقہہ اٹھا ’’ تیرا ہی تھا ۔تو بھی گند کا شوربہ ہے ‘‘
’’ پتا اب ایسے تو نہ بولو۔۔۔ جیسا بھی ہوں تیرا ہی شوربہ ہوں‘‘ گنگو نے نادم ہوکرمگر شرارتی انداز میں کہا ۔
’’ اوئے تو بڑا حرامی ہے ۔سوچتا ہوں تو بڑا ہوکر بڑا پاپی بنے گا ،ابھی تیرے دانت بھی پورے نہیں اور جواب چبا کر دیتا ہے ‘‘ پتا گرو نے محبت سے اسکے سر پر اپنی انگلی دھرکر اسکی نوک سے اسکا سرسہلایا ۔۔گنگو نے پیار سے اسکی انگلی کو چھوا اور بولا ’’ باپو میرے تو تم ہی بھگوان ہو ۔تیرے بغیر میں کچھ نہیں ۔تو چاہے گا تو میرے منہ میں بھی دانت شانت اگ پڑیں گے ۔۔۔ پر باپو ایک بات ہے ۔‘‘
پتا گرو کو اسکے لہجے میں تشویش نظر آئی ۔’’ کیا بات ہے گنگو ‘‘
’’ باپو اصل میں ۔۔۔۔۔۔‘‘ اس نے کن اکھیوں سے میری جانب دیکھا
ہاں بول ۔اسکی فکر نہ کر وہ بچہ ہے ،کیا سجھے گا تو بتا کیا بات ہے۔‘‘
پراسرارعلوم اور ماورائی دنیا کی سلسلہ وار کہانی۔۔۔قسط نمبر25 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ باپو ابھی میں جب اسکے اندر حلول کرکے گیا تھا تو مجھے اسکے دل پر نور کا ہالہ سا نظر آیا تھا،ایسے جیسا کسی بیٹری کا چھوٹا سابلب ٹمٹاتا ہے۔وہ روشن اور نیلی سپیدی جیسا تھا اور۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ کیا بول رہا ہے تو بدبخت ۔۔۔۔۔۔یہ کیسے ہوسکتا ہے ‘‘ پتا گرو کے ماتھے پر سلوٹوں کی گرہیں الجھ گئیں ۔’’ یہ نہیں ہوسکتا ۔‘‘
’’ یہ کیا تھا باپو‘‘ گنگو نے ڈرے سہمے لہجے میں پوچھا۔
پتا گرو نے خشمگین و متردد نظروں سے اسے دیکھا اور خاموش ہوگیا ۔چند لمحے سوائے منڈپ کی اگنی میں جلتی لکڑیوں کی آواز کے کوئی اور چاپ اور صدا سنائی نہیں دی،گہری خاموشی،پرچھائیاں بھی جیسے سہم کر اپنے پروں میں چھپ گئیں ۔پتا گرو بے قراری سے اٹھا ۔اس نے مجھے گہری نظروں سے دیکھا ،پھر سرہلایا اور منڈپ کے پاس آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا ۔زیر لب شبد پڑھنے لگا ۔چند لمحوں بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور دونوں بازوکھول کر دائرے کی شکل میں لہراکر اس نے ہاتھ اگنی منڈپ سے چند ہاتھ پیچھے زمین پر ٹکائے اور سجدے میں گر کر بدبدانے لگا،بس مجھے اسکا ایک لفظ سنائی دیا تھا ’’ ماتا رکھشا کرنا اپنے سیوک کی‘‘
سجدے سے اٹھا کر اس نے گنگو کو اشارہ کیا ’’ اس پر اسکی ماں کا جادو چل گیا ہے ‘‘
’’ باپو اسکی ماں تو پکی مسلمان ہے وہ کیسے جادو کرسکتی ہے ‘‘ گنگو نے اپنے تئیں جو بات کی اس میں معصومیت گھلی تھی لیکن پتا گرو کا ہاتھ یکایک اٹھا لیکن وہ دانت پس کر رہ گیا .
’’ حرامی تو سمجھتا نہیں۔۔کہنے کا مطلب ہے اسکی ماں پکی مسلمان ہے ،وہ اس پر نورانی علم کی پھونکیں مارتی اور اسکو نوروالا پانی پلاتی رہی ہے۔یاد رکھ ۔تو نے اسکے دل میں جو جگتا دیکھی ہے یہ اسی وجہ سے ہے،جب کوئی مسلمان قرآن پڑھتا اور وظائف پڑتا ہے ۔مقدس پانی پیتا ہے تو اس پر ہمارے سارے حربے کامیاب نہیں ہوتے۔جب تک پورا دل کالا نہ ہوجائے کوئی بھی کالی ماتا کا پجاری مہاتما نہیں بن سکتا ۔اب سوچ کہ ببر کا دل کیسے کالا کرنا ہے۔‘‘
’’ باپوشما چاہتا ہوں۔آپ جیسے مہان کے ہوتے یہ کیسے نہ ہاتھ آو ے گا ‘‘ گنگو بولا ’’ اور پھر میں تو ہوں ناں ۔۔۔ جب گنگو دنیا میں آگیا ہے تو ببر بھی ہماری دنیا میں آوے گا ‘‘
’’ ہاں ٹھیک بولتا ہے‘‘ پتا گرو نے کہا ’’ یہ بالکل ٹھیک بات ہے ۔ہم دیکھتے ہیں یہ کہاں تک جاوے گا‘‘
پتا گرو نے آلتی کھولی اور میرے باپ کے پاس آٹھہرا،اس نے چند گھڑیاں اسکا چہرہ دیکھا اور ہاتھ دیوار کی جانب بڑھا کر بولا ’’ جل دے ‘‘
ایک پرچھائیں کا ہاتھ دیوار سے نکلا اور اس نے ایک پیالا سا پتا گرو کے ہاتھ میں دے دیا۔
پتا گرونے اپنا دایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا،ایک منتر پڑھا اور ہاتھ سے ایسے اشارہ دیا کہ اسکے ساتھ ہی قبر کا استھان ایک بار پھر ناگفنی کی پرسووز پھنکارتی سروں مین ڈوب گیا ۔وہ میرے باپ کے پاس بیٹھ گی اور اسکا سر اپنی گود میں رکھنے کے بعد اس نے پیالا لبوں سے لگادیا ۔ساتھ ساتھ پتا گرو کچھ پڑھتا بھی جارہا تھا ۔تھوڑے سی کوشش کے بعد وہ پیالے سے چند گھونٹ میرے باپ کے منہ میں ٹپکانے میں کامیاب ہوگیا ۔
پیالے میں نہ جانے کون سا امرت تھا،کیسا جل تھا کہ گرو نے یکایک ہچکی لی،کھانسا،سینہ میں سانس ابھری اور گرو کے چہرے پر تبسم پھیل گیا ۔اسی لمحہ گنگو اچھل کر میری گود میں آبیٹھا ۔
پتا گرو نے جھٹ سے پیالے کا باقی ماندہ جل بھی گرو کے منہ میں ڈال دیا اور پھر وہ لمحہ لوٹ آیا جب گرو یعنی میرا باپ ہم سب کے سامنے زندہ سلامت ہوکر بیٹھ گیا اور آنکھیں کھلتے ہی جب اس نے مجھے دیکھا تو جھٹ سے لپکا اور مجھے سینے کے ساتھ بھینچ کر بولا’’ میرا ببر ،میرا شیر ‘‘
میں بھی باپ کے سینے سے لگا تو میری بے قراری کو قرار آگیا۔گرو یونہی مجھے ساتھ لپٹائے رکھتا کہ اچانک منمناتی سی آواز آئی ۔
’’ اب چھوڑ بھی دے باپو۔کیوں میرا دم گھونٹ رہا ہے‘‘
’’ اوئے گنگو تو کدھر ہے ‘‘ گرو نے مجھے سینے سے الگ کیا تو وہ مدہوش سا لڑکھڑاتا ہوا نیچے جا گرا۔۔۔ وہ اس وقت میری گود میں تھا جب باپو نے مجھے وارفتگی سے اچانک لپٹالیا تھا اور وہ ہم دونوں کے درمیان آکر پیسا گیا تھا ۔
گرو اب اپنے پتا گرو کی جانب لپکا اور اسکے چرنوں میں گر گیا’’ سب آپ کی کرپاہے پتا۔۔۔ ورنہ میرا ببر مرجاتا ‘‘
’’ تیراببر۔۔۔‘‘ پتا گرو گرو نے خشمگین نظروں سے دیکھا
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ آپ کاہی ہے پتا جی ۔پہلا حق ببر پر آپ کا ہے ‘‘ میرے باپ نے دونوں ہاتھ باندھ کر کہا ’’ اب آپ ہی اسکو سنبھالیں ۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ ہم دونوں سنبھالیں گے اسکو ‘‘ پتا گرو نے کہا’’ اسکو گر گیان سکھانے ہوں گے اور اسکا پہلا وچار پہلا منتر آج سے ہی شروع کرنا ہے۔یہ شبھ گھڑی ہے اور ویسے بھی اگر اسکو آج منتر سوئیکار نہ کئے تو اسکے اور گنگو میں سمبندھ نہیں بن پائے گا‘‘
پتا گرو نے میرے باپ کو میرے دل کے اجالے اور نور سے بھی آگاہ کردیا ۔اسکے چہرے پر تشویش ابھری اور اس نے فوری کہا ’’ پتا گرو جی آپ شروع کریں۔دیر نہ کریں اب ‘‘
مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ میری تقدیر کا فیصلہ کررہے ہیں۔مجھے اندھیروں اور شیطانیوں کی راہ پر چلاتے ہوئے پہلا سبق دینا چاہ رہے ہیں۔میں تو اپنے باپ کو زندہ دیکھ کر بڑا مطمئن تھا ۔اس نے مجھے گود میں بیٹھایا اور اگنی کے پاس پتا گرو کے سامنے بیٹھ گیا ۔میں نے دیکھا گنگو پتا گرو کی گود میں بیٹھ گیا تھا اور پتا گرو اسکا سر حسب معمول انگلی کی پور سے سہلارہا تھا ۔
پتا گرو نے وہی پیالا جو اس نے میرے باپ کو پلایا تھا زمین سے اٹھایا اور اس میں دیکھا ،پھر سر ہلایا اور کہا’’ اس میں امرت کے کچھ قطرے ہیں ببر کو پلادو‘‘
گرو نے پیالاپکڑا اور میرے لبوں سے لگایا ،مجھے اس وقت پیاس بھی لگی تھی۔میں نے پیال میں سے بچے کھچے جل کو پی لیا اور مجھے صاف طور پر محسوس ہوا کوئی تیز سی کسیلی سی چیز میرے منہ سے ہوتی حلق سے سینے میں اتر ی تو یکایک میرے سینے میں شدید درد ہوا ،ابکائی سی آنے لگی ۔لگا جو پیا ہے باہر کو نکل آئے گا ،اسکے ساتھ ہی میرے بائیں کان کے قریب منہ لاکر پتا گرو کچھ پڑھنے لگا۔جونہی اسکے الفاظ میری سماعت سے ٹکرائے میرے سینے میں اٹھتا جواربھاٹا بیٹھ گیا اور میرے دماغ پر عجیب سا نشہ چھانے لگا،یوں لگا میں ببر نہیں کوئی اورہوں،ہواوں میں اڑرہا ہوں،گہری تاریکی ہے جس کے آخر میں ایک سرخ شعلہ سانپ کی زبان کی طرح لپک لپک میری جانب آنا چاہتا ہے،میرے کانوں میں پتا گرو کے شبد دھیرے دھیرے بڑھنے لگے اور اس نے مجھے پکارا ’’ ببر تو بھی پڑھ‘‘
میں نے من و عن وہی کیا جو پتا گرو کہتا چلا جارہا تھا ۔جوں جوں میں اسکے کہے الفاظ دہراتا رہا توں توں وہ سرخ شعلہ میرے پاس آتا چلا گیا اور پھر وہ لمحہ آگیا کہ وہ شعلہ میرے منہ میں داخل ہوگیا اور اسکے ساتھ ہی میرے سینے میں مکمل سکوت چھاگیا،میرے دماغ سے غبار چھٹ گیا ۔میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا ورط مسرت سے سب کے چہرے کھلے ہوئے تھے۔مجھے بھی یکایک محسوس ہوا جیسے میں کافی بڑا ہوگیا ہوں۔
’’باپو اب ذرا چمتکار بھی تو ہوجائے ‘‘ گنگو بولا تو پتا گرو نے کہا ’’ دیکھاتے ہیں،ضرور دیکھاتے ہیں ،اب ہمارا ببر کالے علم کا طالب علم بن گیا ہے، سکول داخل ہوگیاہے ۔اچھا ببر ذرا پہلا سبق تو سنا ‘ ‘
میں نے پتا گرو کی جانب دیکھا اور جب بولنے کے لئے منہ کھولا تو جو میرے منہ سے نکلا اس سے پہلے کبھی ہوش و ہواس میں رہ کر ایسے لفظ نہ بولے تھے۔کیا بتاوں بھائی یہ کون سے کالے کلمات تھے ۔بس اتنا عرض کردوں کہ جونہی میں نے وہ کلمے جو کالا جادو کرنے والے اپنی ریاضت کی آخری منزل پر پڑھتے ہیں انکی مجھ سے ابتدا کی گئی،میں نے ادا کئے تواچانک میرے سامنے آگ میں جھماکا ہوا اور اس آگ کے ہاتھ پیر اور کئی منہ نکل آئے ۔یہ آگ تھی یا کئی سلگتے ہوئے وجود ۔۔۔ مجھے ناری علم کا جو گیان دیا گیا تھا یہ اسکے موکلان تھے ۔یہ بڑے جابر اور ظالم ہوتے ہیں۔کالے علم میں جو بھی سبق پڑھا یاجائے اسکا موکل ،اسکی بدروح عامل کے سامنے آجاتی ہے۔یہ سب میرے ساتھ اس وقت ہوا جب میں چند سال کا تھا ،بالکل بچہ۔۔۔ کوئی بچے کو بھی کالا عامل بناتا ہے؟۔لیکن مجھے گندے لوگوں نے اس تیزابی دلدل میں گرادیا تھا ۔کاش اس وقت میری ماں میرے پاس ہوتی تو میرے دل کے نور کو بجھنے نہ دیتی ۔وہ اللہ سے اپنا ببر مانگ لیتی ،وہ کوئی دعا کرتی،کوئی آیت سنا کر میرے کانوں میں گھولے شیطانی زہر کا تریاق کرلیتی ۔۔۔ (جاری ہے )