جناتی، جنات کے رازداں کے قلم سے۔۔۔ اکیسویں قسط
قبر کے استھان سے باہر نکلے تو قبرستان کا سارا نقشہ ہی بدلا پڑا تھا۔بادل گرج رہے تھے اور تیزآندھی نما ہوائیں درختوں کوجھولا رہی تھیں۔ قبریں شق ،تختے اُڑے اور گھانس پھونس جو قبروں کو سرسبز رکھنے کے لئے لگاچھوڑی ہوتی ہیں ،بُری طرح نوچ کر جڑوں سمیت پرے پھینکی ہوئی تھی،ایک جانب تو قبر سے نکلتے ہوئے ایک مُردہ آہ زاریاں کررہا تھا ،اسکا سر باہر تھا اور باقی سارا دھڑ قبر کے اندر اور پوری جستجو کرکے باہر نکلنے کی کوشش میں تھا ۔
پتا گرو نے اپنی جھونپڑی کی جانب نظر اٹھائی، لالٹین اوندھی پڑی اور سوکھی چٹائی کو کسی بھی سمے آگ سے سلگا کر بھانبھڑ پھیلانے والی تھی۔پتا گرو جھونپڑی میں اپنے سیوک کودیکھنے کے لئے اُدھر بڑھا تووہ چٹائی پر یوں پڑا تھا کہ پورے شریر سے خون بہہ رہا اور کسی نے بے دردی سے اسکی کھال ادھیڑ چھوڑی تھی۔
جناتی، جنات کے رازداں کے قلم سے۔۔۔ بیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ بدبختو پرنتو میں تمہیں چھوڑنے والا نہیں ‘‘ پتا گرو کی میلی آنکھوں میں انگارہ سا اٹھا ۔ وہ قبرستان کو دور دور تک گھوم کر دیکھنے لگا مگر زندہ ہونے والے مردے اسکو نظر نہیں آئے البتہ انکی شریر چلاتی خونخوار آوازیں اسکی سماعت سے ٹکرارہی تھی۔وہ جلدی سے اس جانب جدھر سے آوازوں کا شور زیادہ تھا مالا جھپتا ہوا قبریں پھلانگتا بھاگا۔
کچھ فاصلے پر اس نے دومُردوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باہم لڑتے ہوئے دیکھا ۔وہ بری طرح چلا رہے تھے۔انکی ہیت کذائی سے ہی دل ابکائیاں لینے پر مجبور ہوجاتا تھا لیکن یہ پتا گرو تھا جس کی زندگی قبروں میں مردوں اور شیطانی مخلوق کے درمیان گزری تھی ۔ڈر اسکی نسوں میں نہیں تھا ۔پتا گرو جب ان مردوں کے پاس پہنچا اور مالا پر منتر پڑھ کر انہیں ادھ موا کرنے لگا تو دیکھا وہ مُردے لڑبِڑ نہیں رہے تھے بلکہ گوشت سے محروم انکی سوکھی ہڈیاں ایک دوسرے کی ٹانگوں میں اسطرح پھنسی ہوئی تھیں کہ ایک دوجے کو چھڑوانے کی کوشش میں کھینچاتانی کررہے تھے۔یہ آسان شکار تھے۔پتا گرو نے مالاکی شکتی کا جادو چلایا اوراس سے قبل مردوں کوکچھ سمجھ آتا،پتا گرو نے انہیں زمین پر گرایا اور نیچے گرتے ہی انکی کربناک چیخ اٹھی اور وہ بے سدھ ہوکر ایسے گرے جیسے وہ مدتوں سے مرے پڑے ہوں ۔
پتا گرو انہیں وہیں چھوڑ کر منتر اور شبد وغیرہ جھپتا ہوااور آگے بڑھا اور جیسے ہی ایک بوڑھے درخت کے پاس سے گزرا دھپ سے ایک مُردہ کسی عفریت کی طرح اس پرجھپٹا۔اگر پتا گرو اپنے حصار میں نہ ہوتااور مالا شکتی کو متواتر نہ جھپ رہا ہوتا تو یقنیناً مُردے کی گرفت میں آجاتا ۔
یہ اونچا لانبا مردہ تھا،جب زندہ ہوگا تو کسی بھینسے کی طرح پلا بڑا گرانڈیل جوان ہوگا۔پتا گرو کی رکھشا کام آئی اور وہ گرانڈیل مُردہ خود ہی جھپکی کھا کر لڑھک گیا ۔اسکے دیدوں میں انجانا خوف تھااور کسی مُردے کی آنکھیں کھلی یوں تو اُن میں کون جھانک سکتا ہے۔
پتا گرو نے اسکو پرے دھکیلا اور پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے مالا شکتی کے منتر پڑھنے لگا ۔اس کی خوش قسمتی تھی کہ چند قدم پر اسے درندوں کی طرح بھنبوڑتے ہوئے مُردوں کا ایک غول ابلیس مل گیا ۔وہ کافی سارے تھے اور کوئی انسان انکی گرفت میں آچکا تھا ۔بالکل ایسے جیسے جنگل میں بہت سے لگڑ بگڑ کسی بے کس جانور کو پکڑ لیتے ہیں تو غراتے مچلتے تیز دانتوں سے اسکو ادھیڑنے لگتے ہیں ۔
وہ بے چارہ کون تھا؟ اسکا تہبند اور پگڑی دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ کوئی غریب مسکین دیہاتی ادھر آیا ہوگا لیکن پتا گرو نے غور کیا تو اسکی پگڑی کے پاس ہی لکڑیوں کا ایک گٹھا بندا پڑا تھا۔یہ صندل کی لکڑیاں تھیں جو نہ جانے وہ کہاں سے اٹھا کر لارہاہوگا اورنہ جانے انکا استعمال کیا کرنا چاہتا تھا۔ ممکن ہے وہ خودکوئی حکیم تھا یا کسی حکیم کا ایجنٹ جو صندل اسکو سپلائی کرتا تھا ۔وہ ہندو تو ہر گز نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس علاقے میں کوئی ہندو تھا ہی نہیں کہ جس پر گمان ہوتا کہ وہ صندل شمشان گھاٹ کے لئے جارہاتھا۔وہ جو کوئی بھی تھا لیکن مرتے مرتے بھی وہ صندل کی لکڑیاں پتا گرو کو ایک طرح سے دان کرگیا اوراگر وہ اکیس مردے اکٹھے کرلیتاتو اسکا کام آسان ہوگیا تھا۔
اپنی مستی میں ایک دوجے سے لڑتے بھنبھوڑتے ہوئے زندہ مردوں کو یک لخت کسی اور انسان کی موجودگی کا احساس ہوا۔ایک زندہ مُردہ۔۔۔جو مُردہ نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اسکا سارا بدن سلامت تھا،سر پر لمبے گھنے بال بکھرے اور چہرہ خون سے لتا ہوا تھا،وہ فضا میں کسی خونخوارکتے کی طرح سونگھتا ہوا پتا گرو کی جانب مڑا اور جیسے ہی اسکی نظر پتا گرو پر پڑی۔اس نے انجانی آواز میں ہانک لگائی۔اسکی آواز سنتے ہی سارے مُردے یک لخت کسی مسمریزم زدہ انسان کی طرح گھومے ۔وہ اپنے سامنے ایک تازہ شکار دیکھ کر مچلے۔ان کے ادھ کھائے چہروں پر تازہ لہو انتہائی بھیانک تصویر کشی کررہا تھا ۔وہ آہستہ آہستہ ،دھونکنی کی طرح سانسیں چھوڑتے پتا گرو کی جانب بڑھے تو پتا گرو نے دو قدم پیچھے ہٹ کر مالا کو انکی جانب یوں اُچھالا کہ مالا کا بڑا منکا اس کے ہاتھ میں رہا اور مالا کے سارے دانے کِھلتے کِھلتے دور تک چلے گئے ۔پتا گرو نے اس لمحہ پورے وجدان سے انتہائی گرجدار آواز میں اپنی آتماؤں اور شکتیوں کو پکارکے نعرہ لگایا ’’ جے جے ہنومان ‘‘ ۔پتا گرو کی آواز ابھی تھمی نہیں تھیں کہ قبرستان میں کہیں قریب سے بھیڑےئے کی بھیانک چیخ سنائی دی۔چیخ سے زندہ مُردے ایک لمحہ کے اپنے لرزتے وجودوں کے ساتھ رکے تو انکی ہڈیاں بجنے کی صاف آوازیں سنائی دیں۔لیکن اس سمے ایک انہونی ہوئی۔گرجتے بادل اور تندو تیز ہوائیں ساقط ہوگئیں اور آسمان پر چاند سا روشن ہوگیا ۔اسکی روشنی بڑی تیزی سے قبرستان میں پھیلنے لگی اور ساتھ ہی ساتھ درختوں پر لرزہ سا طاری ہوتا نظر آیا۔ایسا لگ رہا تھا کوئی آرہا ہے اور اپنے بھاری وجود سے درختوں اور جھاڑیوں کو روندتا ہوا پتا گرو کی جانب بڑھ رہا ہے۔یہ سب کچھ ثانیوں میں ہورہا تھا ،لیکن پتا گرو نے پلٹ کر اس جانب دیکھنے کی کوشش نہیں کی جدھر سے یہ آفت آرہی تھی اور اسکی غراہٹ بڑھتی جارہی تھی۔پتا گرو نے اپنا منتر اور عمل جاری رکھا ، مالا کے دانے جن کا بڑامنکا پتا گرو کے ہاتھ میں تھا ،وہ دراز سے درازہوکر زندہ مُردوں تک پہنچے اور جونہی ایک مُردہ پہلے منکے سے لگا وہ چشم زدن میں وہیں پر ڈھہ گیا۔مالا کے منکے بوچھاڑ کی طرح ان پر گرتے چلے گئے اور وہ ایک ایک کرکے گرتے چلے گئے لیکن جونہی عفریت نمامردہ کے پاس مالا کے منکے پہنچے اس نے جھپٹا مارااور اپنی مٹھی میں منکوں کو قید کرتا چلا گیا اور پھر آخری منکا مٹھی میں لیتے ہی اس نے زور دار جھٹکا مارا۔
پتا گرو کو اس کی توقع نہیں تھی اور نہ ہی اندازہ تھا کہ قبر سے نکلا ہوا مردہ اتنا شکتی آتما ہوگا۔اس کے ہاتھ سے مالا کا بڑا منکا یوں نکلا کہ وہ بھونچکا رہ گیا۔
مُردے نے پتا گرو کو شعلہ بار نظروں سے دیکھااور مٹھی سے بند ہاتھ سے اپنے چہرے پرآنے والے بالوں کو پرے ہٹایا۔ پھر اس نے زور سے قہقہہ لگایا۔
’’ تیری جیسی پدیاں میری کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔ جو وچار کرنا جانتے تھے وہیں اصل گیانی اور پرماتما ہوتے ہیں اور تو پرماتما کو منکوں سے ڈراتا ہے۔چھی چھی چھی‘‘ اس کی آواز میں گونج اور دبدبہ تھا۔یہ کہتے ہی اس نے مٹھی میں دبائے ہوئے مالا کے دانوں پر پھونک ماری اور دوسرے ہی لمحے مٹھی کھول کر سارے منکے پتا گرو کی جانب اچھا دئے اوروہ نارنجی شعلوں کی طرح ان پر لپکنے کو تھے کہ آناً فاناً ایک بھاری بھرکم اور اس گرانڈیل عفریت سے دو ہاتھ لمبا وجود پتا گرو کے سامنے آ کودا۔نارنجی شعلے اسکے سینے سے ٹکرائے تو بھیڑئیے کی پھر وہی غراہٹ اب کی بار اس وجود کے حلق سے نکلی۔یہ آواز کیا تھا،گڑگڑاہٹ تھی،صور تھا ،بہت بڑا بڑا بلاسٹ تھا۔۔۔ پورا قبرستان بھونچال سے لرز اٹھا ۔دھرتی جیسے تھرا کر رہ گئی۔(جاری ہے)
جناتی، جنات کے رازداں کے قلم سے۔۔۔ بائیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں