شجاع قوم پٹھان کی تاریخی داستان، قسط نمبر 51

شجاع قوم پٹھان کی تاریخی داستان، قسط نمبر 51
شجاع قوم پٹھان کی تاریخی داستان، قسط نمبر 51

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ان دنوں اسرائیلیہ کا بادشاہ ناحم تھا اور یہودا کا بادشاہ غریا تھا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کی جلا وطنی کا یہ سلسلہ جاری رہا تھا جو اس واقعہ سے ایک سو اسی سال کے بعد بخت نصر کے ہاتھوں بیت المقدس کی تباہی پر ختم ہوا۔ اور ان اسرائیلی جلا وطنوں کی بدولت ۷۰۰ ق م کے بعد سے آریہ لوگوں میں لکھنے کا رواج بھی شروع ہوا۔

پٹھان قوم کی چونکا دینے والی تاریخ ۔۔۔ پچاسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

الغرض ان کے آنے سے میدیوںیعنی ان آریا لوگوں کو بہت فائدے حاصل ہوئے کیونکہ اس وقت آریوں کی حالت خراب تھی۔ اس بارے میں فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاؤلی بان کا بیان اس کی اپنی تصنیف ’’تمدن ہند‘‘ میں یوں درج ہے کہ
’’ان میں مطلق کسی قسم کی سیاسی نظامات یا ذات یا حکومت نہ تھی۔ ان کی معاشرت کی بنیاد خاندان پر تھی اور ساری قوم ایک تھی اور اس میں بالکل مدارج نہ تھے۔ ہر ایک خاندان کا باپ خود ہی پروہت، کاشتکار اور سپاہی تھا۔ یہ مختلف پیشے جو آگے چل کر ذات کی تقسیم کے باعث ہوئے اس وقت ملے جلے ہوئے تھے۔ رگ وید کے بڑے دیوتا اگنی آگ کا دیوتا ہے۔ سوم منشی عرق ہے جو اسکو تند کرتا ہے۔‘‘ اور اس کے برعکس اسرائیلی جلا وطن ، تعلیم یافتہ ہنر مند حکما نجومی طبیب اور ماہر نفسیات تھے تمدن و معاشرت میں بہت آگے تھے۔ غرض یہ کہ جیسا کہ قرائن سے ظاہر ہے کہ ہر کام میں اسرائیلی جلا وطن ، ان کے استاد بنے اور نیز ان مقامی لوگوں کو زندگی گزارنے کے اچھے طریقے سکھائے اور نظم و ضبط سے بھی واقف کرایا۔ اسرائیلیوں نے جہاں اپنے ملک شام کی طرح کوئی چیز یعنی دریا، پہاڑ، گاؤں، ندی نالہ، اور علاقہ دیکھا تو اس کا وہی شامی نام رکھا۔ سیاست میں بھی ان جلا وطنوں کا بڑا دخل تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ میدیوں اور پھر خورس کی سلطنت بننے میں انہی کاہاتھ تھا۔ اشوریوں اور پھر بابلیوں سے انتقام لینے کے جذبات بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلے یں ان کو ایک گونہ کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
جیسا کہ قصص القرآن جلد سوم ص ۱۷۱ میں درج ہے کہ :
’’بابلی سرداروں کا ایک وفد خورس کے پاس اس وقت پہنچا جب کہ وہ اپنی مشرقی مہم میں مصروف تھا۔ خورس نے ان کا خیر مقدم کیا اور ان کو اطمینان دلایا کہ وہ اپنی مہم سے فارغ ہو کر ضرور بابل پر حملہ کرے گا اور ان کو بابل کے ظالم اورعیاش بادشاہ سے نجات دلائے گا۔ خورس جب اپنی مہم سے فارغ ہوگیا تو حسب وعدہ اس نے بابل پر حملہ کر دیا۔ اسرائیلی تو اپنے آپ ہر فن مولا تھے۔ میدی یعنی آریا لوگ ہمیشہ ان کے محتاج رہتے۔ اس کے علاوہ ہخامنشی خاندان کے عہد سلطنت میں جو دو سو بیس سال سے مستحکم اور مضبوطی سے قائم تھا۔ اسرائیلی حاکم قوم کی شکل میں تھے۔ اس وجہ سے ان کی ہر بات میں وزن تھا۔ جو نام رکھنا قبول عام ہوتا اور جو بولتا وہی ہوتا۔ ان کی ہر زبان سے آریا لوگوں نے بہت الفاظ سیکھے اور ہر کام میں ان سے امداد لی اور سبق حاسل کرلیا۔ اسرائیلی قوم اور ان کے انبیاء اس علاقہ میں دینی تبلیغ اور راہنمائی کرتے تھے۔ علم و فضل کے مالک تھے۔ کمی صرف یہ تھی کہ اپنے ملک سے جلا وطن تھے اور منتشر حالت میں آباد تھے۔ لیکن پھر بھی ان کی فضیلت اپنی جگہ پر قائم تھی۔ مثال کے طور پر اگرکوئی وکیل، قاضی، عالم، حکیم، ماہر فن یا کوئی ہنر مند شخص بادشاہ وقت کے قانون کی خلاف ورزی کے سبب جیل خانہ میں چلا جائے تو ان کا علم وہنر جیل کے دروازے پر ہی نہیں رہ جاتا بلکہ وہ علم و ہنر وغیرہ اس کے ساتھ جیل کے اندر ضرور جائے گا۔ لہٰذا اسرائیلی خدا سے نافرمانی کے جرم میں تباہ و برباد ہوئے اور غلامی کے سزا وار بن گئے لیکن ان کی سمجھداری اور علم و ہنر اس حالت میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ اس کے متعلق قرآن کریم کا ارشاد ہے ۔ ولقد اخترنا ھم علی علم علی العلمین۔(سورہ دخان)
اور بلاشبہ ہم نے اپنے علم سے ان کو جہان والوں کے مقابلہ میں پسند کر لیا ہے۔ معلوم رہے کہ ہند کا نام آج کل پشتو زبان میں انڈ اور ہنڈ زیادہ استعمال ہوتا ہے اور انگریزی میں بھی انڈ بولا جاتا ہے۔ اس وقت سارے ہندوستان کو انڈیا اور اس کے باشندگان کو انڈین کہتے ہیں۔ مگر گزشتہ دورمیں یہ نام محدود تھا۔(جاری ہے)

شجاع قوم پٹھان کی تاریخی داستان، قسط نمبر 52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔