اکتیسویں قسط۔ ۔ ۔بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والی شجاع قوم کی چونکا دینے والی تاریخ
سواتی پٹھان:
سوات کے قدیم باشندے ہندو تھے جو سوہات کے نام سے مشہور تھے۔ پہلے زمانے میں اس خطے کو پٹھانوں نے فتح کیا (جن کو اب سواتی پٹھان کہتے ہیں) اور ریاست بنایا۔ ایک عرصے کے بعد یوسف زئیوں نے ان پٹھانوں کو اس خطے سے خارج کر دیا ۔
سواتی پٹھان کسی ایک خاندان یا قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ یہ کئی افغان قبیلے تھے جو محمد غوری کے ساتھ آئے تھے اور سوات میں آباد ہوگئے تھے۔ بعد میں باہر کے لوگ انہیں الگ الگ قبیلوں کے نام سے پکارنے کے بجائے سوات سے وطنی نسبت کی وجہ سے سواتی پٹھان کہنے لگے۔ ان لوگوں نے سلطان شہاب الدین محمد غوری کے عہد میں اس کے حکم سے سوات اور باجوڑ کی راہ لی تھی اور وہاں سے قدیم باشندوں کو جو کافر تھے نکال کر اس علاقہ پر قابض ہوگئے اور قریب چار سو سال تک یہاں قابض رہے اور پھر ان میں سے ایک بزرگ شاہ میر بابا نے بٹ خیلہ سے جا کر کشمیر پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کی شیخ محمد اکرام مصنف آب کوثر لکھتے ہیں:
تیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’سوات کے ایک بزرگ شاہ میر ۱۳۱۵ء میں کشمیر کے راجہ سنگھ دیو کے ہاں ملازم ہوئے اور اپنی خداداد قابلیت سے بڑا اقتدار حاصل کر لیا۔ ان کے بیٹوں کو بھی راجہ نے بڑے اختیارات دیئے اور ان کو راجہ کے ایک جانشین نے اپنا وکیل مطلق مقرر کیا آخر میں جب ملک کا نظام درہم برہم ہونے لگا تو ۱۳۴۳ء مین شاہ میر شمس الدین شاہ کے نام سے تخت نشین ہوئے اور سکہ و خطبہ جاری کیا۔ کشمیر میں اسلام انہی کی بدولت پھیلا۔ شاہ میر نے کشمیر سے اسلام کے سیاسی تعلقات کی بنیاد ڈالی۔‘‘
شاہ میر کے والد کا نام شاہ دین ہے۔ کیمبرج ہسٹری میں شاہ میر کی نسبت لکھا ہے کہ :
’’نئے بادشاہ نے اپنے اختیارات سمجھ اور نیک نیتی سے استعمال کیے کشمیر کے ہندو راجے بڑے ظالم تھے۔ ان کی علانیہ پالیسی یہ تھی کہ رعیت کے پاس معمولی دال روٹی سے زیادہ کچھ نہ رہنے دیا جائے۔ نئے بادشاہ کی حکومت لبرل اصول پر قائم تھی۔ اس نے بے جا سرکاری لگان اور غیر منصفانہ ٹیکس ہٹا دیئے۔ ٹیکس وصول کرنے کے ظالمانہ طریقے موقوف کردیئے اور سرکاری لگان پیداوار کے چھٹے حصے پر مقرر کیا۔
تاریخ فرشتہ میں درجہ ہے کہ:
’’شاہ میر ۷۱۵ھ میں کشمیر آیا اور راجہ کی اکثر رعیت اور ملازموں کو موافق یعنی مسلمان کیا اور اتنا اثر پیدا کیا کہ ۷۴۷ھ میں اس نے حکومت خود سنبھال لی۔ بلاد کشمیر میں حنفی مذہب کو رواج دیا۔ شاہ میر کے چار بیٹے تھے بڑا بیٹا جمشید اور دوسرا علی شیر تھا۔ تیسرا میراث اور چہارم ہندال تھا۔ یہ سب قابل اور ہوشیار تھے۔ شاہ میر نے تین سال تک کامیاب حکومت کرکے وفات پائی اور اس کا بڑا بیٹا جمشید اتفاق سے تخت پر بٹھایا گیا اور علی شیر اس کا وزیر مقرر ہوا اور اپنے باپ کے طریقہ سے نظام حکومت عادلانہ قائم رکھا۔‘‘
کتاب راج ترنگینی (فارسی ترجمہ ملا شاہ محمد، شاہ آبادی) میں شاہ میر کی اولاد کے متعلق ذکر یوں درج ہے۔
’’سلاطین شاہ میر نے کشمیر میں تقریباً دو سو سال تک کامیاب حکومت کی۔ اس خاندان کا معروف ترین سلطان، زین العابدین، مشہور بادشاہ تھا۔ یہ سلطان بڑا عالم، ادیب اور شاعر تھا۔ عربی اور فارسی میں بے تکلف شعر کہتا تھا۔ اس سلطان نے کشمیری زبان کی کتابیں، قلمی نیز آثار عربی و فارسی و سنسکرت کو جمع کیا اور ایک بڑے کتب خانے کی بنیاد رکھی۔ یہ کتب خانہ سری نگر شہر میں تا عہد حکومت سلطان فتح شاہ (۸۹۲۔۸۹۸ھ) برقرار تھا۔‘‘
اس خاندان کا آخری بادشاہ یوسف شاہ بن علی شاہ تھا جس کی بادشاہت ۹۹۴ھ میں اکبر بادشاہ کے ہاتھوں ختم ہوئی۔(اقبال نامہ اکبری)
الغرض سواتی پٹھانوں نے الغ بیگ اور بابر کی اطاعت سے انکار کرتے ہوئے مردانہ وار مقابلہ کیا اگرچہ شکست کھائی تاہم برسوں تک اس علاقہ پر قابض رہے یوسفزیوں کی آمد پر ان سے مقابلہ کی تاب نہ لاتے ہوئے ضلع ہزارہ کا رخ کیا اور وہاں سواتی پٹھان پکارے جانے لگے۔ علاقہ سوات سے نکل کر ہزارہ میں جس علاقہ پر انہوں نے قبضہ کیا اسے سلطان پکھال کے نام سے پھکلی نام دیا گیا۔ پھر اٹھارویں صدی میں سید جلال بابا کی قیادت میں اس قبیلہ نے ہزارہ کے شمالی علاقہ سے ترکوں کو نکال کر تمام پہاڑی اور میدانی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ قبیلہ کئی ذیلی شاخوں میں منقسم ہے۔ مثلاً گبری، ممیالی، عالی، متراوی دیشان اور دودان، دودگان یا دیگان جو ایک ہی نام ہیں اور اس وقت ان کو دو دیال کہتے ہیں۔ فتوح البلدان کا مصنف لکھتا ہے:
’’دودان ایک قوم تھی شام کی سرحد(آرمینہ) میں جو مدعی ہے کہ وہ بنی دودان بن خریمہ میں سے ہے۔ ‘‘ بموجب تورات ، دودان بن یقشان بن ابراہیم علیہ السلام۔‘‘
معلوم رہے کہ آرمینیہ میں اسرائیلی جلا وطنوں کا ذکر ہو چکا ہے۔ بنی ا سرائیل میں دودان ایک خاندان بھی تھا یہ لوگ محمد غوری کے ساتھ اشغر میں آئے تھے۔
تواریخ حافظ رحمت خانی میں متراوی قبیلہ کا ذکر ہو چکا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو یوسفزئی بیان کرتے ہیں۔ گبری کی وجہ تسمیہ کے متعلق معلوم رہے کہ کوہ گبر دریائے توچی کے قریب علاوہ میں ورغڑ کے متصل افغانستان کی مشرقی سرحد پر جہاں اس وقت بٹنی افغان رہتے ہیں ،بٹنی ق ذات کے پٹھان دراصل افغان ہیں ۔ یہ لوگ وہاں پرایک وادی میں رہائش پذیر تھے اور محمد غوری کے ساتھ وہاں سے چلے آئے تھے۔ وہاں کی رہائش کی وجہ سے ان کا نام گبری اور بعد میں سوات میں رہائش کی وجہ سے سواتی مشہور ہوئے ،ان سواتی پٹھانوں میں چھوٹے چھوٹے مختلف افغان قبائل شامل ہیں جن میں بٹنی قبیلہ کی بھی ایک شاخ تھی جو بٹخیلہ ۔ بٹگرام اور بٹل کے ناموں سے ظاہر ہے۔ بعض مورخین ان کے نسب کے متعلق مخالف رائے رکھتے ہیں لیکن حقیقتاً یہ افغان قبائل میں سے ہیں۔ ان کی مادری زبان اب بھی پشتو ہے۔ اور اس وقت یہ لوگ مواضعات بٹل۔ الائی شنکیاری، بٹگرام، مانسہرہ، بفہ، اوگئی، گڑھی حبیب اللہ اور بالاکوٹ وغیرہ میں آباد ہیں اور یہ لوگ اپنے آپ کو افغانا ور پختون بولتے ہیں یہ لوگ بڑے محنتی اور بہادر اور آزادی پسند واقع ہوئے ہیں۔ سکھوں اور انگریزوں سے سخت جنگیں لڑی ہیں۔ ان میں پختون ولی کے جذبات بھی نمایاں ہیں۔(جاری ہے)
بتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔