وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر58

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر58
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر58

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نزدیک پہنچ کے بھولو نے اسے زبردست جھکائی دی تو جوتی پانڈے کسی سحر زدہ ہرنی کی طرح کپکپایا پھر ایک بہت بت کی طرح زمین بوس ہو گیا جو زلزلے کے جھٹکے سے لرز اٹھتا ہے اور توازن کھو جانے سے گر جاتا ہے۔بھولو نے گرے ہوئے جوتی پانڈے کی گردن پر گوڈا رکھا اور بغیر کسی مزاحمت کے اس کی بازی لگوادی۔ ہندوؤں کا نام نہاد سورما ایک منٹ بعد ہی بغیر کسی کش مکش کے چت ہو گیا۔ تماشائیوں کو اس کشتی کا ایک منظر بھی نہ بھایا۔ البتہ انہیں بھولو کی ادائیں تو پسند آئیں مگر جوتی پانڈے کا یوں سحر زدہ ہو کر گر جانا ان کی شرمندگی کا باعث بن گیا۔
بھولو کے ہاتھوں جوتی پانڈے کی شرمناک شکست نے کولہاپوری عوام کو دل گرفتہ کر دیا تھا تو وشنو ساوڑا نے اس داغ کو ایک رات بعد ہی دھو دیا۔ اچھا پہلوان اور وشنو ساوڑا جیسے دو شیروں کا مقابلہ بھی کانٹے دار تھا۔ وہ مرہٹہ پہلوانوں کا ایک منفرد پہلوان تھا۔ وہ جس قدر رفتار سے افق شاہ زوری پر طلوع ہوا اسی قدر جلد غروب بھی ہو گیا تھا۔ عین جوانی میں اس کی موت نے مرہٹہ عوام کو بہت رنجیدہ کر دیا تھا۔ اچھا پہلوان بڑی تیاریاں کر کے آیا تھا اور امید تھی کہ وہ وشنو ساوڑے کو پسوڑی ڈال دے گا مگر جب کشتی ہوئی تو وشنو نے اچھا کی ایک نہ چلنے دی۔ اچھا پہلوان نے بڑی ستھرائی سے کشتی لڑی تھی تو وشنو ساوڑا نے بھی عجیب طرح سے چڑھائی کی تھی۔ جب اچھا پہلوان زخمی شیر کی طرف اس پر جست لگا کر جھپٹا تو وشنو ساوڑا نے اپنے قدموں پر گھوم کر اسے گردن پر بھرپور کسوٹا مارا تھا اور اچھا پہلوان اپنی طاقت کے زور اور کسوٹے کی شدت کے بوجھ سے گر گیا مگر حیران کن انداز میں وہ دوبارہ اٹھا اور وشنو ساوڑا پر جھپٹا۔ اب کی بار اچھا پہلوان آتش و غضب کی تصویر بن گیا تھا اور حریف کو صرف طاقت کے زور پر گرانا چاہتا تھا۔

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 57   پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

وشنو ساوڑا نے یہاں اڑپھس کا مظاہرہ کیا پھر دوسرے لمحے حریف کو ملتانی مار دی اور اچھا پہلوان چاروں شانے چت ہو گیا۔
بھولو نے اچھا پہلوان کی خوب گت بنائی۔ امام بخش اور حمیدا پہلوان اسے روکتے رہے مگر وہ اس وقت غصہ کی حالت میں تھا۔ حمیدا پہلوان نے جب اسے کہا۔
’’بھولو شاہ سوار ہی میدان جنگ میں گرا کرتے ہیں۔ وشنو ساوڑا کاریگر پہلوان ہے شکر کرو کسی بوہل کے ہاتھوں اپنا اچھا نہیں گرا‘‘۔
’’ماماجی! مجھے اس کے گرنے سے کوئی شرمندگی نہیں، مگر اس ڈھگے کو تو دیکھیں کشتی کیسے لڑا ہے۔ اسے کس نے کہا تھا صرف طاقت کا مظاہرہ کرے۔اگر بندے کا پتر ہوتا اور عقل استعمال کرتا تو مولا کی قسم وشنو سے کبھی نہ گرتا۔ ‘‘
’’او بھئی! جو بھی ہوا درگزر کرو‘‘۔ حمیدا پہلوان نے اسے سمجھایا۔ ’’یہ ہار اچھا سے بھی تو برداشت نہیں ہو گی۔ اب ساری عمری یاد رکھے گا کہ غلط انداز میں کشتی لڑنے میں شکست ہی مقدر ہو گی۔ میرا خیال ہے صبر و تحمل کی اہمیت کا اسے خوب اندازہ ہو گیا ہے‘‘۔
’’مگر آپ نے غور نہیں کیا ماما جی!‘‘ بھولو نے کہا۔ ’’کولہاپوری لوگوں نے ابا حضور اور آپ لوگوں کا کس جوش و خروش سے سواگت کیا ہے۔ ان کی اہم لوگوں سے بڑی امیدیں ہیں۔ ہمیں ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں اب ہمیں بھی تو عقل سے کشتیاں لڑنی چاہئیں۔‘‘
جب امام بخش پہلوان نے اپنے اپنے مخصوص انداز میں سمجھایا تو بھولو کا غصہ بھی کافور ہو گیا۔ ’’او بھئی اب بس بھی کر ناں یار۔ ایسا ہو ہی جاتا ہے‘‘۔
دوسرے دن بھولو برادران کو ایک نئی صورتحال سے سامنا کرنا پڑا۔ وشنو ساوڑا اچھا پہلوان کو گرانے کے بعد ایک درجہ آگے بڑھ چکا تھا اور بھولو سے کشتی لڑنے کا حق رکھتا تھا۔ اس نے بابا سوگندی اور سیٹھ سلیمان کو اپنا پیغام بھجوا دیا۔ معاملہ چلا اور بھولو جھٹ سے تیار ہو گیا مگر اعظم پہلوان عرف راجہ بڑوں کے آگے بول پڑا۔
’’نہیں جی یہ کشتی میں لڑوں گا۔ بھولو سے کشتی کرنیوالے کو مجھے گرا کر ہی ان تک پہنچنا پڑے گا۔‘‘
’’بھئی اب تیرا نہیں بھولو کا حق بنتا ہے۔۔۔‘‘ امام بخش نے کہا۔ ’’وشنو ساوڑا اگر بھولو کو مانگتا ہے تو اسے لڑنے دو‘‘۔
بابا سوگندی بولا’’ نہیں حضور اگر اپنا راجہ مچل رہا ہے تو اسے ہی لڑنے دیں۔ پہلے بھولو کی ڈھالیں گرائے گا تو پھر وشنو ساوڑا ہمارے مہمان بھولو تک پہنچ پائے گا‘‘۔
بابا سوگندی کی اس بات میں بھی وزن تھا اور یہ اصول بھی تھا کہ جب تک کسی بڑے پہلوان کی تمام ڈھالیں نہ گر جاتیں تب تک اس تک رسائی ممکن نہیں ہوتی تھی۔
سیٹھ سلیمان نے بھی کہا۔ ’’بابا سوگندی ٹھیک ہی کہتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سر کرنا ہو تو بڑی جان لڑانی پڑتی ہے۔ پہلے وہ راجہ سے لڑے پھر حسو پہلوان سے، اگر جیت لگاتار اس کا مقدر بنتی رہی تو پھر بھولو سے لڑے‘‘۔
یہ تجویز مان لی گئی اور وشنو ساوڑا کی اعظم پہلوان سے ہتھ جوڑی کرا دی گئی۔ ان کی کشتی میں چند روز باقی تھے جب اعظم عرف راجہ پہلوان کان کی ایک بیماری میں پڑ گیا۔ اس کے کان میں ایک چھوٹی پھنسی نکلی جسے وہ خاطر میں نہ لایا مگر جب یہی پھنسی ایک مہلک پھوڑے کی شکل اختیار کر گئی تو جان کے لالے پڑ گئے۔ کشتی کا دن سر پر تھا اور راجہ کی صحت یابی مشکل نظر آ رہی تھی۔ حمیدا پہلوان سب سے زیادہ متفکر تھا۔اس نے بات چلائی کہ کشتی ملتوی کر دی جائے مگر اعظم ڈٹ گیا۔
’’ناں ماما جی! میں اسی حالت میں وشنو سے ٹکراؤں گا‘‘۔
’’اوئے منڈیا ذرا عقل کر‘‘۔ حمیدا پہلوان نے ڈانٹا۔ ’’تو بھی اچھے کے پیچھے چل پڑا ہے‘‘۔
’’ماما جی میں کشتی میں جلد بازی تھوڑی کروں گا۔ میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔ بس آپ کشتی ملتوی نہ کریں‘‘۔
بھولو کے بعد اعظم راجہ مرہٹہ شاہ زوروں کیلئے لوہے کا چنا بن چکا تھا۔ وشنو ساوڑا سے اس کی یہ کشتی بڑی معرکہ خیز ہوئی تھی۔اس سے قبل کے دنگل میں جب سے اعظم نے مرہٹہ شاہ زور شامو ملک کو گرایا تھا تو کولہاپوری عوام گنگ ہو گئی تھی۔ انہیں تو یہ توقع ہی نہیں تھی کہ اکہرے بدن کا راجہ کالے دیو شامو ملک کو آسانی سے پٹ کھینچ کر گرا دے گا اور شامو ملک جیسا پہلوان جو اعظم کو کشتی سے قبل دیکھتا ہے تو اسے یوں مخاطب ہو کر کہتا ہے۔
’’ابے او پورگا تو لڑے گا مجھ سے۔ یعنی چوہان سے، نکالے پہاڑ سے ٹکرائے گا تو۔‘‘
شامو ملک کی یہ لاف زنی اور تعلی، نتیجہ اس کی عبرتناک شکست پر منتج ہوا تھا۔ عوام کو اس شکست کا بڑا قلق تھا۔ پھر جب جوتی پانڈے نے انہیں رسوا کرایا تو وشنو ساوڑا کی فتح نے ان کے جھکے ہوئے سر پھر سے اٹھانے شروع کر دئیے تھے۔
اعظم اکھاڑے میں آ گیا تھا۔ وشنو ساوڑا سے مقابلہ وہ کسی طور پر ملتوی نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ وشنو اور تماشائیوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ اعظم کا کان پھوڑا بن چکا ہے مگر وہ پھر بھی مقابلہ کیلئے آ گیا ہے۔اعظم جب وشنو کے سامنے آیا تو وشنو نے برق رفتاری سے اعظم کے کان پر کسوٹا دے مارا۔ پھوڑا پھٹ گیا اور کان سے خون لاوے کی طرح ابلنے لگا۔ اعظم اس اچانک افتاد کیلئے تیار نہ تھا۔ اس کا ذہن تاریک ہو گیا اور سر گھومنے لگا۔ وہ ڈگمگایا۔ وشنو خوشی سے جھوم اٹھا اور اچھل کر ایک اور کسوٹا دے مارا۔ یہ پہلے سے زیادہ مہلک تھا۔
یہ معجزہ ہی تو تھا۔
وشنو ساوڑے کے پہلے کسوٹے نے اعظم عرف راجہ پہلوان کے کان کے زخم کو پھاڑ کر رکھ دیا تھا تو دوسرے کسوٹے نے بگڑا کام سدھار دیا تھا۔ وشنو کے پہلے کسوٹا کی وجہ سے راجہ کے کان کا پھوڑا جونہی پھٹا، خون کے ساتھ اس میں جمع شدہ گندہ مواد تیزی سے نکل پڑا۔ پھر اسی اثنا میں جب اسے دوسرا کسوٹا برداشت کرنا پڑا تو پھوڑے کی تکلیف معجزاتی طور پر ٹھیک ہو گئی۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوا تھا جب سالوں پہلے کیکر سنگھ اور غلام پہلوان کی کشتی کے دوران معجزہ ہوا تھا۔ کیکر سنگھ نے ہتھ کٹی مار کر غلام کی ہنسلی کی ہڈی چڑھا دی تھی مگر جب اس نے غلام پہلوان کی گردن پر گوڈا رکھ کر اپنا آٹھ من کا وزن ڈالا تو ہنسلی کی ہڈی دوبارہ اپنی جگہ پر آ گئی تھی۔ آج یہی معجزہ اعظم کے ساتھ پیش آیا تھا۔
تماشائیوں سمیت حمیدا پہلوان اور بھولو نے پہلے یہی دیکھا تھا کہ اعظم وشنو ساوڑا کے ہاتھ چڑھ گیا ہے۔ پھر جب اعظم کو درد وکرب میں مبتلا دیکھا اور دوسرے لمحہ اعتدال میں پایا تو انہیں شبہ ہوا جیسے اعظم حواس کھو بیٹھا ہے اور اس کاذہن تکلیف کا احساس کرنے سے محروم ہو گیا ہے۔ حمیدا پہلوان جھٹ سے اکھاڑے میں کود گیا تھا اور منصف سے کہہ کر کشتی ملتوی کرانی چاہی۔ اعظم نے اپنے ماموں کو پریشان حال دیکھا تو اپنے زخمی اور خون میں نہائے کان کو صاف کرتے ہوئے بولا۔
’’ماما جی! پریشان نہ ہوں میں بالکل ٹھیک ہوں‘‘۔
حمیدا پہلوان نے تعجب آمیز نظروں سے بھانجے کو دیکھا۔ اعظم نے خون آلود ہاتھ اکھاڑے کی مٹی میں صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’ماما جی خدا کی قسم میں ٹھیک ہو گیا ہوں‘‘۔
وشنو ساوڑا نے اعظم کی خوداعتمادی کو محسوس کر لیا اور جھپٹ کر اسے اپنی گرفت میں لینا چاہا مگر منصف درمیان میں آ گیا۔
’’پہلوان ذرا صبر کر۔ پہلے اعظم کو تسلی سے اپنا لہو صاف کرنے دو‘‘۔
وشنو ساوڑا ہاتھ مسلتا ہوا پیچھے ہٹ گیا۔اعظم نے بڑے آرام سے خون آلود کان اکھاڑے کی مٹی سے صاف کیا پھر منصف کی اجازت سے حریف کو دعوت مبارزت دی۔
وشنو ساوڑا زخمی ناگ کی طرح بل کھاتا اس پر لپکا۔ اعظم نے اسے ہاتھ سے روکا اور لگتے ہی پٹھی ماری اور اسے رگیدنا شروع کر دیا۔ وشنو معمولی کاریگر نہ تھا۔اس نے اعظم کے جوالامکھی کو محسوس کر لیا اور اس کا حصار توڑ کر باہر نکل آیا۔ اعظم نے اس بار اسے جوابی کسوٹا مارا۔ یہ سو سنار کی ایک لوہار کے برابر تھی۔ وشنو کا سر گھوم گیا۔اعظم نے اس کے پٹ کھینچ لئے اور نیچے گرا لیا۔ مگر وشنو ساوڑا چت ہوتے ہوتے طرح دے گیا۔ البتہ وہ نیچے ہی رہا اور اعظم نے اسے رگیدنا شروع کر دیا۔ بالاخر مہاراجہ کو دخل اندازی کرنی پڑی اور ان کے حکم سے یہ کشتی برابر چھڑا دی گئی۔ مگر ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا گیا کہ چند دنوں بعد اسی مقام پر دونوں پہلوانوں کے درمیان پھر کانٹے دار معرکہ ہو گا اور یہ آخری اور فیصلہ کن ہو گا۔
وقت کافی مل گیا تھا۔اعظم کو حکیموں کے سپرد کرنے کے بجائے امام بخش پہلوان نے بذات خود اپنے بیٹے کا علاج کیا۔ اس کا زخم چند دنوں میں بھر گیا۔ یہ چند روز پہلوانوں نے کولہاپور کی سیروسیاحت اور شکار میں بسر کئے۔اعظم کے مقابلہ سے چند روز قبل بھولو کا معرکہ خیز مقابلہ بھی انجام پا گیا۔ سیٹھ سلیمان اور بابا سوگندی عطر فروش نے جس مقصد کے تحت بھولو کو کولہاپور بلایا تھا وہ وقت بھی آ پہنچا۔ بھولو کو دراصل رستم کولہاپور تڑاکا پہلوان کو سبق سکھانے کیلئے بلایا گیا تھا۔
تڑاکا کولہاپور شہر سے کوئی سو کلومیٹر دور ایک گاؤں ’’ملیا‘‘ کا رہنے والا تھا۔ وہ کاریگر مگر ہٹ دھرم شاہ زور تھا۔ انتہائی مغرور اور فیل مست تھا۔ اس نے بڑے بڑے شاہ زور گرا دئیے تھے۔ مثلاً غونثہ پہلوان، جیجا گھئے والا، حسینا دفتری، نظام گونگلو اور شریف پہلوان جیسے شاہ زور اس کے ہاتھوں ہزیمت اٹھا چکے تھے۔اللہ بخش لاہوری اور غلام محی الدین پہلوان کے بھی اس سے کانٹے دار مقابلے ہو چکے تھے۔وہ اپنی طاقت اور فن کے نشہ میں چور رہتا تھا وہ جب بھی کسی حریف کو گراتا تو انتہائی ذلت آمیز سلوک سے اس کی شکست کو تازیانے لگاتا۔ تڑاکا حریف کو چت کر چکنے کے بعد اسے سرعام تھپڑ مارتا اور کہا۔
’’بڑا آیا تھا تڑاکا سے دو دو ہاتھ کرنے۔ چل دفع ہو جا یہاں سے اور کبھی بھول کر بھی ادھر کا رخ نہ کرنا‘‘۔
بابا سوگندی اور سیٹھ سلیمان کو رستم کولہاپور کا یہ توہین آمیز انداز بہت تڑپاتا تھا۔ مہاراجہ نے بھی اسے سر چڑھا رکھا تھا اس لئے کوئی بھی تڑاکا پہلوان کو اپنا طرزعمل سیدھا کرنے کیلئے نہ کہتا تھا۔ اگر کوئی جرات کر بھی لیتا تو انتہائی بدتمیزی سے پیش آتا جس سے وہ دبے پاؤں آئندہ نصیحت کرنے کی کوشش نہ کرتا۔ سیٹھ سلیمان اور بابا سوگندی نے باہم مشورہ کرنے کے بعد ہی امام بخش اور حمیدا پہلوان کو کولہاپور بلایا تھا اور کہا تھا کہ وہ بھولو کے ذریعے اس سورمے کو نتھ ڈالیں۔ (جار ی ہے )

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں