وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر59
مقابلہ کولہاپور میں ہو رہا تھا۔ سیٹھ سلیمان اور بابا سوگندی نے مقابلے سے ایک رات قبل بھولو کو اعتماد میں لیا اور اسے کہا۔
’’پورگا! تم نے ہمارا ایک کام کرنا ہے‘‘۔
بھولو نے پوچھا۔ ’’آپ میرے بزرگ ہیں حکم کریں کیا کام ہے‘‘۔
سیٹھ سلیمان نے کہا۔ ’’بھولو ہم چاہتے ہیں کہ تم تڑاکا کو ذلت آمیز شکست دو۔ تم اس کی چھاتی پر سوار ہو جانا اور اسے تھپڑ مارنا۔ یہی اس کیلئے کافی ہو گا اور وہ آئندہ پہلوانوں کو ذلیل کرنے سے باز آ جائیگا‘‘۔
بھولو نے وعدہ کر لیا۔ ’’میں نے کبھی ایسا کام نہیں کیا مگر اس اتھرے کو سیدھا کرنے کیلئے تھپڑ مار کر اس کا گھمنڈ ضرور توڑوں گا‘‘۔
وقت مقررہ پر مقابلہ ہوا۔ تڑاکا آنکھوں میں نصرت کے الاؤ جلاتا ہوا اکھاڑے میں کودا۔ اکھاڑے کے درمیان کھڑے ہو کر اس نے مارے اور حقارت سے اکھاڑے کے باہر تھوک دیا۔ بھولو نے اس مرہٹہ سورمے کی یہ خوداعتمادی اور نفرت دیکھی تو ’’یاعلی‘‘ کا نعرہ مار کر اسے جھپکی دی۔تڑاکا اپنی جگہ ڈٹا اور اور دانت نکال کر بھولو کا منہ چڑانے لگا۔بھولو برق بن کر کودا اور اس کے پٹ کھینچ لئے۔تڑاکا کو سبنھلنے کا موقع نہ ملا۔ اسے تو اس وقت ہوش آیا جب بھولو نے اس کے کندھے لگا کر اس کی چھاتی پر سوار ہو چکا تھا۔تڑاکا بے بسی سے بھولو کا منہ دیکھ رہا تھا۔اکھاڑہ گاہ بھولو کی اس تیزی سے نعروں سے گونج اٹھی۔سیٹھ سلیمان بھولو کے اگلے قدم کا منتظر تھا کہ کب بھولو تڑاکا کو تھپڑ رسید کرتا ہے۔ یونہی چند لمحے بیت گئے مگر بھولو نے اسے تھپڑ مارنے کی بجائے اس کے سر پر مشفقانہ انداز میں ہاتھ پھیرا اور کہا۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر58 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’تڑاکا بندے کا پتر بن جا۔ آج میں چاہوں تو تجھے بھی اسی طرح ذلیل کر سکتا ہوں جس طرح تو دوسرے پہلوانوں کو تھپڑ مار کر کرتا ہے‘‘۔
تڑاکا پہلوان شرمساری سے زمین میں گڑ چکا تھا مگر تھا ڈھیٹ ،اس لئے عقل مندی کا مظاہرہ نہ کر سکا۔ بھولو نے جب اسے آزاد کیا تو وہ پہلے کی طرح تنی ہوئی گردن لے کر پنڈال میں گیا۔ بھولو کی جیت کی خوشی میں سیٹھ سلیمان اور بابا سوگندی نے کولہاپور میں عظیم الشان بگھیوں کا جلوس نکالا۔
دوسرے دن مہاراجہ نے خصوصی دربار لگایا۔ بھولو بھائیوں کی معیت میں راجہ کو سلام کرنے پہنچا۔ مہاراجہ نے اٹھ کر اسے گلے سے لگایا اور اسے ایک بیش بہا قیمت پگڑی پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’پورگا، ہم ایسی سیلا کسی کسی کو عنایت کرتے ہیں۔ تم نے تڑاکا جیسے ناقابل تسخیر اور فیل مست کو شکست دے کر ثابت کر دیا ہے کہ تم اس پگڑی کے حقدار ہو‘‘۔
بھولو نے جھک کر سلام کیا اور کہا۔ ’’مہاراج حضور کا اقبال بلند ہو۔ یہ آپ کی عنایت ہے کہ ایک بیش قیمت سیلا سے نواز رہے ہیں مگر افسوس کہ مہاراجہ حضور کی یہ پیش کش میں قبول نہیں کر سکتا‘‘۔
مہاراجہ کے ماتھے پر شکنیں پڑ گئیں۔ دربار میں سکوت چھا گیا۔ ہر کوئی حیران تھا کہ بھولو نے یہ گستاخی کیوں کی ہے اور مہاراجہ کی دی ہوئی نوازش کو کیوں ٹھکرا دیا ہے۔
’’پورگا پھر تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ مہاراجہ نے پوچھا۔
’’وہ چاہئے‘‘۔ بھولو نے مہاراجہ کے سر پر ہیرے جواہرات سے مرصع پگڑی کی طرف اشارہ کیا۔
بھولو کی یہ دوسری جسارت پہلے سے بھی بڑھ کر تھی۔ مہاراجہ نے کہا۔ ’’پورگا تم ہماری خاندانی مدین مانگ رہے ہو‘‘۔
’’جی حضور! مجھے یہی چاہئے‘‘۔ بھولو نے پراعتماد لہجے میں کہا۔
درباری اب منتظر تھے کہ مہاراجہ اپنے عزیز ترین پہلوان امام بخش کے اس عظیم شاہ زور بیٹے کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ مہاراجہ کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر پگڑی سر سے اتار کر بھولو کے سر پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’پورگا! ہم تمہارا مانگا ہوا تمہیں عنایت کرتے ہیں‘‘۔
مہاراجہ کولہاپور پہلوانوں کا عاشق زار تھا۔ اکھاڑوں سے اس کی محبت اور کشتی جیسے فن کو دوام بخشنے کیلئے اس کا یہ جذبہ ایک زندہ ثبوت کے طور پر بھولو برادران کے پاس آ گیا تھا۔ تڑاکا ندامت و خجالت کی بجائے اپنی شکست پر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اس کی شکست اتنی معمولی بھی نہیں تھی۔ریاست کے عوام نے اسے اتنا سر چڑھا رکھا تھا کہ وہ اس معیار عزت سے نیچے گرانا اپنی موت تصوّر کرتا تھا۔ وہ اس وقت اپنے خلیفوں پر دھاڑ رہا تھا۔ ’’میں نہیں جانتا۔ میرا جلد سے جلد بھولو سے مقابلہ باندھو۔ میں اس مُسلے کو چبا کر رکھ دوں گا‘‘
’’دھیرج کرو تڑاکا‘‘۔ اس کا خلیفہ بولا۔ ’’ایک دو ہفتہ گزر لینے دو پھر سوچنا‘‘۔
’’اب کیا سوچنا خلیفہ جی! تم جاؤ اور میرا مقابلہ طے کرو اور وہاں اسے کہنا کہ اگر اسے اپنی طاقت اور فن پر اتنا ہی وشواش ہے تو میرے گاؤں آ کر مقابلہ کرے۔ وہاں تو لوگوں نے اسے چڑھا رکھا ہے اسی لئے اسے شہ مل گئی تھی‘‘۔
تڑاکا کی بے چینیوں کو تبھی قرار آ سکتا تھا جب تک بھولو سے اس کا دوسرا مقابلہ طے نہ کر دیا جاتا۔ لہٰذا دوسرے ہی دن ٹھیکیداروں کے ذریعے بات چلی اور ’’ملیا‘‘ گاؤں میں تڑاکا اور بھولو کا دوسرا مقابلہ طے کر دیا گیا۔ یہ کشتی اعظم اور وشنو ساوڑے کی کشتی کے بعد طے ہوئی جو دو روز بعد ہونی تھی۔
اعظم روبہ صحت ہو چکا تو وشنو ساوڑے کے ساتھ کشتی کا وقت بھی آ گیا۔ وشنو ساوڑا نے اس بار صحت مند اعظم کو پہلے سے زیادہ پسوڑی میں ڈال دیا۔ اس بار تو لوگوں کو توقع تھی کہ اعظم کان کے ٹھیک ہونے کے بعد پہلے سے زیادہ مہلک ہو گا مگر جب وشنو ساوڑا نے اسے ہاتھوں میں تولا تو اسے اعظم بڑا ہلکا لگا۔ اس نے اعظم کو چت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یونہی آدھا گھنٹہ بیت گیا۔ کشتی کا نتیجہ وشنو ساوڑا کے حق میں جا رہا تھا لیکن اچانک اعظم نے پلٹا کھایا تو سمجھ ہی نہ سکا کہ دفاعی کشتی لڑنے والا اعظم ایک دم جارحیت پر کیسے اتر آیا ہے۔ اس بار اعظم نے بڑا ناپ تول کر قدم اٹھایا تھا۔اس نے وشنو کے سینہ سے سینہ ملا کر اپنی ایک ٹانگ اس کی ٹانگ کے گرد یوں لپیٹی تھی جیسے کوئی اژدھا اپنے شکار کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتا ہے۔دیکھنے والے تو یہی سمجھے کہ اعظم اناڑی کا کھیل پیش کر رہا ہے مگر جب اعظم نے ’’یا علی‘‘ کا نعرہ مار کر اپنی ٹانگ کو زور سے کھینچا اور ساتھ ہی وشنو کو گھسا مارا تو تڑاخ کی آواز گونجی اور وشنو ساوڑا کا گھٹنا ٹوٹ گیا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اعظم اس حد تک طاقت کا جنونی استعمال کرے گا۔ وشنو ساوڑا درد و کرب میں نہا گیا۔ وہ الٹ کر اکھاڑے میں گرا تھا۔ اعظم نے اسے اوپر سے ہی جکڑ لیا اور اسے الٹنے کی کوشش کی مگر وشنو ساوڑا نے قوت برداشت کی انتہا کر دی۔ اس نے اپنی تکلیف دانتوں تلے دبا لی اور حریف کے داؤ توڑنے لگا۔ اعظم نے اسے رگیدھنا شروع کر دیا تو وہ برابر مزاحمت کرتا رہا۔ منصف نے محسوس کر لیا کہ وشنو ساوڑا کسی طور شکست نہیں کھائے گا۔ چاہے اس کا دم ہی کیوں نہ نکل جائے۔ کشتی کو ایک گھنٹہ گزر گیا مگر نتیجہ خیز نہ نکلی۔ ادھر مہاراجہ کا بھی حکم تھا کہ کشتی ڈگ ڈیہہ پر ہی ختم ہو گی۔ ادھر اعظم فن اور طاقت کے کھیل سے وشنو کو چت کر رہا تھا مگر وشنو فصیل جاں کی حفاظت کیلئے جاں توڑ مزاحمت کر رہا تھا۔ اسی دوران مہاراجہ نے منصف کو پیغام بھجوایا کہ وشنو سے پوچھ لیا جائے کہ اس کی رضا کیا ہے۔ منصف نے اعظم کے نیچے دبے ہوئے وشنو سے پوچھا تو اس نے اپنی شکست تسلیم کر لیا اور یوں اعظم کو بدا مل گئی۔
کشتی کے اختتام پر بھولو اور حمیدا پہلوان اکھاڑے میں گئے اور وشنو کو سہارا دے کر اکھاڑے سے باہر لائے۔ بھولو نے اسے خراج تحسین پیش کیا اور کہا۔
’’پہلوان جی آپ سچل پہلوان ہیں۔ اللہ کی قسم، بڑی جی داری سے لڑے ہیں۔ یہ شکست نہیں آپ کی جیت ہے‘‘۔
وشنو ساوڑا نے کہا۔ ’’بھولو جی بھگوان نے چاہا تو بہت جلد میں اصل جیت بھی دکھاؤں گا۔ میری تو خواہش تھی کہ آپ سے کشتی ہو مگر بھگوان کی یہی اچھا تھی، اب میں پہلے اعظم سے کشتی لڑوں گا۔ بس میرے منتظر رہئے گا‘‘۔
’’ہمیں تو انتظار رہے گا پہلوان جی!‘‘ بھولو نے کہا۔ ’’جب دل کرے ہمیں کہلوا دیجئے گا، ہمیں تیار ہی پائیں گے‘‘۔
بابا سوگندی کو ملیا گاؤں جانے پر اعتراض پیدا ہو گیا۔ اس کی سیٹھ سلیمان سے ٹھن گئی۔ اس نے جب یہ کہا۔
’’میں بولتا ہوں ملیا جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ادھر اپنے شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک اکھاڑہ ہے تو بھلا ملیا جانے میں کیا حکمت ہے؟‘‘
’’بابا تم نہیں جانتے ہم چاہتے ہیں کہ بھولو ایک جگہ ہی اپنے فن کا چمتکار نہ دکھائے بلکہ مہاراشٹر کے چپے چپے پر اس کے نام کا ڈنکا بجے۔ اور پھر تو یہ خواہش تڑاکا کی ہے۔ اگر اب ہم نے وہاں جانے سے انکار کر دیا تو وہ سمجھے گا کہ بھولو میدان سے بھاگ گیا ہے۔ میرا تو خیال ہے بھولو دوہرا مارے گا تو تڑاکا اپنے ہی پجاریوں کے درمیان بے عزت ہو گا۔اسے گھمنڈ اور خوش فہمی ہے کہ وہ اپنے گاؤں میں کشتی جیت لے گا۔ اس کا وہم نکالنے کیلئے بھولو کو ملیا جانا ہی پڑے گا‘‘۔
بابا سوگندی کو اس دلیل کے آگے ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔ بالاخر وہ بھولو برادران کو لے کر ملیا پہنچ گیا۔تڑاکا کا گاؤں خلاف توقع بھولو کا سواگت کرنے کیلئے دوڑ پڑا۔ وہ اپنے دیوتا سمان پہلوان کے فاتح کے درشن کرنے کے خواہش مند تھے۔ بھولو ایک اونٹ پر سوار ہو کر ان لوگوں کو اپنے درشن کروانے کیلئے ملیا بھر میں گھوما۔
پہلوان سہ پہر کو ملیا پہنچے تھے۔ دوسرے دن کشتی ہوئی۔ یہ کشتی بھولو نے بڑے دلچسپ انداز میں جیت لی۔ تڑاکا نے یہاں زبسکو جیسی حرکتوں کا عجیب مظاہرہ کیا جس سے اس کے گاؤں کے منچلوں نے اس پر آوازے کسے جس سے وہ سیخ پا ہو کر اپنے گاؤں والوں کوگالیاں دینے لگا۔ دراصل جب وہ بھولو کے مقابل ہوا تو تڑاکا نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالنے کی بجائے دھوبی پٹرا مارنے کی کوشش کی اور خود بخود اکھاڑے میں گر کر اس سے چھپکلی کی طرح چپک گیا۔ بھولو نے اسے اوپر سے جکڑ لیا اور اسے الٹانے کی کوشش کی مگر تڑاکا ایسا زمین سے چپکا کہ اکھڑنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ بھولو نے بھرپور زور لگا دیا مگر وہ تڑاکا کو الٹانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ یونہی پانچ منٹ گزرنے کے بعد تڑاکا نیچے سے نکلنے لگا مگر جونہی وہ ذرا سا اوپر ہوا بھولو نے مچھلی غوطہ مار کر اسے چت کر دیا۔
ملیا سے ہی بھولو برادران ممبئی کیلئے عازم سفر ہوئے۔ پہلوانوں نے امام بخش اور حمیدا پہلوان سے ضد کی کہ وہ سمندری راستے سے ممبئی جانا چاہتے ہیں۔ کولہاپور ساحلی ریاستوں میں سے تھی۔مہاراجہ نے سمندری جہاز کے ذریعے پہلوانوں کے انتظامات کر دئیے تھے۔ ملیا سے وہ سب وجے راگ کے ساحل پر پہنچے۔ وہاں ایک بڑی کشتی ان کی منتظر تھی۔سفر دن کا تھا۔ پہلوان سمندری سفر سے محظوظ ہوتے ہوئے رتنا گری پہنچے۔ رتنا گری کے سحر انگیز ماحول میں پہلوانوں نے دو دن قیام کیا۔ یہ ساحلی شہر بھولو کو اتنا بھایا کہ وہ یہاں مستقل رہنے کو مچلنے لگا۔ مگر بڑوں کے حکم نے اسے ممبئی چلنے پر راغب کیا۔ ممبئی میں انہیں آئے ابھی ایک دن ہی گزرا تھا کہ ریاست ’’مہربی‘‘ کے راجہ کا ایک ایلچی ان کی خدمت میں پیش ہوا۔ راجہ مہربی فن کشتی کا قدرداں تھا۔ اس نے جب سنا کہ امام بخش اپنے بیٹوں کے ہمراہ ممبئی آیا ہے تو اس نے اپنے درباری پہلوانوں منگلا رائے اور بھیم دیو سے کشتی کا چیلنج بھیج دیا۔ (جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر60 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں