وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر62

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر62
 وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر62

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 گاماں پہلوان اب کامران کی بارہ دری منتقل ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی بڑی بیٹی رضیہ کی شادی ڈاکٹر عبدالحفیظ سے بڑی دھوم دھام سے کی(میاں نواز شریف کی بیگم کلثوم نواز انکی صاحبزادی ہیں)۔یہ اس خاندان میں پہلی بڑی خوشی تھی۔اس سے چند ہفتے بعد کی بات ہے۔ گاماں پہلوان اپنی بیٹیوں کے ساتھ تانگے پر اپنے عزیزوں سے ملنے لاہور شہر آیا۔ واپسی سہ پہر کے وقت ہوئی۔ ان دنوں راوی کے اس پار شاہدرہ کی طرف کا علاقہ ویران اور سنسان ہوتا تھا۔ ذرائع آمدورفت نہ ہونے کے برابر تھے۔گاماں پہلوان کا تانگہ راوی کا پل پار کرنے لگا تو ایک طرف سے پانچ سکھ ہاتھوں میں کرپانیں اور تلواریں تھامے پل کے درمیان میں آ کر کھڑے ہو گئے اور گاماں پہلوان کو خون آشام نظروں سے دیکھنے لگے۔ گیتی آراءجو گاماں پہلوان کے ساتھ اگلی نشست پر بیٹھی تھی سہم کر باپ سے چمٹ گئی۔ کوچوان نے گھوڑے کی راسیں کھینچ لیں اور گھبرا کر گاماں پہلوان کی طرف دیکھا۔ پیچھے سے وزیر بیگم نے ساتھ بیٹھی بچیوں کو بازوﺅں کے حصار میں لے لیا اور گھبرائے ہوئے لہجے میں بولیں۔ ”گیتی کے ابو اب کیا ہو گا؟“

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر61

”ہونا کیا ہے بھلی مانس“۔ گاماں نے پرسکون لہجہ میں کہا۔ ”بس تم لوگ گھبرانا نہیں میں ان بلوائیوں سے ابھی نپٹ لیتا ہوں“۔
”ناں ناں“۔ وزیر بیگم چلائی۔ ”خدا کیلئے تانگے سے مت اتریں اور تانگے کا رخ موڑ لیں“۔
بھئی بیگم یوں نہ کہو۔ تم چاہتی ہو میں ان بلوائیوں سے ڈر کر بھاگ جاﺅں اور کل کو یہ طعنہ سنوں کہ رستم زماں پانچ سکھوں سے خوفزدہ ہو کر بھاگ گیا تھا“۔ گاماں پہلوان نے بیگم کو تسلی دی۔ ”بھلی مانس تم فکر نہ کرو۔یہ پانچ ہیں تو کیا ہوا۔ میں ان میں سے تین کو تو مار ہی دوں گا۔ باقی دو تین ساتھیوں کا حشر دیکھ کر بھاگ جائیں گے۔ ان میں لڑنے کی اتنی جرات ہی نہیں رہے گی“۔
”مالک، ان کے ہاتھوں میں تلواریں بھی ہیں۔ میں تانگہ موڑ لیتا ہوں۔ ان سے لڑنا خطرناک ہو گا“۔ کوچوان ہندو تھا اور مارے خوف کے اس کا سارا خون خشک ہو چکا تھا۔
”اوئے تو کیوں مرتا جا رہا ہے۔ شیر بن شیر۔ تو ادھر تانگے میں بیٹھا رہ میں ان سے دو دو ہاتھ کرتا ہوں۔ ذرادیکھ، جونہی میں چھلانگ لگا کر تانگے سے کودوں تم تانگہ سرپٹ دوڑا دینا اور پل کے پار جا کر ٹھہر جانا۔ میں اتنی دیر میں ان کا کریا کرم کر کے آتا ہوں“۔ 


گاماں اس وقت ستر کے پیٹے میں تھا۔ وقت نے اس شاہ زور کو پے در پے صدمے دئیے تھے مگر وہ آج بھی ناتوانی کے عالم میں فولاد تھا۔ وہ تانگے سے کودا اور سکھ بلوائیوں کی طرف بڑھا۔ پھر اس سے قبل کہ گاماں ان سے متصادم ہوتا، ان سکھوں کے سردار نے چونک کر اپنے ساتھیوں سے کہا۔ ”لے بھئی مارے گئے، ایہہ تاں اپنے گاماں پہلوان جی ہیں۔ سسریو! جان بچانی ہے تو ”دڑک لگاﺅ“۔ یہ کہہ کر اس نے دوڑ لگا دی۔ تقلید میں دوسرے سکھ بھی بھاگ گئے۔ گاماں پہلوان ہاتھ جھاڑتا ہوا واپس تانگے میں پہنچا تو سب کی جان میں جان آئی۔
دوسرے دن ہی یہ خبر شہر بھر میں پھیل گئی کہ گاماں پہلوان پر بلوائیوں نے حملہ کرنا چاہا مگر دہشت زدہ ہو کر بھاگ گئے۔ گاموں پہلوان لاہوریہ کو اپنے شیردل داماد کی فکر ہو گئی۔ اس نے پیغام بھجوایا۔ ”جب تک پاکستان کا فیصلہ نہیں ہو جاتا تمام لوگ فاروق گنج آ جائیں“۔
فاروق گنج میں وزیر بیگم کا میکہ تھا۔ یہاں حسا جراح کا دومنزلہ مکان تھا۔ وہ جانوروں اور پرندوں کا شیدائی تھا۔ گھڑ دوڑ کا بھی شوقین تھا۔اسی مکان کے زیریں حصہ میں اس نے گھوڑے رکھے ہوئے تھے۔ اوپر والا حصہ خالی تھا۔ یہ مکان لب ریل پٹڑی تھا۔ لاہور اسٹیشن سے بادامی باغ کی جانب جاتے ہوئے دائیں طرف فاروق گنج کی آبادی ہے۔ یہ مکان سب سے نمایاں اور مشہور تھا۔ حسا جراح اپنے دور کا نامی گرامی جراح تھا اور بااثر آدمی تھا۔ گاماں پہلوان نے عارضی طور پر یہاں سکونت اختیار کر لی۔ امام بخش پہلوان نے اپنے بھائی کو سسرال کے پاس رہائش لینے سے منع نہ کیا البتہ دبے لفظوں میں شکوہ کیا۔
”بھا جی! آپ کا امام بخش ابھی مرا تو نہیں۔ کیا میرا گھر آپ کا نہیں ہے۔ آپ یہاں میرے پاس آ جائیں“۔
”یار ایک ہی بات ہے“ گاماں پہلوان اپنے بھائی کے دل کی حالت سے آگاہ تھا۔اس نے بھائی کا بھرم قائم رکھا اور اسے تسلی دی۔ ”چند دنوں کی تو بات ہے۔ پاکستان کا فیصلہ ہوتے ہی میں ادھر آ جاﺅں گا“۔
”مگر بھاجی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ آپ میرے پاس آنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں“۔
”یار تو سمجھتا کیوں نہیں! ابھی ہمارے بھائی چارے کا بھرم قائم ہے۔ اولادیں ہو جائیں تو بھائیوں کا الگ ہو جانا ہی بہتر ہے۔ خواہ مخواہ فاصلے بڑھ جاتے ہیں“۔
”بھاجی....“ امام بخش کو کہنے کیلئے الفاظ نہ ملے۔
”بس یار یہ دنیا داری کے طریقے ہیں۔ حالات سے سمجھوتہ کر لینا ہی بہتر ہے۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں جب کسی سے بہت زیادہ پیار کرو تو اس کے ساتھ نہ رہو۔ الگ رہنے میں چاہتوں کا بھرم نہیں ٹوٹتا“۔ امام بخش پہلوان کو اپنے بڑے بھائی کی دور اندیشی کا احساس ہوا تو خاموش ہو گیا۔
مہاجرت کا آغاز ہو گیا تھا۔ اعلان پاکستان کے ساتھ ہی ادھر کے حصوں میں مقیم لوگ بھارت میں اور ادھر سے پاکستان میں آنیوالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مسلمان آگ اور خون کے دریا عبور کر کے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ جب لاہور اور دوسرے شہروں کے لوگوں کو ان مہاجر مسلمانوں کے لٹنے پٹنے کی داستانیں سننے اور دلگداز مناظر دیکھنے کو ملتے تو ان کے ہاتھ بدلہ کیلئے مچلنے لگتے مگر اپنے قائد کی ہدایت کے مطابق مسلمانوں نے صبر کا بھاری پتھر سینے پر رکھ لیا۔ اس کے باوجود مسلم نوجوانوں کے جذبات بھڑک اٹھتے اور وہ بھارتی پولیس اور فوج پر حملے کرتے۔ انہی دنوں سکھ اور ہندو فوجیوں کی ایک ریل گاڑی لاہور سے گزرنے لگی تو اسے فاروق گنج کے نزدیک روک لیا گیا۔ مسلمان نوجوانوں نے گاڑی پر پتھراﺅ کیا تو فوجیوں نے اپنی بندوقوں کی نالیاں ان پر خالی کرنی شروع کر دیں۔ یہ تصادم حسا جراح کے مکان کے عین سامنے ہو رہا تھا۔
گاماں پہلوان فائرنگ کی آواز سن کر مکان کی چھت پر چڑھ گیا اور فصیل کی اوٹ سے صورتحال کا جائزہ لینے لگا۔ اسی دوران ایک سکھ فوجی نے گاماں پہلوان کو دیکھ لیا۔ وہ اسے حملہ آور سمجھا اور بارہ بور کی بندوق کی مدد سے گاماں پہلوان پر فائر کر دیا۔ اس کی تقلید میں دوسرے فوجیوں نے بھی فائرنگ کا رخ ادھر دیا۔ گولیوں کے چھرے گاماں پہلوان کے سینے اور چہرے پر آ کر لگے اور وہ پیچھے کو الٹ گیا۔ عزیزوں نے انہیں سنبھالا اور نیچے لے آئے۔ حسا جراح نے سنا تو بھاگتا ہوا آیا۔ گاماں پہلوان نے سب کو تسلی دی۔ ”گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ میں ٹھیک ہی ہوں“۔ یہ کہہ کر گاماں پہلوان نے کمال جرات سے ماتھے اور گردن میں پیوست چھرے اپنی نشتر نما انگلیوں کی مدد سے نکال دئیے البتہ گردن اور سینے میں دو چھرے گہرائی میں اتر گئے۔ وزیر بیگم نے اپنے داماد ڈاکٹر حفیظ کو پیغام بھجوایا تو وہ جھٹ سے پہنچ گیا۔
ڈاکٹر حفیظ نے معائنہ کیا اور سب کو تسلی دی۔ وہ اپنے سسر گاماں کو ہسپتال لے گیا اور آپریشن کر کے چھرے نکال دئیے۔ گاماں پہلوان کو فوری طور پر فاروق گنج سے موہنی روڈ منتقل کر دیا گیا۔ یہ جگہ گاماں کی پسند تھی۔ یہاں ایک بڑی سرائے تھی جہاں مشہور زمانہ اکھاڑہ تھا۔ یہ سٹیڈیم کی صورت میں تھا۔یہاں گاماں کی سسرال تھی۔ گاموں پہلوان لاہوریہ کے یہاں مکانات تھے۔ گاماں پہلوان جولائی 47ءمیں دوبارہ کامران کی بارہ دری چلے گئے۔
لاہور میں فسادات کی آگ بھڑک چکی تھی۔ ہر روز مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ راوی کا علاقہ تو مسلمانوں کی اجتماعی قبروں کیلئے مشہور ہو گیا۔ مسلمان لڑکیوں کی عصمت دری اور ان کے بیہمانہ قتل کی وارداتیں عام ہونے لگیں۔ بپھرے سکھ اور ہندو ان مسلمان بیبیوں کی لاشیں راوی کے پار سرکاری ٹرکوں کے ذریعے پھینکوانے لگے۔اس سفاکانہ کارروائیوں کو خفیہ رکھا جا رہا تھا۔
جاری ہے, اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔