وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر73
خوشیوں کو گہن لگتے دیر نہیں لگتی۔بھولو برادران کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ نیروبی میں وہ اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑنے کے بعد غم و اندوہ میں ڈوب جائیں گے۔ بس کا تب تقدیر نے یک لخت ہی انہیں سوگوار کرنا تھا سو کر دیا اور پھر ان کی خوشیوں ا ور مسرتوں کے سہانے دن پژمردہ ہوتے چلے گئے۔
یہ اپریل1953ء کے دن تھے۔ ایک دن خبر ملی کہ بھولو برادران کا مربی اور عاشق زار ماموں حمیدا رحمانی والا رحلت کر گیا ہے۔ یہ خبر گویا قیامت صغریٰ تھی۔ اچھا،گوگا، اکی اور خلیفہ بلو دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ امام بخش اور گاماں پہلوان سے یہ صدمہ سنبھلے نہ سنبھلتا تھا۔حمیدا پہلوان نے اپنی زندگی کی آخری شام تک بھولو برادران کے نام کر دی تھی۔ بھولو برادران کو بنانے میں اوّل ہاتھ بھی حمیدا پہلوان کا تھا۔ اس کی انتھک لگن نے بھولو کو دنیائے شاہ زوری کا حکمراں بنا دیاتھا۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر72 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جن دنوں امام بخش اور گاماں پہلوان اچھا،اکی،گوگا،کلا پہلوان وغیرہ کو لے کر نیروبی گئے ہوئے تھے، انہی دنوں حمیدا پہلوان کو کولہا پور سے دعوت خاص ملی تھی۔ یہ اپریل1953ء کا مہینہ تھا۔ حمیدا رحمانی والا رستم ہند لاہور میں سکونت پذیر تھا مگر جب سے حکومت نے(1951ء)میں گاماں پہلوان کو شہر قائد کراچی میں کچھ زمین اور دس ہزار روپے قرض دیا تھا تو گاماں پہلوان وہاں منتقل ہوگئے تھے۔گاماں پہلوان نے ایک عدد بس خرید کر گاماں ٹرانسپورٹ کے نام سے کمپنی شروع کی تھی۔ حکومت نے انہیں نمک کے ٹھیکے بھی دیئے تھے تاکہ گذر بسر آسانی سے ہو سکے۔ جب بڑی کشتیوں کے دن آتے تو تمام پہلوان دارالصحت کراچی پہنچ جاتے اور ا کٹھے کسرت کرتے ۔پہلوانوں کا ایک جتھا نیروبی روانہ کرنے کے بعد حمیدا پہلوان کمپنی کا نظم و نسق سنبھلانے کے لیے ادھر مقیم تھے۔ انہی دنوں کو لہا پور کا دعوت نامہ بھی موصول ہو چکا تھا۔ گاماں اور امام بخش جو بعد میں نیروبی گئے تھے، جانے سے قبل حمیدا پہلوان کو کولہا پور جانے کی اجازت دے چکے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب وہ کولہا پور کے لیے روانہ ہوں گے اس کے دو چار روز بعد نیروبی والے شاہ زور بھی واپس آجائیں گے۔
کولہا پور عازم سفر ہونے سے قبل حمیدا پہلوان اور بھولو برادران لاہور واپس آئے۔یہ سفر سے ایک روز پیشتر کا واقعہ ہے جب حمیدا پہلوان نے عالم خواب میں ایک حیرت انگیز منظر دیکھا۔ حمیدا پہلوان یہ منظر دیکھ کر دہل گیا۔ ایک بڑے سایہ دار درخت کے نیچے ایک باریش نورانی صورت بزرگ تشریف فرما تھے ۔سامنے میزان عدل رکھا تھا۔ ترازو کے ایک پلڑے میں سامان دنیا دولت کا انبار تھا،دوسرے میں ایمان اور توشہ آخرت۔ بزرگ نے ان دونوں کی طرف اشارہ کیا ا ور حمیدا پہلوان سے کہا۔
’’پہلوانکیا لو گے‘‘
حمیدا تو درویش صفت انسان تھا۔اسے اور کیاچاہیے تھا۔ اس نے سامان دنیا کو ٹھکرایا اور توشہ آخرت والے پلڑے کا انتخاب کرلیا۔صبح جب پہلوان اٹھا تو اس نے اپنی بیگم اور اپنے محرم راز بھانجے بھولو پہلوان کو یہ خواب سنایا۔بھولو معرفت کی ان گتھیوں کو سلجھانہ سکتا تھا۔بیگم حیمدا پہلوان ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی (فیروز سنسز کے بانی کی پوتی تھیں)انہیں خواب کی تعبیر سمجھ میں آگئی تھی مگر بڑی صابر اور سمجھدار خاتون تھیں۔ اپنے شاہ زور میاں کو تسلی و تشفی دیتے ہوئے کہا۔’’اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی نعمت خاص سے نواز رہا ہے۔ اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
حمیدا پہلوان تو کولہا پور روانہ ہوگئے لیکن بیگم حمیدا پہلوان کو وسوسوں نے گھیر لیا۔ اسی شام اس نے بھی عجیب و غریب خواب دیکھا اور اپنی ساس کو سنایا۔ اس نے عالم خواب میں دیکھا کہ وہ مکان کی دوسری منزل پر کھڑی ہے اور مکان مسمار ہو جانے کی وجہ سے سیڑھیوں کا راستہ مسدود ہو گیا ہے۔ ادھر بہو اپنی ساس کو خواب سنا رہی تھی اورادھر حمیدا پہلوان کی سب سے بڑی بیٹی طاہرہ بھیانک خواب سنانے آپہنچی۔اس نے اپنی ماں اور دادی کو بتایا۔ میں خواب میں والد صاحب کے ہمراہ کشتی میں سوار وسیع و عریض سمندر میں محو سفر ہوں، دور دور تک ساحل کا نام و نشان نہیں۔اچانک سامنے ایک کوہ گراں سطح سمندر پر ابھرا۔میں نے حیران نظروں سے اس مہیب و بلند پہاڑ کو دیکھا تو پریشان ہو گئی۔اسی اثناء میں والد صاحب کشتی سے اترنے لگے۔شاید انہیں محسوس ہوا کہ منزل آگئی ہے۔مگر میں نے انہیں روک دیا اور کہا۔
’’ابو آپ کہاں اتر رہے ہیں۔یہ ہماری منزل نہیں ہے۔ کنارہ ابھی بہت دور ہے۔‘‘
ابو نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا۔’’میری پتری،ہماری منزل تو آگئی تم اپنی سفر جاری رکھو‘‘۔یہ کہہ کر ابو کشتی سے اتر گئے اور میں دل پریشان کے ساتھ کشتی کھینے لگی۔
خواب سب ایک جیسے اور واضح تھے۔بیگم حیمدا پہلوان اور ان کی ساس کے دل بیٹھے جارہے تھے کہ اسی روز منجھلی بیٹی عذرا نے بھی ایک خواب دیکھا۔اس نے بتایا کہ خواب میں اس نے دروازے پر دستک ہوتی سنی تو دروازہ کھولنے لگی۔ باہر دیکھا تو ایک اجنبی کھڑا تھا۔ وہ زار وقطار رو رہا تھا۔ میں نے سبب پوچھا تو بولا۔’’بیٹی تمہارا باپ فوت ہو گیا ہے۔‘‘
’’یہ خبر سن کر میں بے ہوش ہو گئی۔‘‘عذرا نے اپنا خواب دادی کو سنایا جو اس وقت مصلے پر بیٹھی عبادت میں مشغول تھی۔ پیہم خوابوں نے اس بوڑھی جاں کو ہلاکر رکھ دیا تھا۔ اس نے بے ساختہ ہاتھ دعا کے لیے اٹھا دیئے اور کہا۔’’الٰہی میرے بچوں کی حفاظت فرما۔‘‘
کاتب تقدیر کا فیصلہ حتمی تھا۔ یہ12اپریل کاواقعہ ہے۔حمیدا پہلوان نماز عصر کی تیاری کے لیے وضو باندھ رہا تھا یکایک اس کے پیٹ میں درد کی جاں لیوا لہرا ٹھی۔پہلوان ماہی بے آب کی طرح تڑپ اٹھا اور بے ہوش ہو گیا۔بھولو نے ماموں کی حالت غیر ہوتے دیکھی تو چلانے لگا۔’’اوئے بھاگو میرے ماموں کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘پہاڑ جیسی طاقت کا جوان دودھ پیتے بچے کی طرح زارو قطار رو رہا تھا۔ جھٹ سے مہاراجہ کولہا پور کو اطلاع بھیجی گئی۔طبیب دوڑے آئے۔ اس دوران تکلیف قدرے کم ہو گئی تھی۔ مستند ڈاکٹروں نے علاج شروع کیا۔ چند گھنٹے بعد طبیعت اعتدال پر آگئی لیکن پھر خراب ہو گئی۔ اس دوران ایک ڈاکٹر نے مسکن ادویات کی تجویز پیش کی تو بھولو نے اسے روک دیا۔
’’ڈاکٹر صاحب!کراچی والے ڈاکٹر نے منع کیا تھا کہ کبھی بھی سکون آور ٹیکہ یا دوائی نہ کھانا۔‘‘
’’بھولو جی پہلوان کو سلانے کے لیے یہ دوائی بہت ضروری ہے۔انہوں نے کب سے آرام نہیں کیا۔لہٰذا انہیں ٹیکہ لگانا ضروری ہے۔‘‘
’’یہ تو پھر آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘بھولو نے کہا۔
ڈاکٹر نے پہلوان کا مزاج دیکھنے بغیر سکون آور ٹیکہ پہلوان کے بازو میں ٹھونک دیا۔ چند ہی لمحے گزرے تھے کہ حمیدا پہلوان کی آنکھیں بوجھل ہونے لگیں اور جسم بھاری اور ٹھنڈا ہوتا چلا گیا۔ڈاکٹر نے سمجھا پہلوان دوائی کے اثر سے سو گیا ہے، اس نے سب کو باہر نکال دیا اور پہلوان کی نیند میں مخل ہونے سے منع کر دیا لیکن بھولو کو عجیب سی بے چینی ہونے لگے تھی۔وہ بار بار اندر جاتا اور ماموں کو سوتے میں دیکھتا۔پھر وہ اس کی پائنتی سے لگ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے محسوس کیا کہ چار پائی مکمل سکوت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کا ماموں یا تو چار پائی پر سو نہیں رہا یا کچھ وقوع پذیر ہو چکا ہے۔ بھولو ہمیشہ اپنے ماموں کے قریب سویا کرتا تھا۔ حتیٰ کہ حمیدا پہلوان اور بھولو ایک جہازی سائز کی چار پائی پر اکٹھے قیلولہ کرتے تھے۔ حمیدا پہلوان دوران نیند خراٹے لیتا تھا اور چار پائی پر اس کی موجودگی کے آثار نظر آتے تھے۔ بھولو نے اٹھ کر ماموں کے سینے پر ہاتھ رکھا تو سانس مفقود تھی۔ وہ چیخا چلایا باہر دوڑا اور دہائی دینے لگا۔’’اوئے میں لٹ گیا جے۔اج بھولو تقسیم ہو گیا جے لوگو۔۔۔میرا ماموں مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ ڈاکٹر سے کہا تھا مت لگاؤ ٹیکہ مگر ظالم نے ایک نہ سنی۔‘‘
حمیدا پہلوان کی موت کی خبر آناًفاناً پھیل گئی۔ مہاراجہ بھاگتا ہوا پہنچا اور اپنے چہیتے پہلوان کی لاش دیکھ کر حفظ مراتب بھول گیا اور بھولو کو گلے لگا کر رونے لگا۔
’’راجہ صاحب میرا،ماموں اب کبھی واپس نہ آئے گا۔میں واپس جاکر کیا منہ دکھاؤں گا۔‘‘
’’بھولو میرا غم بھی تجھ سے کم نہیں۔موت تو سب کو آتی ہے مگر اپنوں سے دور آنے والی موت بڑی حشر برپا کرتی ہے۔ بھگوان نے آج کولہا پور کر یہ اعزاز دیا ہے کہ رستم ہند اس کی گود میں دم توڑے۔‘‘مہاراجہ کولہا پورنے روتے ہوئے کہا۔
حمیدا پہلوان کی نماز جنازہ میں پورا کولہا پور امڈ آیا تھا۔اسے امانتاً دفن کر دیا گیا تو بھولو اس کی قبر پر ڈھیر ہو کر پڑا رہ گیا۔ وہ قبر سے اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ رو رو کر اب تو اس کے آنسو بھی خشک ہو چکے تھے۔ مہاراجہ کے پہیم اصرار کے بعد بھولو قبر کے پاس سے اٹھا۔’’ہائے میرا ماموں مجھے تنہا چھوڑ گیا۔وہ تو میرے سر پر رستم زماں کا تاج دیکھنا چاہتا تھا۔ اب میں کس کے لیے رستم زماں بنوں گا راجہ صاحب۔‘‘
مہاراجہ نے غم زدہ بھولو کو تسلی و تشفی دی اور اس سوگوار کو محل کے خاص کمرے میں ٹھہرا دیا۔ اسی روز لاہور خبر بھجوا دی گئی۔ جب پیغامبر شیرانوالہ باغ حمیدا پہلوان کے گھر پہنچا اور دروازہ کھٹکھٹایا تو عذرا اس جنبی کو دیکھ کر چونک اٹھی۔ قبل اس کے کہ وہ پیغام سناتا عذرا نے ایک چیخ ماری۔’’امی جان۔‘‘
بیگم حمیدا دوڑی آئی۔’’کیا ہوا میری جان!‘‘
عذرا کا رنگ فق ہو چکا تھا۔ قوت گویائی سلب ہو گئی تھی۔ اس نے انگلی سے دروازے میں کھڑے ایک اجنبی کو دیکھا۔ بیگم حمیدا نے اجنبی کو دیکھا تو وہ بولا۔ ’’بیگم صاحبہ حمیدا پہلوان فوت ہو گئے ہیں۔
(جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)