جنّاتی۔۔۔جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے.... (گیارہویں قسط)
زمین سے آسمان تک ایک فسوں سا طاری نظر آرہا تھا۔مجھے درختوں کی شاخوں سے جھانکتی کرنوں میں کئی رنگ نظر آرہے تھے اور جب ایسے سمے میں مور ناچتے مدھر کوک ھونکتے تو فضا میں تال سے چھوٹ جاتے اور بہت دور کہیں میرے اندر کوئی پاتال میں بیٹھا ہڑبونگ مچانے لگتا۔۔۔ لیکن میری روح کے پرتوں میں چھپا ہوا ایک اجنبی وجود وشال دیو کے روپ میں خوشی کے سامنے بیٹھا ہواتھا ۔اس نے خوشی کا ہاتھ تھام رکھا تھا ۔نہایت نرمی اور ملائمت سے اسکے ہاتھوں پر اپنی پوریں پھیر رہا تھا لیکن ایک جوان عنا اور جمال سے بھرپور مرد میں کوئی چنگاری پھوٹتی نظر نہیں آتی تھی ۔ادھراک میں تھا جو نفس کی ہلکی ہلکی آنچ سے بوند بوند اپنی ہی رگوں میں ٹپک رہا تھا ۔کتنی عجیب لطافت اورخودلذتی تھی۔
کوئی نہیں جان سکتا میں کس کرب آمیز لطافت سے دوچار تھا۔یہ کیسی قید تھی اور بدن کا کون سا زندان تھا جس کے اندر ہی اندر کتنی ہی گھپائیں تھیں جو مجھے ٹہلا اور بہلا رہی تھیں لیکن میں اپنے اظہار کی آزادی سے محروم تھا۔کامل تسکین حاصل کرنے سے معذورتھا۔
میں چونکا جب خوشی نے وشال کے کاندے پر سر ٹکایا اوراپنا مرمریں ہاتھ اسکے سینے پر پھیرنے لگی’’ میں تمہیں وجدان کی کسوٹی پر پرکھنا نہیں چاہتی لیکن پھر بھی میرا من نہ جانے کیوں چاہتا ہے کہ تم مجھے وہ لمحہ ،وہ وعدہ یاد کراؤ جب ہم دونوں الگ ہوئے تھے۔کیا تمہیں اپنا وچن یاد ہے وشال‘‘ اسنے سر اٹھا کر میری ،اوہ۔۔۔ یعنی وشال کی آنکھوں میں خمار سے دیکھا۔ایک عورت کی آنکھوں میں گرم گرم لوؤں سے پھوٹتا خمار اور لہجے میں پگلتی سسکیاں کیا کہتی ہیں ،یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ،آپ خود محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ خود سپردگی کے سوا کیا ہوسکتاہے؟
آہ۔۔۔ مگر مجھے کیا ۔
میں تو اس کے لمس کو دیکھ رہا تھا، محسوس نہیں کرسکتا تھا ۔میرے لئے تو وشال اور خوشی کا ملاپ ایسے ہی تھا جیسے کوئی وڈیو میں Love سین دیکھے اور وفور جذبات سے مغلوب ہوجائے،بدن سنسنا جائے اور جوانی کا سونامی ابلنا مانگناچاہے۔
وشال دیو نے ایک لمحہ خوشی کو دیکھا پھر اسکا سر اپنے سینے میں چھپا کر بولا’’ پگلی ۔اگر اتنے جیون کا سنجوک لینا ہے اور تپسیا گیان کرنا ہے تو سب کچھ بھولا تو نہیں جاسکتا۔ایسا جیون کیا جو گیان آنے پر بھول جائے ،مجھے اپنے سارے جیون یاد ہیں ۔تم جانتی ہو میں نے کتنے جیون گزارے اور پہلے چار جیونوں کے بعد میں نے کوئی بیاہ نہیں کیا۔۔۔ کیونکہ مہادیو نے مجھے اِچھا دی اور وچن لیا تھا کہ تمہارے اگلے جیون ،چھ جنموں کے بعد تمہیں خوشی ملے گی اور تم اس سے ہی بیا ہ کرو گے ۔کیا یہی پوچھنا چاہتی ہو کہ جب مجھے چھٹے جیون میں تم سے بیاہ کرنا تھا لیکن تم سے بیاہ تو ہوا اور ملاپ نہ ہوسکا اور مجھے مکتی کیوں مل گئی‘‘ یہ کہتے ہوئے وشال دیو کا لہجہ یوں گھمبیرہوا جیسے چھلکنے کو ہو ۔لیکن اس نے اپنے حلق میں تیرتے نمکین پانی کو اگلے سے اتار لیااور قناعت سے بولا’’ خوشی ۔تم چاہتی تھی کہ ہمارا ملاپ ہو اور مہادیو۔۔۔میرے باپو کی بھی یہی تمنا تھی۔تیرا باپو بھی تو یہی چاہتا تھا کہ چھٹے جنم میں وشال دیو کا خوشی سے ملاپ ہوگا تو دونوں ایک مہاویر کو جنم دیں گے جو جین مت کو نیا یوگ روپ دے گا‘‘
وشال دیوکی باتیں سن کر خوشی کے آنسو نکل پڑے۔نہ جانے خوشی یا غم کے۔۔۔’’ ایسا کیوں ہوا وشال۔مہادیو کے وچن کے مطابق ہمارا ملاپ چھٹے جیون میں ہونا تھا ،پھر کیوں نہ ہوا‘‘
’’ خوشی تو میری خوشی ہے‘‘ وشال نے اسکے جذبات کی تپش سے اسکی محرومی کا بھانپ لیا، اپنے سینے میں بھینچا اور اسکے رخسار پر اپنے تھرکتے لب رکھے ۔تو ۔۔۔ خوشی کے پورے بدن میں جیسے لرزہ سا ہوا۔بھونچال سا آیا اور وہ پورے جوش سے وشال سے لپٹ گئی۔اسکی گرم سانسوں سے نسوانیت کی بھڑکتی آہیں وشال کے سینے میں تندور دہکانے لگیں۔
جناتی -جنات کے دوست اور رازداں کے قلم سے.... دسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔
’’ اس کے پیچھے لمبی کہانی ہے ۔بہت لمبی صدیوں پر محیط۔لیکن میں آج کا سمے اس دل خراش کہانی کو سنا کر غارت نہیں کرنا چاہتا‘‘ وشال نے خوشی کو بھینچتے ہوئے کہا’’ صدیوں بعد ایک پیاسا سراب ہونے آیا ہے خوشی۔تیری محبتوں کا قرض اتارنے ،تیرے نازو ادا دیکھنے آیا ہے۔‘‘
اس دوران پر پھیلائے موروں نے مستی دکھانی شروع کردی۔
آسمان پر چاند اپنے پورے جوبن پر تھا۔باغیچے میں مور ناچ رہے اور اپنے ہم جنسوں سے ملاپ کے مارے ان پر وحشت اور مستی اور بے تابی چھارہی تھی۔آبشار سے پرے ہرنوں کا جوڑا ایک دوسرے سے چوہلیں کررہاتھا لیکن ساتھ ساتھ منہ اٹھا کر وہ وشال اور خوشی کو دیکھتے اور پھر اپنے سینگ ایک دوسرے میں پھنسا کر تھوتھنیاں جوڑ لیتے۔
ماحول میں رومانیت کا سحر جیسے پھونک دیاگیا تھا ۔
انسان اور دوسری مخلوقات میں جنس کی کشش کا غلبہ تھا۔سب اپنے ہم جنسوں سے مستیوں میں مصروف تھے اور ایک میں ۔۔۔بس کچھ نہ پوچھیں۔۔۔
خوشی اب وشال کے بازووں میں ڈھلک سی گئی تھی۔اسکا سینہ بے اختیار زیروبم سے لرزاں تھا۔ساڑھی کا پلو ڈھلک کر گھاس پر پھیل گیا تومرمریں دودھیا بدن چاند کی روشنی کو شرمانے لگا۔کیا عورت تھیں وہ۔۔۔دودھ اور شہد جیسی،گلابوں کی مہک سا حسن لئے ۔۔۔ آنکھیں بوجھل تھیں۔وشال دیو نے اسے اٹھایا اور دوبارہ کمرے میں لے گیا۔راستے میں دالانوں میں اگر اور لوبان کی ملی جلی مہک جذبات کو مشتعل کررہی تھی۔وشال نے دروازہ بند کیا اور خوشی کو مسہری پر لٹا کر خود قالین پر بیٹھ گیا ۔
میں نے سر پیٹ لیا اور زور زور سے جیسے سانسیں لیکر وشال کو کوسنے دینے لگا’’ اوئے بے وقوف کیا کررہا ہے‘‘ لیکن وہ میری کہاں سن رہا تھا۔خوشی ہیجان سے نڈھال ہوئی جارہی تھی اور ٹانگوں کو بار باراپنے وجود میں سمیٹ کر کروٹیں بدل رہی تھی۔
ادھروشال نے لمبی لمبی سانسیں لیں اور پھر آنکھیں بند کرکے گیان میں ڈوب گیا۔۔۔ اس لمحے مجھے سر میں کھجلی سی محسوس ہونے لگی اور جیا گھبرانے لگا۔دم بھی گھٹنے لگا۔چند لمحوں بعد میری یہ حالت ہوئی جیسے سینے میں سانسیں مفقود ہوگئیں ہوں،لیکن بھلا ہو خوشی کا۔۔۔ اس نے وشال کو آواز دے دی’’ میرے مہاویرو،مہادیوو۔۔۔ کہاں ہو تم ،ادھر آؤ‘‘
وشال نے آنکھیں کھولیں اور دھیرے سے بولا’’ پہلے پاٹ کرنااور جیومارنا ضروری ہے ۔دھیرج رکھو میری رانی۔۔۔ ابھی آیا۔۔۔ ‘‘ یہ کہہ کر وشال نے دوبارہ سانسیں روک لیں اور میں اسکے اندر مینڈک کی طرح پھدکنے لگا۔میں نے محسوس کیا کہ میں کہیں تاریکیوں کی پاتال میں گرتا جارہا ہوں۔ کہیں دور ٹمٹماتے نکتے سے میرے قریب آرہے تھے ۔لیکن یہ کیا۔۔۔ وہ نکتے میری جانب نہیں ،میں انکی جانب لڑھکتاجارہا تھا ۔۔۔ پھر میں زن سے انکے قریب سے گزرا تو وہ دراصل سرخ لاوے کے انگارے تھے جو کسی انتہائی تاریک غار نما کنویں سے اُبل کر باہر نکل رہے تھے ۔میں نیچے گرتا ہوا چیخ رہا تھا ،لیکن کوئی میری آواز نہیں سن رہا تھا ۔پھر شڑاپ کی آواز کے ساتھ ہی میں جیسے گرم ابلتے پانی میں گر گیااوراسکی تہہ میں جوں جوں اترتا گیا توں توں لاوا نما پانی ٹھنڈا ہوتا چلا گیا۔لیکن کچھ ہی دیر بعد وہ پانی بھی لاوا بن گیاتو میں مزید نیچے ڈھلک گیااور اس بارمیں جھلس کر رہ گیا۔مجھے اتنا یاد ہے کہ آخری چیخ کے بعد میں خاموش ہوگیاتھا یاپھرمرگیاتھا،مجھے یاد نہیں اسکے بعد کیا ہوا۔
(جاری ہے، بارہویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔