ماں سے بڑھکر جنّ زادی....
اسلام آباد(عبدالمالک) ہر انسان زندگی میں کسی انجانے موڑ سے گزرتا ہے تو اسکی زندگی بھی نیا موڑ کاٹ لیتی ہے ۔میں اپنی کہانی سنانے سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں کبھی بھی ایسی واہیات باتوں پر یقین نہیں کیاکرتا تھاکہ انسانوں اور جنات کے درمیان کوئی براہ راست تعلق بھی ہوسکتا ہے۔میرے لئے میرے پاپا کی زندگی عام انسانوں جیسی تھی لیکن ماما کبھی کبھار مجھے ڈرانے کے لئے کہا کرتی تھیں” تمہارے پاپا کے پاس جن ہوتے ہیں ۔اگر تم نے کوئی غلط کام کیا تو وہ تمہیں ماریں گے“پاپا الگ کمرے سویا کرتے تھے۔ مجھے پاپا کے کمرے میں عموماً رات کے وقت بہت ہی اچھی سی خوشبو آیا کرتی تھی اور اس خوشبو کا راز ماما بھی نہیں جانتی تھیں ۔اسی وجہ سے وہ پاپا کو چھیڑا بھی کرتی تھیں کہ رات کو کون خوشبو لگا کر آپ کے پاس آتی ہے۔پاپا انہیں ہمیشہ جواب دیتے کہ یہ پیار اور محبت کی خوشبو ہے۔
بچپن کی بات اور ہوتی ہے لیکن جب انسان حیرت اور تجسس والی باتیں سن سن کر بڑا ہوتا جاتا ہے تو زندگی کے حقائق جان کر اور اپنی مصروفیات کی وجہ سے وہ ان باتوں کو بھول جاتا ہے البتہ جب اسے کوئی ایسا بندہ ملتا ہے جو اسے جن بھوتوں کے واقعات سناتااور مختلف کتابوں کے حوالے دیکر ثابت کرنا چاہ رہا ہوتا ہے کہ یہ مخفی مخلوق اپنا وجود رکھتی ہے اور انسانوں پر اثر انداز ہوتی ہے تو آپ اس بے وقوف پر ہنستے اور اسکی باتوں کو جھٹلا دیتے ہیں۔میں تو کم از کم ایسا ہی کیا کرتا تھا بلکہ جب کوئی ایسی مخلوق کے متعلق باتیں سناتا تو اسے بھی اور جنات وغیرہ کو بھی ننگی گالیاں دے کر للکارتا کہ اگر واقعی تم جیسی کوئی مخلوق ہے تو سامنے آئے۔میں پروفشنل ڈگریاں رکھنے کے باوجود انتہائی شارٹ ٹمپر واقع ہواتھا۔گالیاں دینا اور دوسروں کی انسلٹ کرنا میرا معمول تھا۔لیکن میرے پاپا بہت کول اور شائستہ انسان تھے ۔وہ میری حرکتیں دیکھ کر پریشان ہوجاتے اور کہتے ”مالک تم انسانوں کے ساتھ ساتھ جنات کو بھی گالیوں دیتے ہو،ایک پڑھے لکھے انسان ہونے کا کیا فائدہ ہے کہ تمہارے اخلاق سے دوسروں کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔“ جواب میں پاپا سے تیز لہجے میں بحث پر اتر آتا ”آپ جس دنیا پر یقین رکھتے ہیں میں اس دنیا کو نہیں مانتا۔انسانوں کے سوا کوئی اور مخلوق ایسی نہیں ہے جو انسانوں کی طرح بول سکتی ہے۔“ میں چونکہ لبرل ماحول میں رہتا تھا اس لئے میری سوچیں دوسروں کو زچ کردیتی تھیں ۔
شاید میں بد اخلاقی اور غلط نظریات پر یونہی قائم رہتا .... لیکن یہ کیا ہوا ؟؟؟ میری زندگی نے ایک ایساموڑ کاٹا کہ میں بے یقینی سے نکل کر سوچ کے اس مقام پر کھڑا ہوگیا کہ واقعی ہم انسانوں پر دنیا کی ہر شے اثر انداز ہوتی ہے اور جنات وغیرہ تو خاص کر .... انہی دنوں مجھے راتوں کوبہت زیادہ خواب آنے لگے ۔زیادہ تر جو خواب دیکھتا وہ یہ ہوتے تھے کہ میں کسی بہت بڑے شہر میں ہوں اور راستہ بھول جاتا ہوں ۔پھر ایک نیلی چمکدارآنکھوں والی اندھی عورت مجھ سے ملتی ہے اور مجھے بتاتی ہے کہ میرا اصل راستہ کدھرہے۔کئی بار میں دیکھتا ہوں کہ میں کسی بہت ہی اونچی عمارت کی چھت پر کھڑا ہوں اور ایک چھوٹا سا پرندہ مجھ پر جھپٹا مارتا ہے تو میں لڑکھڑا کر گرتا ہوں اور چھت کی منڈیر پر اٹک جاتا ہوں تو وہی اندھی عورت آتی ہے اور مجھے اٹھا کر چھت سے نیچے پرواز کرتی ہوئی لے آتی ہے۔یہ بھی ہوتا ہے کہ میں بہت تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا ہوتا ہوں تو اچانک بریک فیل ہوجاتے ہیں اور انجن سے دھواں نکلنے لگتا ہے ۔میں پریشانی میں بریکیں لگاتا ہوں اور اسٹیرنگ گھماتا ہوں تو گاڑی رکنے کی بجائے تیز ہوجاتی اور انجن سے شعلے اسطرح نکلتے ہیں جیسے سائلنسر سے دھواں چھوٹتا ہے۔مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ میری گاڑی اب بم کی طرح پھٹ جائے گی ۔یہ سوچ کر ہی میری سانس اٹک جاتی ہے اور میں بے ہوش ہوجاتاہوں اور بے ہوشی کی حالت ہی میں دیکھتا ہوں کہ وہ اندھی عورت آتی ہے اور مجھے اٹھا کر گاڑی سے باہر نکالتی اور پینے کے لئے پانی دیتی ہے تو پانی پیتے ہی میں لمبا سانس لیتا ہوں اور پھر میری آنکھ کھل جاتی ہے۔میں بستر پر بیٹھ جاتا ہوں ۔اس خواب سے جاگنے کے بعد میں پسینے میں شرابور ہوجاتا ہوں اور دل بری طرح کانپ رہا ہوتا ہے۔میں کئی روز تک سوچتا رہتا ہوں کہ مجھے ایسے خواب کیوں آرہے ہیں ۔کیا میں کسی ذہنی خلل میں مبتلا ہوگیا ہوں۔کیا مجھے کسی سائکالوجسٹ سے ملنا چاہئے۔جب ایسے خوابوں میں کئی دن گزرگئے اور موقع ہی نہیں ملا کہ کسی سائکالوجسٹ سے مل سکوں تو اچانک مجھے ملک سے باہر جانا پڑگیا۔
کمپنی کے سکالرشپ پر امریکی ریاست کیلی فورنیا چلاگیا۔مجھے وہاں تین ماہ تک مارکیٹنگ ٹریننگ کے لئے ٹھہرنا تھا۔ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ سے پانچ کلومیٹر فاصلہ پرمجھے ایک ایسے گھر میں پے نگ گیسٹ کے طور پر ٹھہرایا گیا تھا جس کی مالکن مسز بروکلن تھی۔وہ ساٹھ برس کی عمر میں بھی بڑی ایکٹواور خوش اخلاق خاتون تھی۔اس نے میرے لئے جو انیکسی مختص کی تھی وہ بالائی منزل پرتھی اور اسکے ساتھ ایک ٹیرس بھی تھا جس کے سامنے دور تک کھیت نظراور ان سے آگے ایک قبرستان تھا۔میں زیادہ تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا ،قدرے مختصر بتارہا ہوں کہ مجھے وہاں قیام کئے ہوئے تیسرا دن تھا کہ اچانک پھر سے خوابوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔پہلے روز خواب انتہائی ڈراو¿ناتھا،کوئی کالی بشکل سی شے میرے سینے پر سوار ہوکر میرا گلا دبانے لگی تھی۔میں زور زور سے چیخنے لگااور جان چھڑوانے لگا۔ پھر خوف سے ہی بیدار ہوگیا اور ہانپتا ہوا انیکسی سے نیچے اتر آیا ۔یہ رات کے دو اڑھائی بجے کا وقت تھا ۔آسمان پر پوراچاندجگمگا رہا تھا جس کی روشنی گھر کے لان میں پھیلی ہوئی تھی۔اچانک کوئی بولا” مسٹر مالک پانی لاو¿ں“
میں نے پلٹ کر دیکھا تو میرے اوسان خطا ہوگئے،میں نے اپنے بدن کو چٹکی سے کاٹا اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا” آپ....“ یہ وہی نابینا خاتون تھی جس کی نیلی نیلی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی مگر وہ ہم انسانوں کی طرح دیکھ نہیں سکتی البتہ اسکو سب دکھائی دیتا تھا۔
”پریشان ہو....“ وہ اجالے میں میرے پاس آئی تو پہلی بار مجھے اس سے مانوس سی نہایت مسحور کن خوشبو کی لپٹیں آتی ہوئی محسوس ہوئیں۔میرے ذہن میں جیسے کوئی بلب جلنے بجھنے لگے کہ یہ مہک میں نے کہاں محسوس کی تھی۔
” جی....بہت زیادہ۔یہ سب کیا ہے ،آپ کون ہیں“ میں نے ذرا سنبھلتے ہوئے سوال کیا۔
” مارلین جوزف“ اس نے کہا ” مسٹر مالک ۔میں وہ ہوں جس پر تمہیں یقین نہیں گا “
میں خاموشی سے اسے تکتا رہا۔وہ بڑے نرم انداز میں شائستگی سے بول رہی تھی۔” میں نے تمہیں یہاں بلایا ہے ۔ میں بہت اداس تھی اور تمہیں میری بہت ضرورت تھی۔کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے پاپا بھی امریکہ میں اسی شہر میں رہتے تھے اور تمہارے لیئے دوسری حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ بھی اسی گھر میں رہتے تھے ۔اب تو یہ گھر دوبارہ تعمیر ہوا ہے لیکن چالیس سال پہلے،وہ ایک سٹوڈنٹ کے طور پر یہاں آئے اور مجھے ان سے پیار ہوگیا تھا۔میں تب بھی اندھی تھی۔لیکن تمہارے پاپا کی محبت نے مجھے وہ روشنی دی جس نے مجھے دیکھنے کا ہنر سکھا دیا۔تمہارے پاپا بہت اچھے ہیں۔ انہوں نے تمہیں آج تک اس بارے میں نہیں بتایا کہ مارلین نامی کوئی جن زادی انکی زندگی میں شامل ہے....“
مارلین کے منہ سے نکلنے والے الفاظ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ۔”کک کیا مطلب“
”میں جن زادی ہوں ۔مسٹر مالک میں نے تمہارے پاپا سے بہت پیار کیا ہے۔وہ بہت اچھے انسان ہیں ۔وہ یہاں کے قبرستان جایا کرتے تھے اور اس جہاں سے جانے والوں کے لئے دعا کیا کرتے تھے۔ جس پیڑ کے پاس بیٹھ کر دعا کرتے ہمارا خاندان اس پر رہتا تھا۔وہ اس بات سے بے نیاز ہوتے تھے کہ اس قبرستان میں کون کون دفن ہے لیکن انسانیت کا درد رکھنے والے تمہارے پاپا مستقل ہر فرائڈے کو آتے تھے۔پھر ایک روز میں انکے سامنے ظاہر ہوگئی،اسی روپ میں ۔ہم جناتوں میں بھی اندھے اور بہرے لوگ ہوتے ہیں،لنگڑے اور اپاہج بھی۔۔۔۔ تمہارے پاپا سمجھے میں بھی کسی کے لئے دعا کرنے آئی ہوں ۔میں ٹھٹھک ٹھٹھک کر چلتی ان کے پاس آئی۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور پوچھا کہ مجھے کس قبر کے پاس جانا ہے۔میں نے ایسے ہی اشارہ کردیا کہ اسطرف،وہ بہت احتیاط سے مجھے وہاں لیکر گئے اور بولے” آپ کو ضرورت ہوگی ۔میں ٹھہر جاتا ہوں تاکہ آپ کو واپس گیٹ تک بھی چھوڑ آو¿ں۔“ انہوں نے مجھے جوس کا ایک ٹن دیا۔خیر اس دن کے بعد ہر فرائڈے کو میں اسیطرح آتی اور وہ مجھے دیکھتے ہی اس قبر پرلے جاتے جو نہ جانے کس کی تھی لیکن وہ قبر ہمارے ملن کا مرکز بن گئی۔یونہی ایک ماہ تک ملتے رہے،انہوں نے مجھ سے کبھی نہیں پوچھا کہ میں کون ہوں۔ایک فرائڈے کو قبرستان نہیں پہنچے تو میں پریشان ہوگئی اور پھر اس گھر میں آپہنچی۔جب میں انکے کمرے پر دستک دینے والی تھی کہ اندر سے مجھے آیت الکرسی پڑھنے کی آواز آئی۔آیت الکرسی کے مقدس الفاظ نے میرے حواس پر خوشگوار اثرکیا۔میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔مجھے دیکھ کر وہ حیران ہوئے ” آپ نہیں آئے تو میں نے سوچا آپ کی خیریت معلوم کرلوں“ آیت الکرسی کے اثرات سے میرے حواس میں لطافت سی تھی لہذا میں کوئی جھوٹ بولنے کی ہمت نہ کرسکی۔
انکی طبیعت خراب تھی۔میں اس رات انکے پاس رہی اور میں نے انہیں اپنی حقیقت بتائی تو بالکل پریشان نہیں ہوئے ۔میںنے انہیں اپنے دل کی بات بتائی اور کہا”میں آپ کے ساتھ دوستی کرنا چاہتی ہوں۔اور جب تک زندگی رہی آپ سے تعلق قائم رکھوں گی۔“ اس روز میں نے انہیں اپنا وہ خفیہ روحانی کوڈ بھی بتایا کہ وہ اسے پڑھا کریں گے تو میں انکے پاس آجایا کروں گی۔ہماری دوستی کو چالیس سال ہوچکے ہیں اور یہ دوستی انتہائی پاکیزہ اور مضبوط ہے۔میں انکے ہر دکھ اور سکھ میں انکے ساتھ ہوتی ہوں۔جب تم پیدا ہوئے تو میں تمہاری دیکھ بھال کرتی تھی۔مجھے تم سے بہت انسیت ہے مسٹر مالک۔تمہیں دیکھ کر میں بھی جوان ہوجاتی ہوں ،میں تمہارے خیالات سے واقف ہوں لیکن میں نے کبھی تمہیں یہ باور نہیں کراناچاہا کہ جنات جیسی کوئی مخلوق تمہارے آس پاس موجودہوتی ہے۔ ایک روز تم نے جنات کو گالیاں دیں تو مجھے دکھ ہوا۔تمہارے پاپا بھی بہت پریشان ہوئے اور انہوں نے تمہیں سمجھانا چاہا لیکن میں نے انہیں اشارہ کردیا تھا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں اور حالات کے دھارے پر چھوڑ دیں۔اس روز میں انکے ساتھ فیصل مسجد کے پاس پارک میں بیٹھی تھی جب انہوں نے دل گرفتہ ہوکر کہا کہ عبدالمالک کے خیالات بہت خراب ہیں۔وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتا اور بے بے قابو ہوجاتا ہے۔لوگوں کی انسلٹ کرتا ہے۔میں نے انہیں پھر تسلی دی اور کہا” وہ آپ کا بیٹا ہے اور ایک روز وہ بھی آپ کی طرح دوسرے انسانوں کا احترام کرنے لگ جائے گا۔پھر تمہارے ساتھ وہ ہوگیا جس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔تمہاری گالیوں اور تماری دل آزاری سے جن لوگوں کے دل دکھنے لگے انہوں نے تمارے حق میں بددعائیں کیں تو تم سے اللہ کی رحمت اٹھنے لگی،تمہارا روحانی دائرہ سکڑنے لگاجس سے جنات کو تم پر حملے کرنے کا موقع مل گیا۔لیکن چونکہ میں ہر رات کو تمہارے پاس آتی تھی اس لئے میں ان سے تمہیں بچاتی اور تمہارے لئے دعائیں کرتی تھی۔دعا انسانوں اورجنات کی ڈھال بن جاتی ہے۔دعائیں لینے اور دعائیں کرنے والے انجانے دوستوں کی حفاظت میں رہتے ہیں اور اللہ کا اپنے بندے سے وعدہ ہے۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے میں نے تمہیں امریکہ بلایا اور اسکا پورا اہتمام کرایا۔تماری اصلاح اور تمہارے یقین کو درست کرنے کے واسطے۔میں پاکستان تمہارے پاپا کے سامنے ہی ظاہر ہوا کرتی ہوں، عام جسمانی طور پر وہاںظاہر ہونے میں بہت سے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ۔ لیکن یہاں میرے دیس میں مجھے پرکوئی پابندی نہیں ہے۔“
مارلین جوزف کی باتیں سن کر مجھے اپنے پاپا کے کمرے میں محسوس ہونے والی مانوس مہک یاد آگئی جو آج مارلین جوزف کی قربت سے اٹھتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔میرا سر قدرے شرم سے جھک گیا لیکن کچھ ہی لمحے بعد مجھے تشکیک کا دورہ پڑااور میں کچھ کہتے کہتے رک گیا۔مجھے کنفرمیشن چاہئے تھی۔اگلی صبح مسز بروکلین نے مجھے ناشتہ پر بلوایا اور کہا” رات کو تمہیں ڈسٹرب نہیں کیا تھا ۔ویسے اس عورت کے ساتھ تم کیاباتیں کررہے تھے“
” کیا آپ اسے جانتی ہیں....“میں نے فوراً پوچھا۔
”نہیں ۔لیکن چند روز پہلے اس نے ہی تمہارے لئے یہ انیکسی بک کرائی تھی اور کہا تھامیرا بیٹا آرہا ہے ،اسکا دھیان رکھنا۔میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں پوچھا تھا لیکن کیا وہ واقعی تمہاری ماں ہے؟“
میں نے کافی کی چسکی لیکر کپ میز پر رکھا،انجانے میں اس دلفریب مہک کا تصور کیاا ور مسکراتے ہوئے ایک دلآویز جذبے سے کہا” ہاں مگر ماں سے بڑھ کر....“