ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 33
اگر گھر والے پیچھے رہ گئے تو
بذریعہ تھائی ائیر ویز میری فلائٹ کراچی تا ملبورن براستہ بنکاک تھی۔ائیرپورٹ پر میری اہلیہ اور میرا بیٹا مجھے چھوڑ نے آئے تھے ۔ بعد میں اہلیہ نے بتایا کہ میرا بیٹا میری جدائی میں ائیر پورٹ سے روتا ہوا واپس گیا۔میں بھی ائیر پورٹ پر ہر قدم پر یہ یاد کرتا رہا کہ چند ماہ قبل ترکی کے سفر میں وہ دونوں میرے ساتھ اسی ڈیپارچر لاؤنچ میں ہر جگہ موجود تھے ۔ اُس وقت میرے اندر سب سے بڑ ھ کر جس احساس نے تڑ پ پیداکی وہ یہی تھا کہ کل قیامت کے دن کسی خاندان میں جدائی ہوگئی تو کیا ہو گا۔ اگر ایک انسان جنت میں گیا، مگر اس کے بیوی بچوں کو پیچھے روک لیا گیا تو کیا ہو گا۔ یہ تصور کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اس سانحے کے بعد بھی جنت ، جنت رہ سکتی ہے ۔ پروردگار یہ احسان تو اپنے نیک بندوں پر ضرور کرے گا کہ اہل خانہ کے درجات کم ہوئے تو باپ کے پاس بلند درجے میں پہنچادیا جائے ۔مگر اس کا کوئی سوال نہیں کہ کسی کی خاطر اس کے بیوی بچوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں پہنچایا جائے ۔کاش ہم سب اپنے گھروالوں کے معاملے میں بھی حساس ہوجائیں ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 32 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
تاہم ائیرپورٹ پر ایک اور تجربہ بھی ہوتا ہے ۔وہ یہ کہ جس وقت کسٹم، بورڈنگ، امیگریشن یا سیکیورٹی کے سوال وجواب ہورہے ہوتے ہیں ، انسان کو دوسری چیزیں ، بشمول پیچھے رہ جانے والے بیوی بچے یاد نہیں رہتے ۔ یہی معاملہ حشر کا ہو گا کہ جس وقت اپنا محاسبہ شروع ہوجائے گا تو انسان کو اپنے بیوی بچے بھی یاد نہیں رہیں گے ۔ بلکہ یہی وہ موقع ہے جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ انسان چاہے گاکہ اپنی بیوی بچے ، ماں باپ، کنبہ بلکہ پوری دنیا کو فدیے میں دے کر اپنی جان چھڑ الے ، مگر اس روز کوئی فدیہ ، بدلہ، سفارش وغیرہ قبول نہیں ہو گی۔
اس روز پہلی دفعہ کراچی ائیر پورٹ پر وہ مشین نصب دیکھی جس میں پورے جسم کا ایکسرے کر لیا جاتا ہے ۔ مگر اس کے لیے جس طرح ہاتھ اٹھا کراور ٹانگیں پھیلا کر مجرموں کی طرح سب کے سامنے کھڑ ے ہونا پڑ تا ہے وہ بہت توہین آمیز طریقہ ہے ۔مگر کسی کی کیا شکایت کیجیے ۔ ہم مسلمانوں ہی میں سے بعض انتہا پسندوں نے دنیا کو مجبور کر دیا ہے کہ ہر شریف آدمی کی اس طرح برسرعام توہین کی جائے ۔تاہم میرے لیے تو یہ حشر کی اس پیشی کا منظر تھا جس میں اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنیادپر انسان کا ایکسرے کریں گے ۔ہر انسان کو تمام دنیا کے سامنے حساب کتاب کے لیے طلب کیا جائے گا۔ اُس روز وہ سارے الفاظ ہوا ہوجائیں گے جنھیں بول کر انسان اپنی برائیوں کو خوبصورتی سے چھپالیتا تھا۔ اس وقت انسان تمام دنیا کے سامنے بالکل ننگا ہوجائے گا۔ اس کا باطن بالکل کھل کر دنیا کے سامنے آجائے گا۔ بڑ ے نصیب والے ہیں وہ لوگ جن کا باطن اُس روز ان کے ظاہر سے بہتر نکلے گا۔
زراعت کی حفاظت یا جان کی حفاظت
کراچی تا ملبورن فاصلہ تقریباً گیارہ ہزار کلومیٹر ہے ۔پہلے مرحلے میں رات بھر سفر کے بعد ہم بنکاک پہنچے ۔ بنکاک کے سفرمیں تکلیف دہ بات شراب کی بدبو تھی۔مگر کیاکیجیے کہ ایک تو شراب پھر وہ بھی مفت کی ۔اس لیے یار لوگوں نے اپنا حصہ خوب وصول کیا۔ بعض لوگوں کو تو جہاز کے عملے نے مزید شراب دینے سے انکار کر دیا۔ نوبجے اگلا جہاز ملبورن کے لیے روانہ ہوا اور بارہ گھنٹے کے سفر کے بعد منزل پر پہنچا۔ یہاں کراچی سے وقت چھ گھنٹے آگے ہے اس لیے رات ہو چکی تھی۔ ائیرپورٹ پر بہت لوگ تھے ۔ امیگریشن کے بعد سامان بھی جلد مل گیا۔ خیال تھا کہ عام رواج کے مطابق سامان لے کر آسانی سے باہر نکل جاؤں گا، مگر دیکھا کہ ایک مرحلہ ابھی باقی ہے جہاں بہت طویل قطار لگی ہوئی تھی۔
معلوم ہوا کہ یہ کسٹم کی لائن ہے اور مسافروں کے سامان میں جس چیزکی کھوج کی جا رہی ہے وہ ہیروئن یا افیم نہیں بلکہ کھانے پینے کی ہر قسم کی اشیاء ہیں ۔ کسٹم کے قریب پہنچا تو ایک خاتون نے آ کر مجھ سے کھانے پینے کی کسی چیز کے متعلق دریافت کیا تو میں نے بتادیا کہ میرے پاس کچھ چنے ہیں ۔جس پر مجھے عام لوگوں سے الگ کر کے ایک دوسری لائن میں بھیج دیا گیا۔ یہاں کھڑ ے ہوکر کسٹم آفیسرز کے ہاتھوں لوگوں کے سامان کا جو حشر ہوتے ہوئے دیکھا تو سعودی عرب یاد آ گیا۔
ایک زمانے میں سعودی عرب میں نشہ آور اشیاء کی تلاش میں لوگوں کے سامان کے بخیے ادھیڑ دیے جاتے تھے ۔یہی کچھ اس وقت بعض مسافروں کے سامان کے ساتھ ہورہا تھا اور چن چن کر سامان سے کھانے پینے کی اشیاء نکال کرالگ کی جا رہی تھیں ۔ مجھے اس کی تو فکر نہ تھی، مگر میزبانوں کی زحمت کا احساس تھا جو باہر میرے منتظر تھے ۔ خیر اللہ نے کرم کیا۔ہماری قطار سے ایک کتے کو گزارا گیا جو سامان سونگھتاچلا گیا، مگر اسے کسی چیز میں کوئی دلچسپی محسوس نہ ہوئی۔ جس کے بعد ہم کو بغیر کسی جرح کے باہر جانے کی اجازت مل گئی۔میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے باہر کی سمت بڑ ھ گیا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کورنٹائن (Quarantine) کے لوگ ہیں ۔ان کا کام مقامی زراعت کو باہر سے آنے والی کسی بھی زرعی بیماری، کیڑ وں یا آلودگی سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ فصلوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے اور کیڑ ے مار دواکے استعمال کی ضرورت کم سے کم رہے ۔
مجھے اس صورتحال پر حکیم سعید مرحوم یاد آ گئے جو کہتے تھے کہ ہم نے اپنی زراعت میں مصنوعی کھاد اور کیڑ ے مارادویات سے زہر گھول دیا ہے ۔خیر ہم نے تو اپنی پالیسیوں سے زیادہ بڑ ے زہر اپنے معاشرے میں گھول رکھے ہیں ۔ حکیم سعید انھی کی نذرہوئے اوراپنے مطب میں قتل کر دیے گئے ۔آج تک ان کے کسی قاتل کو سزائے موت نہیں ہوئی۔ سو جس معاشرے میں انسانوں کا قتل معمول کی ایک خبر ہو اور حکیم سعید جیسی ہستی کے قاتلوں کو سزانہ مل سکے وہاں زراعت کو بچانے کی بات کچھ عجیب لگتی ہے ۔ اس وقت تو ہمارا سب سے بڑ ا کارنامہ یہ ہو گا کہ ہم ایک عام آدمی کی جان کو تحفظ دے سکیں ۔ یا کوئی قتل ہوجائے تو ہم مجرموں کو عدالت سے سزا دلوا سکیں ۔ زراعت کو کیا روئیں ، اس وقت یہی ہوجائے تو بہت بڑ ی بات ہو گی۔
غذا کے علاوہ ایک دوسری چیز جس کے بارے میں سخت تنبیہ آمیز پوسٹر ائیرپورٹ میں لگے ہوئے تھے وہ یہ تھی کہ بچوں کی پورنوگرافی کے حوالے سے اگر کسی قسم کا کوئی موادکسی مسافر کے پاس سے برآمد ہوا تو اسے سخت سزا ملے گی۔اس حوالے سے کچھ عرصے قبل میں نے آسٹریلیا میں پکڑ ے جانے والے ایک کیس کی تفصیل کہیں پڑ ھی تھی جس میں ملزم کو سخت سزا ہوئی تھی۔ بدقسمتی سے ملزم کا تعلق پاکستان ہی سے تھا۔
پھول اورکانٹے
میں باہر نکلا توعبدالشکور صاحب اپنے تین دیگر ساتھیوں الیاس صاحب ، عظیم صاحب اور طاہر صاحب کے ہمراہ میرے استقبال کے لیے موجود تھے ۔عبدالشکور صاحب سے پہلے ہی سے مستقل رابطہ تھا۔ المورد آسٹریلیا کی طرف سے انھوں نے ہی ایک برس قبل مجھ سے پہلی دفعہ رابطہ کر کے اپریل میں آسٹریلیا آنے کا وقت طے کیا تھا۔ اپریل کا سفر ویزہ دیر سے ملنے کی وجہ سے موخر ہوکر اب اکتوبرمیں ہورہا تھا۔باقی احباب سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ ان لوگوں سے ملنا خدا کے دین سے مخلص ، دلنواز اور بہت اچھے انسانوں سے ملاقاتوں کا وہ آغاز تھا جس کا سلسلہ ملبورن کے بعد سڈنی، برسبین، کینبرا، ایڈیلیڈ اور پرتھ تک جاری رہا۔ دین کی دعوت کا شاید ایک بڑ ا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو ہرقدم پر بہت اچھے انسانوں سے واسطہ پڑ تا ہے ۔ گرچہ کوئی شخص اقبال کے اس شعر پر عمل کرتا ہوکہ
چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر
کہ کبھی زہر بھی کرتا ہے کارِتریاقی
تو اسے اندھی مخالفتوں کاسامنا بھی کرنا پڑ تا ہے ، مگر اس راہ میں ملنے والے اچھے لوگ وہ پھول ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس راہ کے کانٹے بھی گوارا کیے جا سکتے ہیں ۔یہ اچھے لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ نقد انعام ہوتے ہیں جو آخرت کے اجر سے پہلے اِسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں ۔
ٹھنڈا آسٹریلیا
جیسا کہ پیچھے ذکر ہوا کہ آسٹریلیا دنیا کے جنوبی حصے میں ہے ۔اس وجہ سے یہاں چاندکی گولائی بالکل الٹی سمت میں نظر آتی ہے ۔ یعنی جب ہمارے ہاں چاند Dکی شکل میں ہوتا ہے تو وہاں Cکی شکل میں نظر آتا ہے ۔ موسم بھی ہمارے شمالی حصے کی بہ نسبت بالکل متضاد ہوتے ہیں ۔ یعنی جب ہمارے ہاں گرمی ہوتی ہے تو یہاں سردی اور جب ہمارے ہاں خزاں ہوتی ہے تو یہاں بہار ہوتی ہے ۔میں ستمبر کے آخری ہفتے میں پاکستان سے روانہ ہوا تو گرمیوں کے خاتمے کے بعد خزاں کاآغاز تھا جو کم از کم کراچی میں ، کافی گرم ہوتا ہے ۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
دوسری طرف آسٹریلیامیں یہ سردیوں کے خاتمے پر بہار کا آغاز تھا۔میرے ساتھ یہاں وہی حادثہ پیش آیا جو کئی برس قبل موسم بہار کے آغاز اوراپریل کے مہینے میں کینیڈا جاتے ہوئے پیش آیا تھا۔یعنی سخت ٹھنڈ لگتی تھی اور وہاں کے لوگ کہتے کہ ٹھنڈ ختم ہو چکی ہے ۔یہی بات یہاں کے لوگ کہہ رہے تھے کہ سردی ختم ہوگئی ہے جبکہ مجھے ان سے اتفاق کرنا مشکل لگ رہا تھا۔
اس کا ایک بہت اہم سبب کراچی کا موسم تھا۔اس شہر کی سردیوں کے بارے میں مزاح کے امام مشتاق احمد یوسفی صاحب فرماتے ہیں کہ جون کے مہینے میں تیس ڈگری درجہ حرارت ہوتو کراچی میں گرمی ہوتی ہے ، اور اگر یہاں جنوری میں تیس ڈگری ہوتو پھر اسے سردی کہا جاتا ہے ۔ ملبورن کا مسئلہ صرف یہ نہ تھا کہ اس کادرجہ حرارت نوڈگری تھا۔ زیادہ بڑ ا مسئلہ وہ ٹھنڈی یخ ہوا تھی جس کے بعد سردی چند ڈگری مزید کم ہوکر محسوس ہوتی ہے ۔
ملبورن کے بعد میں آسٹریلیا کے تمام اہم شہروں میں گیا۔ ان سب جگہوں پر جا کر یہ احساس ہوا کہ آسٹریلیا ایک دوسرے اعتبار سے بھی ٹھنڈا ہے ۔یعنی یہا ں کی زندگی بہت پرسکون ہے اور اس میں بہت ٹھہراؤ ہے ۔اس پر تفصیل سے بعد میں بات ہو گی۔
دعوتی دورہ
میں ان دوستوں کے ساتھ اپنے میزبان عبدالشکور صاحب کے گھر جاپہنچا۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد کھانا لگاتو معلوم ہوا کہ ان کی اہلیہ نے ایک بھرپور دعوت کا اہتمام کر رکھا تھا۔یہ میرے دعوتی دورے کا ایک ’’دعوتی ‘‘آغاز تھا جو اگلے تمام دنوں میں پوری آب و تاب سے جاری رہا۔ ہر روز ایک دعوت ہوتی تو شاید غنیمت تھا۔ یہاں تو حال یہ ہوا کہ ناشتہ، دوپہر اور رات کے کھانے کو ملا کر دن میں تین تین دعوتیں بھی کھانا پڑ یں ۔یہ بھی چل جاتا، مگر شاید ہی کوئی دعوت تھی جس میں پانچ چھ ڈشیں نہ ہوں ۔حد یہ ہے کہ آخر میں جب یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں کانفرنس کے دوران میں کھانے کا وقفہ ہوا تو وہاں بھی کہ جہاں کوئی ایک دوہی پاکستانی تھے ، ڈاکٹر ثمینہ یاسمین صاحبہ نے قورمے بریانی کا انتظام کروارکھا تھا۔
اس دعوتی دورے کے اختتام تک میں دوڈھائی درجن ایسی ڈشیں نوش کر چکا تھا، جو کئی برسوں سے پاکستان میں بھی نہیں کھائیں تھیں ۔میں نے پچھلے دو برسوں میں بڑ ی مشکل سے سولہ کلو وزن کم کیا تھا۔ اس دورے کے اختتام تک ان میں سے دوکلو وزن دوبارہ بڑ ھ چکا تھا۔ مجھے آسٹریلیا آ کر یہ لگا کہ خواتین نے ثابت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ شوہروں سے زیادہ ’’دعوت‘‘ کا ذوق رکھتی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے اپنے ذوق کو ثابت بھی کر دیا۔ میری دعا ہے کہ بیگمات کا یہ ’’دعوتی ‘‘ذوق دعوتِ دین کے ذوق میں بدلے ۔خواتین جب دعوت کے کام میں آتی ہیں تو وہ مردوں سے کہیں زیادہ موثر ہوجاتی ہیں ۔
خیر ان دعوتوں نے جلدہی رنگ دکھادیا۔ میں سادہ غذا کھانے والاآدمی ہوں ۔میرا معدہ ان حملوں کی تاب کہاں تک لاتا۔چنانچہ تیسرے دن جب سڈنی پہنچا اور میرے میزبان ڈاکٹر ذوالفقار صاحب غیر مسلموں کے سر پر کھڑ ے ہوکر پنیرسے بھرپوردو عدد پزا اپنی نگرانی میں بنوا کر لائے کہ کسی حرام چیز کی آمیزش نہ کر دیں تو میرے معدے نے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ جس کے بعد جہاں ممکن ہوا میں نے فرمائش کر کے سبزی اور دال بنوائی۔ خواتین کو بادل ناخواستہ پانچ چھ شاہی ڈشوں کے ساتھ اس فقیر کے لیے ایک فقیری ڈش بھی بنانی پڑ ی۔
میرا خدا اور میری قوم
میں نے اس سفر پر آنے سے قبل اپنے میزبانوں کو مطلع کر دیا تھا کہ ترکی کے سفرکی وجہ سے میں ایک سفرنامہ لکھ رہا ہوں جس کا سلسلہ آسٹریلیا میں آ کربھی جاری رہے گا۔ چنانچہ آسٹریلیا کے سفر میں ہرجگہ تقریریں کرنے ، سوالوں کے جواب دینے ، دعوتیں اٹینڈ کرنے کے علاوہ جو کام میں نے کیا وہ مختلف سیاحتی مقامات کا سفر تھا جس کا انتظام ہر شہر کے میزبانوں نے بھرپور طریقے سے کیا تھا۔اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر سفر کے آخر ی مرحلے میں ایڈیلیڈ کے میزبان عامر نے یہ تبصرہ کیا کہ جتنا آسٹریلیا آپ دیکھ چکے ہیں ، اتنا تو آسٹریلیا میں رہنے والے پاکستانیوں نے بھی نہیں دیکھا ۔
میں سفر تفریح کے لیے نہیں کرتا۔ نہ لکھنے کے لیے سفرنامہ لکھتا ہوں ۔ سفر اس لیے کرتا ہوں کہ اس خدا کو دیکھوں جو اس کائنات میں بیک وقت ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے ۔لکھتا اس لیے ہوں کہ جو خدا کائنات کی ہر شے میں ظاہر ہے ، مگر لوگوں کی نگا ہوں سے مستور ہے ، اسے دوسروں کو دکھا سکوں ۔ضمنی طور پر میری یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہماری قوم بھی ترقی یافتہ اقوام کی طرح آگے بڑ ھے ۔ اس کا طریقہ یہی ہے کہ دوسرے ملکوں کی ترقی سے اپنے عوام کو باخبر کر کے ان میں آگے بڑ ھنے کا جذبہ اور اپنی خرابیوں سے نجات کی تڑ پ پیدا کی جائے ۔ دوسروں کی تحسین اور اپنے رویوں پر ساری تنقید اسی پس منظر میں ہوتی ہے ۔میرا خدا اور میری قوم، یہی میرے سفرناموں کا مرکزی خیال ہوتا ہے ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 34 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں