ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 35
خدا کی قدرت خدا کی جنت
یہاں کا ساحل نیلگوں تھا اور ساحل پر موجود پہاڑ سبزے سے ڈھکے ہوئے تھے ۔ ایک پہاڑ کی گھاس کو دیکھ کر لگا کہ گویا یہ گولف کا کوئی خوبصورت میدان ہو۔میرے لیے یہ بڑ اغیر معمولی لمحہ تھا۔ایک طرف خدا کے جمال کا یہ ظہور اور دوسری طرف اس کی یہ قدرت کہ میں دنیا کے ایک اور براعظم پر موجود تھا۔ میرے سامنے ایک ایسا سمندر تھا جس کا ذکر ابھی تک کتابوں میں پڑ ھا تھا۔وہ سمندرجو ایک طرف زمین کے کنارے یعنی قطب جنوبی پر جما ہوا تھا اور اِس جگہ سرکشی کے ساتھ موجیں ما رہا تھا۔کتنا عجیب اور بے مثل ہے وہ خدا جس نے یہ سب کچھ بنایا ہے ۔
میں نے ایک نظر نیلگوں آسمان اور اس پر تیرتے بادلوں کے ہجوم اور ان سے چھنتی سورج کی روشنی کو دیکھا۔ یہ وسیع و عریض کائنات اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک جہنم ہے ۔ یہاں سرد وتاریک خلا ہیں ۔بے آب و گیاہ چٹانیں ہیں ۔ آگ کی طرح دہکتے ستارے ہیں ۔ زہریلی گیسوں کا مسکن سیارے ہیں ۔ میں اس کائنات کے لیے قاتل کائنات کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں کہ یہ زندگی کی ہر قسم کے لیے موت کا حکم رکھتی ہے ۔ مگراچانک اس کرہ ارضی پر آ کرکائنات کی تمام طاقتیں اپنا رخ بدلتی ہیں اور زندگی کو جنم دینے اور برقرار رکھنے والا ایک نظام بنادیتی ہیں ۔
آگ کا گولہ یعنی سورج اپنی قہر سامانی کو بھول کر روشنی اور حرارت کا ماخذ بن جاتا ہے ۔ زہریلی گیسیں آپس میں مل کر فضائے لطیف بنادیتی ہیں ۔دن اور رات کا متوازن سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ موسم آنے جانے لگتے ہیں ۔درجہ حرارت بالکل معتدل ہوجاتا ہے ۔ہر چیز ویسی ہی ہوجاتی ہے جیسا اسے ہونا چاہیے ۔ پھر انسان کے لیے یہ اس کی ضروریات ہی نہیں ذوق کی تکمیل کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے ۔
ہم ضرورت کے لیے کھانا کھاتے ہیں ۔ مگر اس کھانے کی لذت ہمیں سرشار کر دیتی ہے ۔ ہم زندگی کے لیے سانس لیتے ہیں ۔ مگرکیسی لطیف خوشبوئیں ہمارے وجود کو معطرکر دیتی ہیں ۔ہم اپنے وجود کے تسلسل کے لیے اپنی نسل بڑ ھاتے ہیں ۔ مگر یہ تعلق ہماری احساسات کی دنیا کو لافانی رنگ بھی دے جاتا ہے ۔ یہ چند مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ بنانے والے نے ایک جہنم کے اندر سے انسانوں کے لیے جنت بنادی ہے ۔ دورِ شکار میں اس نے انسان کو جینا سکھایا۔ دورِزراعت میں رہنا بسنا سکھایا۔ صنعتی دور میں اس کی زندگی کو آسائشوں سے بھردیا۔ اور اب اس انفارمیشن ایج میں وہ آخری اور عالمی منادی کر رہا ہے کہ یہ دنیا ختم ہونے والی ہے ۔ ابدی جنت شروع ہونے والی ہے ۔ رب العالمین اگر یہ دنیا بنا سکتا ہے تو وہ دنیا بھی بنا سکتا ہے ۔ کون ہے جو اس کا طلبگار ہے ؟ کون ہے جو اس کے لیے خدا سے سودا کرے کہ وہ ہر خواہش ، تعصب اور مفاد سے بلند ہوکر خدا کا بندہ بنے گا؟
آسٹریلیا کے اس دورے میں ہرجگہ میں نے لوگوں کو قرآن کریم اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں وہی راستہ بتانے کی کوشش کی جو سیدھا جنت میں جاتا ہے ۔مجھے نہیں خبر کہ کتنے لوگ اس پکار کا جواب دیں گے ۔ میں نے برسہا برس میں یہ سیکھا ہے کہ داعی کا کام پہنچانا ہوتا ہے ۔ لوگوں کو بدلنا نہیں ہوتا۔ لوگوں کو بدلنا ہو تو رب العالمین کے ایک اشارے کی دیر ہے ۔ مگر یہ اسے مطلوب نہیں ہے ۔ اسے وہ لوگ چاہئیں جو اپنی مرضی سے اس کے سامنے جھک جائیں ۔ جنت انھی کی وراثت ہے ۔ جنت انھی کی ملکیت ہے ۔
ایک عجوبہ
راستے میں مختلف جگہ رکتے ، کافی پیتے اورعلمی و فکری گفتگو کرتے ہوئے ہمارا سفر جاری رہا۔چھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم منزل مقصود پر پہنچ گئے جو بلاشبہ خدا کی قدرت کا ایک اور نمونہ تھی۔ ساحل سمندر چونے کے پتھروں یالائم اسٹون سے تشکیل پایا ہوا ایک پہاڑ ی سلسلہ تھا۔ مگر جنوبی سمندر کے شدید موسمی اثرات اور تیز و تند ہواؤں نے ہزا رہا برس کے عمل میں چٹانوں کو اس طرح تراشا تھا کہ وہ ساحل کی سمت سے دیکھنے پر بل کھاتی اور آگے پیچھے ہوتی ایک بلند اورہموار دیوار کی طرح نظر آ رہی تھیں ۔
مگر اصل عجوبہ ان سے کچھ آگے پانی کے اندر الگ الگ کھڑ ی وہ عمودی چٹانیں تھیں جو کسی موٹے بے ہنگم ستون کی طرح پانی کی سرکش موجوں اور ساحلی ہواؤں سے نبردآزماتھیں ۔یہ بھی ہزا رہا برس کی وہ کاریگری تھی جسے سمندری ہوا ؤں اور موجوں نے چٹانوں کے کٹاؤ اور تراش خراش کے بعد جنم دیا تھا۔
ساحل سے متصل ایک چٹان آگے نکلی ہوئی تھی جس تک جانے کے لیے بورڈ واک کا ایک راستہ بنا ہوا تھا۔ اس پر جا کر ان تما م چٹانوں کو باآسانی دیکھا جا سکتا تھا۔ہم وہاں گئے اور خداکی اس قدرت کو دیکھا۔ وہاں ایک ہیلی کاپٹر سروس بھی چل رہی تھی جس میں بیٹھ کر فضا سے ان چٹانوں اور ساحلی کٹاؤ کی خوبصورتی کا فضائی جائزہ لیا جا سکتا تھا۔گرچہ وہاں ہوا بہت تیز اور ٹھنڈی تھی، مگر ہم نے جی بھر کے اس منظر کو دیکھا۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 36 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں