سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، سینتیسویں قسط

سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، سینتیسویں قسط
سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، سینتیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وسیم اکرم کے خلاف سینئر کھلاڑیوں کے بیانات خاصے تشویش ناک تھے۔تاہم وسیم اکرم کو یقین تھا کہ ان باتوں کے ٹھوس ثبوت ملے بغیر عدالت اسے سزا نہیں سنا سکتی۔ البتہ ایک خدشہ یہ تھا کہ مخالفین کی دھمکیاں اسے متواتر پریشان کررہی تھیں اس لئے اس نے قانونی لڑائی میں پہلے سے زیادہ تیاری شروع کر دی۔
31دسمبر1998ء کو وسیم اکرم کے خلاوہ انتخاب عالم، سعید انور،سلیم ملک، عامر سہیل، عطاء الرحمن، وقار یونس، عاقب جاوید ،باسط علی ،اعجاز احمد،مشتاق احمد،معین خان اور راشد لطیف کے علاوہ مبینہ بکی سلیم پرویز کو بھی طلب کیا گیا۔راشد لطیف اور سلیم پرویز حاضر نہ ہوئے تو کمیشن نے ان کے وارنٹ جاری کر دیئے۔

سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، چھتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وسیم اکرم نے عدالتی جنگ لڑنے کے لئے ملک کے ماہر قانون دان خواجہ حسن طارق کی خدمات حاصل کی تھیں۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ وہ دلائل کی تیاری کے لئے وقت چاہتے ہیں لہٰذا عدالت نے انہیں16جنوری1999ء کی تاریخ دے دی۔
ایک طرف پاکستان کرکٹ ٹیم عدالتی کٹہرے میں کھڑی تھی اور دوسری جانب ورلڈکپ 99ء کی تیاریاں عروج پر تھیں۔بورڈ سمیت کرکٹ کے تمام حلقے تشویش ظاہر کررہے تھے کہ اگر کمیشن نے اپنا فیصلہ فوری نہ کیا تو ممکن ہے پاکستانی کھلاڑیوں کو مشکوک کردار کی بناء پر ورلڈکپ میں شامل ہونے سے روک دیا جائے۔ لیکن دوسری جانب پاکستان اور بورڈ کی بقاء اور وقار کابھی مسئلہ آن پڑا تھا۔ ان حالات میں بورڈ نے فیصلہ کیا کہ عدالتی فیصلہ آنے تک کھلاڑیوں کو عذاب اور ذلت کی سولی پر لٹکایا نہیں جا سکتا۔ لہٰذا پاکستان کرکٹ بورڈ کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں وسیم اکرم کو ورلڈکپ تک کے لئے کپتان مقرر کر دیا گیا۔ جبکہ اس دوران دورہ بھارت ،شارجہ کپ اور ایشین چیمپئن شپ میں بھی اسے کپتان بنایا گیا جبکہ جاوید میاں داد کوٹیم کا کوچ مقرر کیاگیا۔
بورڈ کے اس فیصلے سے وسیم اکرم کی اہمت اور ذمہ داری بڑھ گئی اسے معلوم تھا کہ اس نازک صورتحال میں اگر اس سے کوئی کوتاہی ہو گئی تو اسے بخشا نہیں جائے گا۔ اس نے دعائیں مانگیں گھر بار میں اس کی نئے امتحان میں سرخروئی کے لئے منتیں مانگی گئیں۔اس نے پریکٹس اور کھلاڑیوں میں بھائی چارے اور ہم آہنگی کو بڑھانے کے لئے دن رات ایک کر دیا۔ان دنوں وہ گھر کو کم اور باہر کے لئے زیادہ وقت دیتا تھا۔ جس سے اس کی طبعیت بھی بگڑی رہتی تھی مگر اس نے کوئی پرواہ نہ کی۔ اس کے معالجین اور اس کی بیوی ہما اس کی مسلسل محنت دیکھ کر کہتے کہ ذرا سنبھل کر چلو۔ مگر وہ کہتا کہ میری زندگی اور موت کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔دعا کرو کہ میں ورلڈکپ جیت کر ثابت کر دوں کہ میرا دامن ہمیشہ صاف رہا ہے۔
یہ دعاؤں کا اثر ہی تھا کہ وسیم اکرم ورلڈکپ تک تمام امتحانوں میں سرخرو ہو گیا۔ دورہ بھارت اس کے لئے نہایت’’ٹف ٹائم‘‘تھا۔ بال ٹھاکرے نے اعلان کر دیا تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم بھارت آئی تو اسے زندہ واپس نہیں جانے دیا جائے گا۔ شیوسینا کے جنونی ہندوؤں نے دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیڈیم پر حملہ کرکے پچ اکھیڑ دی اور اسٹیڈیم کی لائٹس توڑ ڈالی تھیں۔یہ اعصاب کو مختل کرنے والا دورہ تھا۔ وسیم اکرم کو متنبہ کیا جاتا رہا کہ وہ بھارت آیا تو اسے نقصان پہنچایا جائے گا۔جواباً وسیم اکرم نے اچکا کر کہتا کہ اللہ اس کے ساتھ ہے۔دیکھا جائے گا۔
وسیم اکرم نے تمام کھلاڑیوں کا مورال بلند کرنے میں تاریخی کردارادا کیا۔ بھارت کو اس کی سرزمین پر شکست دینا ہمیشہ سے اس کا خواب رہا ہے۔اس بار وہ بھارت کو ذلت آمیز شکست دینے میں کامیاب ہو گیا تو پوری پاکستانی قوم نے اسے پھولوں سے لاد دیا۔ اس نے اپنے تئیں سٹہ بازی کے سارے داغ دھو ڈالے تھے۔مگر مخالفین کو اس کی کامیابیاں کچو کے لگا رہی تھیں۔اسی دوران عامرسہیل نے اعلان کیا کہ وہ وسیم اکرم سمیت کسی بھی ایسے کھلاڑی کی موجودگی میں نہیں کھیلے گا جس پر جوئے کا الزام ہے۔جواباً وسیم اکرم نے کراچی میں میٹ دی پریس کے دوران کہا کہ وہ بے قصور ہے۔کرکٹ بورڈ کے پرانے اور موجودہ عہدیداربعض کھلاڑیوں کو میرے خلاف بھڑکاتے ہیں۔اس کی وجہ حسد ہے۔وہ جسٹس قیوم کی انکوائری سے مطمئن ہے۔
وسیم اکرم 99ء میں مرد بحران اور مرد آہن کے روپ میں منظر عام پر آیا تھا۔ ایک ایسے وقت میں ٹیم کی قیادت اس کے سپرد کی گئی تھی جب زمبابوے ٹیسٹ کے بعد پوری ٹیم کا شیرازہ بکھر گیا تھا مگر وسیم اکرم نے بھارت کے خلاف سیریز جیتنے کے علاوہ تین ملکی ٹورنامنٹ بھی جیت لیا تھا۔

جاری ہے۔ اٹھتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔