مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 55
میں دیگر شہدا اور انبیا کے ساتھ ایک دفعہ پھر اعراف کی بلندی پر کھڑا تھا۔ اس بلند مقام سے میدان حشر بالکل صاف نظر آرہا تھا۔ تاحد نظر وسیع میدان میں لوگوں کو دو گروہوں میں جمع کردیا گیا تھا۔ میدان کے داہنے ہاتھ پر تاحد نظر لوگوں کی صفیں در صفیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ اہل جنت تھے۔ ان کے چہرے روشن، آنکھوں میں چمک اور لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ ان کے لباس بہترین، ان کے دل خوشی سے سرشار اور ان کی روحیں شکر گزاری کے احساس میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ یہ داہنے ہاتھ والے تھے۔ ان داہنے ہاتھ والوں کی خوش بختی کا کیا کہنا!
میدان کے بائیں طرف لوگ ایک ہجوم کی شکل میں گھٹنوں کے بل بیٹھے تھے۔ان کے ہاتھ پیچھے کرکے باندھے گئے تھے اور جہنم کا نظارہ ان کے سامنے تھا۔ یہ اہل جہنم تھے جن کے لیے ابدی خسارے کا فیصلہ سنایا جاچکا تھا ۔ وہ منتظر تھے کہ کب وہ اپنے فیصلہ کن انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے اترے ہوئے، آنکھیں بجھی ہوئیں، پیشانی عرق آلود اور گردن جھکی ہوئی تھی۔ ان کی رنگت سیاہ پڑچکی تھی، جسم پر گرد و غبار اٹی ہوئی تھی۔یہ بائیں ہاتھ والے تھے۔ ان بائیں ہاتھ والوں کی بدبختی کا کیا کہنا تھا۔
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سامنے عرش الٰہی تھا۔ اس کے جلال و جمال کا کیا کہنا! عرش کے اطراف صف در صف فرشتے کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے بیچ میں عرش سے متصل آٹھ انتہائی غیر معمولی فرشتے کھڑے ہوئے تھے۔ یہ حاملین عرش تھے۔ فرشتوں کی زبان پر حمد و تسبیح کے الفاظ جاری تھے۔ جبکہ عرش کے پیچھے قدرے بلندی پر جنت و جہنم دونوں کا نظارہ واضح طور پر نظر آرہا تھا۔ داہنے طرف جنت تھی جس سے اٹھنے والی خوشبوؤں نے حشر کے داہنے حصے کو مہکا رکھا تھا اور وہاں سے بلند ہونے والے نغموں نے دلوں کے تاروں کو چھیڑدیا تھا۔ جنت کی بستی کے حسین ترین مرغزار، سبزہ زار، باغیچے، محلات، نہریں، خدام واضح طور پر نظر آرہے تھے۔ اس جنت کا منظر ہر شخص کی نگاہوں کو للچارہا تھا۔ اہل جنت اپنی خوش نصیبی پر رشک کرتے، اس جنت کی آرزو دل میں لیے ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیاں کررہے تھے۔
دوسری طرف جہنم کا انتہائی بھیانک نظارہ عرش کے بائیں طرف نمایاں تھا۔ آگ کے شعلے سانپ کی زبان کی طرح بار بار لپک رہے تھے۔ جہنم میں دیے جانے والے مختلف قسم کے عذابوں کا نظارہ دلوں کو دہلارہا تھا۔ بدبو، غلاظت، آگ، زہریلے حشرات، وحشی جانور، کڑوے کسیلے پھل، کانٹے دار جھاڑ جھنکار، پیپ اور لہو کا کھانا، کھولتا ہوا پانی، ابلتے ہوئے تیل کی تلچھٹ، ان جیسے ان گنت عذاب اور سب سے بڑھ کر انتہائی بدہیبت اور خوفناک فرشتے جو ہاتھوں میں کوڑے، زنجیریں، طوق اور ہتھوڑے لے کر اہل جہنم کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔
اہل جہنم کی بدحالی پہلے ہی کچھ کم نہ تھی کہ اب جہنم کو انہوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ اس منظر نے ان کی ہمت کو آخری درجے میں توڑ ڈالا تھا۔ وہ وحشت زدہ نظروں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ہر شخص کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ کسی طرح ان کی موت کا فیصلہ سنادیا جائے۔ مگر افسوس کہ جہنم میں ہر عذاب تھا سوائے موت کے۔ کیونکہ اہل جہنم کے لیے موت سب سے بڑی راحت تھی لیکن جہنم مقام عذاب تھا، مقام راحت نہیں۔
اہل جنت و اہل جہنم کے بیچ میں ایک شفاف پردہ تھا۔ جس سے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے اور گفتگو کرسکتے تھے، مگر اس پردہ کو عبور نہیں کرسکتے تھے۔ اہل جنت اہل جہنم سے پوچھتے کہ ہم نے تو اپنے رب کے وعدے کو سچ پایا جواس نے ہم سے کیا تھا۔ کیا تم نے بھی جہنم کے سارے وعدے سچ پائے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے کیے تھے۔ ان اہل جہنم کے پاس جواب میں اعترافاً گردن جھکادینے اور ہاں کہنے کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا۔
وہ بھوک اور پیاس سے بلک رہے تھے۔ اس لیے برابر میں اہل جنت کے سامنے میوے، گوشت کی رکابیاں گردش کرتے اور انھیں جام نوش کرتے دیکھتے تو کہتے کہ یہ پانی اور دیگر غذائیں جواللہ نے تمھیں دی ہیں،کچھ ہمیں بھی کھانے کے لیے دے دو۔ جواب ملتا کہ یہ اللہ نے اہل جہنم پر حرام کررکھی ہیں۔
ہم اوپر کھڑے یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے۔ گرچہ ہمارے فیصلے کا اعلان ایک رسمی سی بات تھی، مگر نجانے کیوں میرا دل ڈر رہا تھا۔ میں اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور درگزر کا سوال کررہا تھا۔ میں دعا کررہا تھا کہ پروردگار ہمیں اہل جہنم کا ساتھی نہ بنا بلکہ اہل جنت میں داخل فرما۔ یہی دعا دوسرے لوگ کررہے تھے۔
یہ میری کیفیت تھی۔ جبکہ بعض دیگر شہدا اس موقع پر شدت جذبات میں آگے بڑھے اور پکار کر اہل جنت کو مبارکباد دینے لگے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آپ پر خدا کی رحمت اور سلامتی ہو۔ اس موقع پر انبیا آگے بڑھے اور اپنی قوم کے کافر سرداروں کو پہچان کر کہنے لگے۔ کہاں ہے آج تمھاری سرداری ، تمھاری جمعیت اور تمھارا گھمنڈ؟ پھر وہ اہل جنت کی طرف اشارہ کرکے کہتے کہ کیا یہ وہی غریب لوگ ہیں جن کو تم حقیر سمجھتے اور خیال کرتے تھے کہ ان کو اللہ کی رحمت سے کوئی حصہ نہ ملا ہے اور نہ ملے گا۔ دیکھ لو آج وہ کس اعلیٰ مقام پر ہیں۔
اسی اثنا میں اعلان ہوا کہ ہمارے انبیا اور شہدا کا نامۂ اعمال انھیں دیا جائے۔ میری توقع کے برخلاف اس موقع پر کوئی حساب کتاب یا پیشی نہیں ہوئی۔ صرف یہ ہوا کہ ہر شخص کو آگے سامنے کی طرف بلایا جاتا جہاں ہر جنتی اور جہنمی اسے دیکھ سکتا تھا۔ وہ شخص اپنے ساتھ موجود فرشتوں کے ہمراہ چلتا ہوا آگے آتا۔ فرشتے انتہائی اکرام کے ساتھ اسے عرش کے سامنے لے جاتے۔ جہاں زندگی میں اس کے کارناموں اور آخرت میں اس کی کامیابی کا اعلان کیا جاتا۔
جس وقت کوئی شخص پیش ہوتا، اس کے زمانے کے سارے حالات، اس کے مخاطبین کی تفصیلات، لوگوں کا ردعمل اور اس کی جدوجہد ہر چیز کو تفصیل سے بیان کیا جاتا۔ سامعین یہ سب سنتے اور اسے داد دیتے۔ آخر میں جب اس کی کامیابی اور سرفرازی کا اعلان ہوتا تو مرحبا اور ماشاء اللہ کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی۔ بعض اہل جنت تالیاں بجاتے، بعض اٹھ کر رقص کرنے لگتے اور بعض سیٹیاں اور چیخیں مار کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔
جب میرا نام پکارا گیا تو ساتھ کھڑے ہوئے سارے لوگوں نے مبارکباد دی۔ میں صالح اور امثائیل کے ہمراہ کنارے پر پہنچا جہاں سے میدان میں کھڑے سارے لوگ مجھے دیکھ سکتے تھے۔ امثائیل نے میرا نامۂ اعمال اٹھا رکھا تھا۔ جبکہ صالح میرے آگے آگے چل رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر میں سر جھکاکر کھڑا ہوگیا۔ آواز آئی:
’’عبدا للہ سر جھکانے کا وقت گزر گیا۔ اب سر اٹھاؤ۔ لوگ تمھیں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
میں نے سر اٹھایا اس طرح کہ میری آنکھوں میں شکر گزاری کے آنسو اور میرے ہونٹوں پر کامیابی کی مسکراہٹ تھی۔ صالح اور امثائیل نے بارگاہ الٰہی سے اذن پاکر میری داستان حیات کی تفصیلات بیان کرنا شروع کیں۔ میں نے میدان کی طرف نظر دوڑائی تو دیکھا کہ میرے خاندان والے، دوست احباب، میرا ساتھ دینے والے بندگان خدا، میری دعوت پر لبیک کہنے والے اہل ایمان، توحید و آخرت کی منادی کو سن کر توبہ کرنے والے مسلمان مرد و عورت سب مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلارہے تھے۔ میں بھی جواب میں ہاتھ ہلانے لگا، مگر میری نظر ناعمہ کو تلاش کررہی تھی۔ وہ اپنے بچوں کے درمیان کھڑی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے مگروہ بھی مسکرارہی تھی۔ اسے جب محسوس ہوا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں تو اس نے شرماکر نظر جھکادی۔ لیلیٰ اس کے برابر میں کھڑی تھی۔ وہ سب سے زیادہ جوش میں تھی اور اپنی کرسی پر چڑھی تالیاں بجارہی تھی۔ جبکہ عارفہ، عالیہ، انور اور جمشید بھی اپنی نشستوں پر کھڑے پرجوش انداز میں ہاتھ ہلارہے تھے۔
(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)