قسط نمبر 65۔ ۔ ۔وہ ناول جو کسی کی بھی زندگی بدل دے

قسط نمبر 65۔ ۔ ۔وہ ناول جو کسی کی بھی زندگی بدل دے
قسط نمبر 65۔ ۔ ۔وہ ناول جو کسی کی بھی زندگی بدل دے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ ایک اور الف لیلوی جگہ تھی۔ میں اس سے پہلے صالح کے ساتھ یہاں کئی دفعہ آچکا تھا۔ مگر ہر دفعہ یہاں نت نئی چیزیں موجود ہوا کرتی تھیں۔ اس جگہ کے لیے شاپنگ سنٹر یا بازار جیسی اصطلاحات قطعاً غیر مناسب تھیں۔ یہ سیکڑوں میل تک پھیلا ہوا ایک علاقہ تھا جو رنگ و نور کے سیلاب سے روشن تھا۔ یہاں رات کا وقت ہی طاری رہا کرتا تھا۔ کھانے پینے، پہننے اور برتنے کی یہاں اتنی اشیا تھیں کہ ان کی تعداد تو دور کی بات ہے، ان کی مختلف اقسام اور ورائٹی ہی کروڑوں کی تعداد میں تھی۔ ہر جگہ یہاں فرشتے تعینات تھے۔ لوگ ڈسپلے سے چیز پسند کرلیتے اور پھر فرشتوں کو نوٹ کرادیتے۔ جس کے بعد یہ چیزیں لوگوں کے گھروں میں پہنچادی جاتیں۔ فرشتے ہر شخص کا ریکارڈ چیک کرکے اس کے بارے میں سب کچھ جان لیتے۔ اس بازار کے دو حصے تھے ایک حصے میں عام جنتی خریداری کرسکتے تھے۔ دوسرا حصہ خواص کے لیے مخصوص تھا۔ عام لوگ یہاں جا تو سکتے تھے، مگر یہاں خریداری کی اجازت صرف اعلیٰ درجے کے جنتیوں کو تھی۔

وہ ناول جو کسی کی بھی زندگی بدل دے...قسط نمبر 64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ سب پہلی دفعہ یہاں آئے تھے۔ میں پہلے انہیں عوام والے حصے میں لے کر گیا۔ یہ لوگ اس کو دیکھ کر ہی خوشی سے پاگل ہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے جو دل چاہا خریدنا شروع کردیا۔ البتہ ناعمہ سارا وقت میرے ساتھ ہی رہی۔ وہ خریداری سے فارغ ہوگئے تو میں نے کہا کہ میں تمھیں کھانا کھلانے لے جاتا ہوں۔ کھانے کے لیے میں انہیں اوپر لے گیا۔ یہاں چھت سے دور دور تک خوبصورت روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ جبکہ اوپر تاروں بھرا آسمان تھا۔ دنیا کے برخلاف جہاں شہر کی روشنیاں تاروں کی چمک کو ماند کردیتی تھیں یہاں زمین و آسمان پر یکساں جگمگاہٹ تھی۔
تاروں کی دودھیا روشنی اور ٹھنڈی ہوا میں کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو نے فضا کو بے حد مؤثر بنارکھا تھا۔ بازار کی طرح یہاں بھی پس منظر میں دھیمی سی موسیقی چل رہی تھی۔ کھانے کی اتنی ورائٹی تھی کہ کسی کو سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کھائیں۔ جو چیز لیتے وہ اتنی لذیذ ہوتی کہ چھوڑنے کا دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ مگر شکر خدا کا کہ یہاں پیٹ بھرنے کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا جس کی بنا پر جب تک دل چاہتا رہا ہم لوگ بیٹھ کر کھاتے رہے۔
واپسی پر میں جان بوجھ کر ان لوگوں کو بازار کے اس علاقے سے لے گیا جہاں صرف اعلیٰ درجے کے جنتی خریداری کرسکتے تھے۔ اسے دیکھ کر ان لوگوں کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ جمشید نے کہا:
’’یہ بھی شاپنگ سنٹر کا حصہ ہے؟‘‘
’’ہاں یہ بھی شاپنگ کا علاقہ ہے۔‘‘، میں نے جواب دیا ۔
میری بات پوری طرح سنے بغیر ہی یہ سب لوگ شاپنگ کے لیے بکھر گئے۔ میرے ساتھ صرف ناعمہ ہی رہ گئی۔
’’کیوں تم کچھ نہیں خریدوگی؟ پہلے بھی تم نے کچھ نہیں لیا اور اب بھی یہیں کھڑی ہو۔‘‘
میری بات سن کر ناعمہ دھیرے سے مسکراکر بولی:
’’میرے لیے سب سے زیادہ قیمتی چیز آپ کا ساتھ ہے۔ یہ انمول چیز آپ کے قرب کے سوا کہیں اور نہیں ملے گی۔‘‘، یہ کہتے ہوئے ناعمہ کا روشن چہرہ اور روشن ہوگیا۔
ہم دونوں ایک جگہ ٹھہر کر خواب و خیال سے زیادہ حسین اس جگہ اور اس کے ماحول کو انجوائے کرنے لگے۔ وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا یہ بازار اپنے اندر ہر قسم کی دکانیں لیے ہوئے تھا۔ ملبوسات، فیشن، جوتے، آرائش، تحائف اور نجانے کتنی ہی دیگر چیزوں کی دکانیں یہاں تھیں۔ ہر دکان اتنی بڑی تھی کہ کئی گھنٹوں میں بھی نہیں دیکھی جاسکتی تھی۔ دنیا کا بڑے سے بڑا شاپنگ سنٹر بھی ان دکانوں کے سامنے کچھ نہ تھا۔ لیکن یہاں کی اصل کشش یہ دکانیں نہیں بلکہ وہ مسحور کن ماحول تھا جو ہر سو چھایا ہوا تھا۔ دل و دماغ کو اپنی طرف کھینچتی چیزوں سے بھری دکانیں، ان میں جگمگ جگمگ کرتی روشنیاں، معطر فضا، خنک ہوا، دھیمی دھیمی موسیقی، خوبصورت فوارے، رنگ و نور کی ہزارہا صناعیاں، طرح طرح کے دیگر ڈیزائنز، دلکش مناظر اور حسین ترین لوگوں کی چہل پہل؛ سب مل کر ایک انتہائی متأثر کن ماحول پیدا کررہے تھے۔ یہاں کا ماحول آنے والوں کی دیکھنے، سننے، سونگھنے اور دوسری ہر اُس قوت پر جس سے اس کا ذہن کوئی تأثر قبول کرتا ہے اس طرح حملہ کررہا تھا کہ اسے گنگ کردیتا۔ دوسروں کے لیے یہ جگہ خریداری کی جگہ تھی جب کہ میرے لیے یہ ذوقِ جمال کی تسکین کا ایک اعلیٰ ذریعہ تھی۔ مگر اس وقت تو ناعمہ کے قرب نے یہاں کے ہر رنگ کو میری نظر میں پھیکا کردیا تھا۔ لیکن ہماری تنہائی کے لمحات بہت مختصر رہے کیونکہ تھوڑی ہی دیر میں لیلیٰ لوٹ آئی اور کہنے لگی:
’’ابو وہ جو ہیروں کا تاج ہے مجھ پر کیسا لگے گا؟‘‘
’’بہت پیارا لگے گا۔‘‘
’’مگر ابو یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ اسے خرید نہیں سکتیں۔‘‘
’’اچھا!‘‘، میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ باقی لوگ بھی منہ لٹکائے لوٹ آئے۔ انور نے کہا:
’’ابو چلیں یہاں زیادہ اچھی چیزیں نہیں ہیں۔‘‘
’’دوسرے الفاظ میں انگور کھٹے ہیں۔‘‘، ناعمہ ہنستے ہوئے بولی۔
’’نہیں یہ انگور اتنے کھٹے بھی نہیں ہیں۔ چلو میرے ساتھ چلو۔‘‘
میں ان سب کو لے کر اس جگہ گیا جہاں فرشتہ موجود تھا۔ میں نے اس سے کہا:
’’میرا نام عبد اللہ ہے۔ یہ میرے بیوی بچے ہیں۔ انہیں جو چاہیے آپ دے دیجیے۔‘‘
فرشتے نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’سردار عبد اللہ! میں معذرت چاہتا ہوں آپ کو خود آنے کی زحمت کرنی پڑی۔ انہیں جو چاہیے یہ لوگ لے سکتے ہیں۔‘‘
ان سب کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور یہ لوگ ایک دفعہ پھر خریداری مشن پر نکل کھڑے ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دربار کا آغاز ہونے والا تھا۔ اہل جنت کے عوام و خواص، درباری و مقربین، انبیا و صدیقین، شہدا و صالحین سب اپنی اپنی جگہوں پر آکر بیٹھ رہے تھے۔ دربار سے قبل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خصوصی دعوت کا اہتمام تھا۔ یہ دعوت ابھی تک ہونے والی سب سے بڑی دعوت تھی جس میں حضرت آدم ؑ سے لے کر قیامت تک کے تمام اہل جنت جمع تھے۔ پانچ جلیل القدر رسولوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس دعوت کی میزبانی کی ذمے داری دی گئی تھی۔ نوح، ابراہیم ،موسیٰ، عیسیٰ علیھم السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس تقریب کے میزبان تھے۔
یہ دعوت ایک بہت بلند پہاڑ کے دامن میں منعقد ہوئی تھی۔ یہ بہت وسیع اور کشادہ میدان تھا جو ایک باغ کی شکل میں پھیلا ہوا تھا۔ یہاں سے دور دور تک پھیلا سرسبر و شاداب علاقہ آنکھوں کو ٹھنڈک دے رہا تھا۔ اس میدان کے بیچ بیچ میں دریا بہہ رہے تھے۔ اس دعوت کا پورا انتظام عرب کی روایات اور عجم کی شان و شوکت کے لحاظ سے ترتیب دیا گیا تھا۔ اسی لیے نشستیں شاہی تخت کی شکل میں تھیں جن پر ہیرے اور موتی جڑے ہوئے تھے۔ زمین پر دور دور تک دبیز قالین اور غالیچے بچھے ہوئے تھے۔ غلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہاتھوں میں شراب کے جگ لیے پھر رہے تھے۔ اہل جنت کو جس قسم کی شراب کی طلب ہوتی وہ نظر اٹھاتے اور یہ غلمان لمحے بھر میں حاضر ہوکر ان کی خواہش کے مطابق جام بھردیتے۔ یہ شراب کیا تھی شفاف مشروب تھا جس میں لذت، سرور اور ذائقہ تو بے پناہ تھا، مگرنشے کی خرابیاں یعنی بدبو، دردسر، عقل کی خرابی وغیرہ کچھ نہیں تھی۔ ساتھ میں مختلف قسم کے پرندوں اور دیگر جانوروں کے گوشت سے تیار کیے گئے لذید کھانے؛ سونے اور چاندی کی رکابیوں میں مسلسل پیش کیے جارہے تھے۔ درختوں کی ڈالیاں پھلوں سے لدی تھیں اور جب کسی پھل کا جی چاہتا وہ ڈالی جھک جاتی اور لوگ اس پھل کو توڑ لیتے۔
زرق برق لباس پہنے حسین و جمیل نوجوان مرد اور عورتیں ہر سمت نظر آرہے تھے۔ ان کے چہرے روشن، آنکھیں چمک دار ،لبوں پر قہقہے اور مسکراہٹیں تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے دنیا کی محفلیں یاد آگئیں جہاں خواتین میک اپ کا تام جھام کیے، خدا کی حدود کو پامال کرتی اور اپنی زینت اور نسوانیت کی نمائش کرتی محفلوں میں شریک ہواکرتی تھیں۔ مرد اپنی نگاہوں کو جھکانے کے بجائے اس نمائش سے اپنا حصہ وصول کرتے تھے۔ اپنی نمائش سے رکنے والی خواتین اور اپنی نگاہوں کو پھیرنے والے مردوں کو کتنی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
مگر اب ساری مشقت ختم؛ میں نے دل میں سوچا۔ یہ محفل حسین ترین خواتین سے بھری ہوئی تھی جن کے لباس اور زیورات اپنی خوبصورتی میں بے مثل اور ہر نظر کو خیرہ کرنے کے لیے بہت تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے قلوب اس طرح پاکیزہ کردیے تھے کہ نگاہوں میں آلودگی اور دلوں میں خیانت کا تصور بھی نہیں رہا تھا۔ ہر مرد اور ہر عورت خوبصورتی مگر پاکیزگی کے احساس میں زندہ تھا۔ اب اپنی زینت کے اخفا کا کوئی حکم تھا اورنہ نگاہوں کو پھیرنے کی کوئی پابندی تھی۔ کتنی تھوڑی تھی وہ مشقت اور کتنا زیادہ ہے یہ بدلہ۔
میرے ساتھ میرے گھر والے اور دور ونزدیک کے احباب کا حلقہ تھا۔ میرے بچے میری دوبارہ شادی کرواکر بہت خوش تھے۔ اسی موقع پر جمشید اورامورہ کی رضامندی سے ان کی شادی کردی گئی اور وہ بھی ہمارے خاندان کا حصہ بن چکی تھی۔ زندگی خوشیوں اور سرشاریوں کی شاہراہ پر ہموار طریقے سے رواں دواں تھی۔ میرے دل میں بس ایک بے نام سا احساس تھا۔ وہ یہ کہ میرے سارے محبت کرنے والے لوگ میرے ساتھ آچکے تھے ،سوائے میرے استاد فرحان احمد صاحب کے۔ ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید میں دربار میں ان سے مل سکوں۔(جاری ہے)

وہ ناول جو کسی کی بھی زندگی بدل دے...قسط نمبر 66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔