مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 45
اگلی شخصیت جسے حساب کے لیے پیش کیا گیا اسے دیکھ کر میری اپنی حالت خراب ہوگئی۔ یہ کوئی اور نہیں میری بیٹی لیلیٰ کی سہیلی عاصمہ تھی۔ اس کی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر تھی۔ اسے بارگاہ احدیت میں پیش کیا گیا۔
پہلا سوال ہوا:
’’پانچ وقت نماز پڑھی یا نہیں؟‘‘
اس کے جواب میں وہ بالکل خاموش کھڑی رہی۔ دوبارہ کہا گیا:
’’کیا تو مفلوج تھی؟ کیا تو خدا کو نہیں مانتی تھی؟ کیا تو خود کو معبود سمجھتی تھی؟ کیا تیرے پاس ہمارے لیے وقت نہیں تھا؟ یا ہمارے سوا کوئی اور تھا جس نے تجھے دنیا بھر کی نعمتیں دی تھیں؟‘‘
عاصمہ کو اپنی صفائی میں پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 44 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کی جگہ فرشتے نے کہا:
’’پروردگار! یہ کہتی تھی کہ خدا کو ہماری نماز کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’خوب! اس نے ٹھیک کہا تھا۔ مگر اب اس کو یہ معلوم ہوگیا ہوگا کہ نماز کی ضرورت ہمیں نہیں خود اس کو تھی۔ نماز جنت کی کنجی ہے۔ اس کے بغیر کوئی جنت میں کیسے داخل ہوسکتا ہے۔‘‘
اس کے بعد عاصمہ سے اگلے سوالات شروع ہوئے۔ زندگی کن کاموں میں گزاری؟ جوانی کیسے گزاری؟ مال کہاں سے حاصل کیا، کیسے خرچ کیا؟ علم کتنا حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا؟ زکوۃ، انسانوں کی مدد، روزہ، حج۔ یہ اور ان جیسے دیگر سوالات ایک کے بعد ایک کیے جاتے رہے۔ مگر ہر سوال اس کی ذلت اور رسوائی میں اضافہ کرتا گیا۔
آخرکار عاصمہ چیخیں مار کر رونے لگی۔ وہ کہنے لگی:
’’پروردگار! میں آج کے دن سے غافل رہی۔ ساری زندگی جانوروں کی طرح گزاری۔ عمر بھر دولت، فیشن، دوستیوں، رشتوں اور مزوں میں مشغول رہی۔ تیری عظمت اور اس دن کی ملاقات کو بھولی رہی۔ میرے رب مجھے معاف کردے۔ بس ایک دفعہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے۔ پھر دیکھ میں ساری زندگی تیری بندگی کروں گی۔ کبھی نافرمانی نہیں کروں گی۔ بس مجھے ایک موقع اور دے دے۔‘‘، یہ کہہ کر وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگی۔
’’میں تمھیں دوبارہ دنیا میں بھیج دوں تب بھی تم وہی کروگی۔ اگر تمھیں ایک موقع اور دے دوں تب بھی تمھارے رویے میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ میں نے اپنا پیغام تم تک پہنچادیا تھا۔ مگر تمھاری آنکھوں پر پٹی بندھی رہی۔ تم اندھی بنی رہیں۔ اس لیے آج تم جہنم کے تاریک گڑھے میں پھینکی جاؤگی۔ تمہارے لیے نہ کوئی معافی ہے اور نہ دوسرا موقع۔‘‘
پھراس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو اس سے پہلے لوگوں کے ساتھ ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاصمہ کا انجام دیکھ کر میری حالت دگرگوں ہوگئی۔ میرے لاشعور میں یہ خوف پوری طرح موجزن تھا کہ اگر اسی طرح میرے بیٹے جمشید کے ساتھ ہوا تو یہ منظر میں دیکھ نہ سکوں گا۔ میں نے صالح سے کہا:
’’میں اب یہاں ٹھہرنے کی ہمت نہیں پاتا۔ مجھے یہاں سے لے چلو۔‘‘
صالح میری کیفیت کو سمجھ رہا تھا۔ وہ بغیر کوئی سوال کیے میرا ہاتھ پکڑے ایک سمت روانہ ہوگیا۔ راستے میں جگہ جگہ انتہائی عبرتناک مناظر تھے۔ ان گنت صدیوں تک میدان حشر کے سخت ترین ماحول کی اذیتیں اٹھاکر لوگ آخری درجے میں بدحال ہوچکے تھے۔ دولتمند، طاقتور، بارسوخ، ذہین، حسین، صاحب اقتدار اور ہر طرح کی صلاحیت کے حاملین اس میدان میں زبوں حال پھررہے تھے۔ ان کے پاس دنیا میں سب کچھ تھا۔ بس ایمان و عمل صالح کا ذخیرہ نہیں تھا۔ یہ پائے ہوئے لوگ آج سب سے زیادہ محروم تھے۔ یہ خوشحال لوگ آج سب سے زیادہ دکھی تھے۔ یہ آسودہ حال لوگ آج سب سے زیادہ بدحال تھے۔ ہزاروں برس سے خوار وخراب یہ لوگ موت کی دعائیں کرتے، رحم کی امید باندھے، کوئی سفارش اور شفاعت ڈھونڈتے ہوئے پریشان حال گھوم رہے تھے۔ کہیں عذاب کے فرشتوں سے مار کھاتے، کہیں بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوتے، کہیں دھوپ کی شدت سے بے حال ہوتے یہ لوگ نجات کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔ اپنی اولادوں کو، اپنے بیوی بچوں کو، اپنی ساری دولت کو، ساری انسانیت کو فدیے میں دے کر آج کے دن کی پکڑ سے بچنا چاہتے تھے۔ مگر یہ ممکن نہ تھا۔ وہ وقت تو گزرگیا جب چند روپے خرچ کرکے، کچھ وقت دے کر جنت کی اعلیٰ ترین نعمتوں کا حصول ممکن تھا۔ یہ لوگ ساری زندگی، کیرئیر، اولاد اور جائیدادوں پر انویسٹ کرتے رہے۔ کاش یہ لوگ آج کے اس دن کے لیے بھی انویسٹ کرلیتے تو اس حال کو نہ پہنچتے۔(جاری ہے)
مقبول ترین ، زندگی بدل دینے والا ناول۔۔۔ قسط نمبر 46 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔