تحریک انصاف کے ایک عہدیدار کا واویلا

مسٹر ملک علی امین گنڈاپور کے ہم جماعت اور میرے کزن ہیں۔ اپنی شناخت ظاہر کرنے سے انہوں نے منع کر دیا ہے۔ خاندانی نام سے آپ انہیں مسٹر ملک کہہ لیجئے۔ ملک کے ننھیال، ددھیال، سسرال سبھی تحریک انصاف کے اسیر ہیں۔2005ء سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ تحریک انصاف برطانیہ اور ایک برطانوی سیاسی جماعت دونوں کے ضلعی عہدیدار ہوکر وہاں کی سیاست میں خوب سرگرم عمل ہیں۔ 2019ء تک وہ عمران خان کے اندھے مداح تھے۔ پھر بتدریج نہیں، یکایک خالص پاکستانی بن گئے۔ایک دن فون پر بولے: ”بھائی جان، برطانیہ میں رہ کر بھی جو شخص کچھ نہ سیکھ سکے، وہ مر کر بھی کچھ نہیں سیکھ سکتا، جناب، تحریک انصاف کے حکومت بناتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سیاست نہیں، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا بین الاقوامی نسخہ ہے“ مسٹر ملک اور میں ہفتے عشرے میں فون پر بات کر لیا کرتے ہیں وہ مجھے نت نئی درجہ اول معلومات دیتے ہیں۔ کایا پلٹنے پر وہ فیس بُک پر اپنے تاثرات لکھتے تو میں انہیں منع کرتا: ”باز آ جاؤ۔ ماریں گے یہ لوگ“ جواب ملتا: ”میں انہی میں سے ہوں، اتنی جرأت کسی میں نہیں“۔
دو دن قبل ملک سے طویل گفتگو ہوئی۔ بھرے بیٹھے تھے، پھٹ پڑے: ”لکھ لیجئے جناب، اب اگر یہ لوگ بچ گئے، کوئی دم خم رہ گیا تو دیگر شرانگیزیوں کے ساتھ یہ لوگ فروری 2025ء میں چیمپئن ٹرافی کے عین میچ والے دِنوں میں پھر فساد کا آوازہ لگائیں گے۔ بھائی شہزاد، میں 2014ء میں کم فہم تھا۔ تب بھی سوچا ضرور تھا کہ ڈی چوک میں 2014 کا غلاظت بھرا دھرنا دیگر کے علاوہ اس بنیادی نقطے کا طواف کر رہا ہے کہ چینی صدر کا دورہ منسوخ کرایا جائے۔ یہی وہ دن تھے جب ملک اقتصادی اڑان کے لئے زقندیں بھر رہا تھا۔ دورہ منسوخ کرا دینے کے باوجود سی پیک پر کام جاری رہا، لیکن بالآخر ووٹ بھرے صندوقوں میں رد و بدل کر کے نا دیدہ ہاتھ انہیں اقتدار میں لے آیا۔ پھر ان کے وزیر شہری ہوابازی کے ایک بیان نے پاکستانی ایئر لائنوں کو یورپ امریکہ میں اجنبی بنا ڈالا۔ پی آئی اے کی اوقات صفر ہو گئی۔ پاکستانی پائلٹ دنیا بھر کی ایئر لائنوں نے گراؤنڈ کر دیے(الحمدللہ گزشتہ کل یورپ کی حد تک یہ پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں)۔
”سچ بتاؤں تو ہم یورپ امریکہ والے نام نہاد بیرون ملک پاکستانی ہیں۔ ہم زکوٰۃ صدقات ہی پاکستان بھیج دیں تو غنیمت ہے، جو کماتے ہیں یہیں خرچ کر دیتے ہیں۔ ہم ملک کو کیا دیتے ہیں؟ بیرون ملک پاکستانی تو وہ مزدور ہیں جو سعودیہ میں ہیں جو اپنی تمام کمائی بھیج کر پاکستان کو تقویت دیتے ہیں۔ تحریک انصاف ویسے تو ابتدا ہی سے سعودیہ پر حملہ آور رہی ہے، لیکن آج اس کے حملوں کی نئی لہر دیکھی جا سکتی ہے۔ طیارے میں عمران خان کی گفتگو سعودیوں نے سنی تو اپناطیارہ واپس بلا کر ”ہمارے وزیراعظم“ نہیں، ہمارے ملک کو بے عزت کر دیا۔ اب نئی لہر میں شیر افضل مروت نے کھلم کھلا یوں الزام لگایا: "رجیم چینج میں امریکہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا ہاتھ بھی ہے،جو کسر باقی تھی، وہ جادوگرنی نے یہ کہہ کر نکال دی:”عمران خان ننگے پاؤں مدینے گئے تو سعودیوں نے جنرل باجوہ سے شکایت کی کہ ہم تو اپنے ملک میں شریعت ختم کر رہے ہیں، یہ تم کیا اُٹھا لائے ہو؟ جناب سعودی عرب پر اتنا بڑا الزام؟ سعودی عرب 27 لاکھ پاکستانیوں کو نکال دے تو اربوں ڈالر کہاں سے آئیں گے؟ 27 لاکھ نئے بے روزگاروں کا ریلا کہاں کھپایا جائے گا؟ سامنے کی بات ہے کہ عمران جس ملک میں گیا وہاں اس نے پاکستان میں پھیلی کرپشن کا ذکر کر کے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان آنے سے روکا“۔
”جناب، ملک ادھیڑنے کا یہ منصوبہ معمولی نہیں ہے۔ ان لوگوں سے پوچھیں کہ امریکہ میں تمہاری لابنگ والی انتہائی مہنگی فرموں کو سالانہ کروڑوں ڈالر کون دیتا ہے؟ اتنی بڑی رقمیں آتی کہاں سے ہیں؟ اور یہ جو ہر تیسرے چوتھے ماہ اس کی رہائی کے لئے چند کانگرس مین پیش پیش ہوتے ہیں، ان میں سے میں کئیوں کو جانتا ہوں۔ ایک(جو صیہونی ہے) کہتا ہے کہ فلسطینیوں کو دنیا سے مٹا دیا جائے۔ وہ شخص عمران کی رہائی کے لئے کیوں تلملا رہا ہے اور عین ان تین دنوں میں کہ جب 9 ارکان اور 17 دیگر ممالک والے دنیا کے سب سے بڑے فورم شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا اعزاز ہمارے حصے میں آیا تو اس نے پھر عین اجلاس کے مقام پر ڈی چوک ہی میں احتجاج کا آوازہ بلند کر ڈالا۔ پوری کوشش کرتا رہا کہ ملک کی لٹیا ڈبوئی جائے، لیکن جرنیلی سرپرستی سے محروم اسے منہ کی کھانا پڑی“
”بائلو روس کے80 رکنی وفد اور ان کے صدر کے دورے کے اعلان کی دیر تھی کہ عین 24 نومبر کو ”دیوتا“ نے اپنی رہائی کے لیے ڈی چوک میں تاحیات دھرنے کا بلاوا دے ڈالا۔ بہت کہا گیا کہ تاریخ بدل دو، ملکی مفاد اور وقار کا خیال کرو، مہمان کیا سوچیں گے، لیکن سابقہ سالے اور وہ بھی صیہونی کی انتخابی مہم چلانے والے اس شخص پر کیا خاک اثر ہوتا؟ سرمایہ حساس ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 80 رکنی غیر ملکی وفد سکڑ کر 75 پر آیا۔ دفتر خارجہ کو دن رات ایک کرنا پڑا، لیکن وفد مزید سکڑ کر 68 افراد کا رہ گیا۔ آفرین ہے، حکومت پر جس نے بلوائیوں کے حملوں کے باوجود غیر ملکی مہمانوں کی خوب پذیرائی کی“۔
24 نومبر کو ان لوگوں نے لندن میں بھی مظاہرے اور دھرنے کا اہتمام کیا، یہاں اب ان کے دو نہیں تین دھڑے ہیں، میں احتجاج میں موجود تھا،چند گز پرے پولیس نے لکیر لگا رکھی تھی کہ اجتماع کرو، بھلے دھرنا دو، لیکن اس لکیر سے ایک انچ پرے قدم نہ رکھنا۔میں نے چند ایک کو کہا کہ ذرا یہ لکیر عبور کر دکھاؤ، جس ملک کی جمہوری روایات کے تم گیت گاتے ہو، وہاں اس کی لگائی ہوئی لکیر کے پرے قدم تو رکھ کر دکھاؤ۔ پاکستانی عدلیہ نے واضح الفاظ میں افراتفری سے منع کر رکھا تھا کہ غیر ملکی مہمانوں نے آنا تھا۔ سرخ لکیر نہیں سارے علاقے کو قانون ریڈ زون کہتا ہے۔ وہیں تم لوگ آتشیں اسلحے لیکر چڑھ دوڑے تو کیوں؟ وہاں قانون کی پابندی کیوں نہیں کی؟“
”بھائی جان، ان ڈھیٹ لوگوں نے کیا جواب دینا تھا لیکن آپ بھی تو کچھ بولیں، آپ کی کیا رائے ہے؟ میں ہی بول رہا ہوں“ میں ملک کو یہی کہہ سکا: ”دیکھو ملک،میں تمہاری تمام باتوں سے متفق ہوں۔ تمہیں اپنا دس سال پرانا قول سنا دیتا ہوں“ مسٹر ملک بولے: ”جی بھائی جان, ضرور“! میں نے کہا: ”بھیا! میرے اکثر احباب میری اس رائے سے واقف ہیں کہ جب تک دیوتا کا سانس باقی ہے، ملک میں امن اور چین کو بھول جاؤ، اس کی زندگی میں ملک کو جھوٹ، افراتفری، راستوں کی بندش اور توڑ پھوڑ سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ خان ہے تو پاکستان نہیں“۔