بے رحم سیاست

بے رحم سیاست
بے رحم سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

2013ء کے عام انتخابات کے لئے پی ٹی آئی اپنے امیدوار فائنل کرچکی تھی۔عمران خان امیدواروں کی لسٹ سامنے رکھے وننگ ہارسز پر نشان لگا رہا تھااور خیالوں ہی خیالوں میں خود کو وزیراعظم تصور کئے بیٹھا تھا کہ ٹی وی دیکھتے ہوئے بریکنگ نیوز دیکھتے ہوئے چونک پڑا ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلنی شروع ہو گئی۔

’’سکندر حیات بوسن نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا،پی ٹی آئی کا ٹکٹ واپس کرنے کا اعلان۔‘‘ کپتان کے لئے یہ شاکنگ نیوز تھی، کیونکہ الیکشنز میں بمشکل ایک ماہ رہ گیا تھا اور اس لمحے کسی طاقتور امیدوارکا ٹکٹ واپس کرنا اس کی پارٹی کی مقبولیت کر نقصان پہنچا سکتا تھا۔
ایجنسیز رپورٹس اور مختلف سروے بتا رہے تھے کہ عام الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اکثریت حاصل کر لے گی اور اگلی حکومت اس کی بنے گی۔ اقتدار و پروٹوکول کے نشے کا سرور چکھنے والے تمام سیاستدان دھڑا دھڑ مسلم لیگ (ن) جوائن کرنے لگے۔سکندر حیات بوسن نے بھی آخری وقت میں پی ٹی آئی چھوڑ کر ن لیگ کا ٹکٹ لے کر کپتان کو زور دار جھٹکا دیا۔

کپتان نے اس حلقہ سے اپنے دیرینہ کارکن ناراض کرکے بوسن کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن بوسن نے اسے ٹھکرا کر کپتان کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔بوسن کے اس ایکٹ سے عوام کے ذہن میں یہ تاثر ابھرا کہ پی ٹی آئی کا ہوم ورک بہت کمزور ہے دوسرا آئندہ حکومت پی ٹی آئی کی بننے کے چانسز نہیں ہیں، اس لئے سدا بہار اقتدار کا پھل چکھنے والے سکندر بوسن اسے چھوڑ گئے ہیں۔

عام آدمی اور سوئنگ ووٹر کے لئے الیکشن کے قریب ایسے واقعات بہت اثر دکھاتے ہیں اور وہ ہوا کا رخ دیکھ کر ووٹ کا ارادہ کرتا ہے۔سکندر بوسن کے اس اقدام سے پی ٹی آئی کی ساکھ کو نقصان پہنچا اور سوئنگ ووٹر کا رحجان اس کی بجائے مسلم لیگ (ن) کی طرف ہوگیا۔

عمران خان کے ذہن میں یہ بات چپک گئی کہ سکندر بوسن نے اس کے ساتھ ہاتھ کیا ہے اور الیکشن کے قریب اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ کپتان نے پانچ سال گزار لئے، لیکن بوسن کے اس ایکٹ کو بھلا نہ پایا۔
25 جولائی 2018ء کے الیکشنز کا اعلان ہوا تو صورت حال تبدیل ہونے لگی۔ پس پردہ طاقتور ہاتھ کپتان کی پشت پر نظر آنے لگے، پرندے اڑانیں بھر کر اس کی منڈیروں پر بیٹھے لگے ۔پاکستان سیاست سے واقفیت رکھنے والے لوگ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اگلی حکومت جس پارٹی کی بنوانی ہو، اس کے لئے سازگار ماحول بنایا جاتا ہے اور جس سے ناراضی ہو اس کو کرپشن، نااہل، اقرباپروری اور سیکیورٹی رسک جیسے الزامات سے اس قدر مطعون کیا جاتا ہے کہ وہ صفائیاں دیتا پھرتا ہے اور الیکشن گزر جاتے ہیں۔

اقتدار پرست سیاستدان اور تھانہ کچہری کی سیاست کرنے والے حلقہ جاتی دھڑے اس صورت حال کو فوراً بھانپ لیتے ہیں اور چھلانگ مار کر اقتدار کی گاڑٰ ی پر سوار ہو جاتے ہیں۔سکندر حیات بوسن کا شمار بھی ایسے ہی جہاندیدہ اقتدار پرست سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کے منہ کو اقتدار کا نشہ اس قدرلگ چکا کہ وہ لوٹا جیسے القابات سے بالکل بھی شرم محسوس نہیں کرتا اور اقتدار کی چھتری کے نیچے پہنچنے میں دیر نہیں کرتا۔
واقفان حال کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کی خصوصی طور پر ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ سکندر بوسن سے رابطہ کرے۔ جہانگیر ترین نے رابطہ کیا توبوسن پہلے ہی تیار بیٹھا تھا کہ اقتدار ایکسپریس کا ٹکٹ لے کر اپنی سیٹ پکی کرلے۔

بوسن فور اًجاتی عمرا کی مریدی چھوڑ کربنی گالہ کی بیعت کرنے پر راضی ہوگیا۔کپتان کو جب یہ خوش خبری ملی تو کپتان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔کپتان کے لئے یہ نہائت اہم لمحہ تھا کہ اس زخم کا حساب برابر کرلے جو 2013ء کے الیکشن سے چند دن پہلے بوسن نے اسے لگایا تھا۔

اب آپ سارے کھیل پر غور کریں اورپچھلے دو ہفتے کے واقعات کا مشاہدہ کریں۔

ملتان کے اس حلقہ سے 2013ء کے عام انتخابا ت سے چند دن پہلے پی ٹی آئی چھوڑکر مسلم لیگ (ن) جائن کرنے کے بعد پی ٹی آئی نے ٹکٹ سلمان قریشی کو دیا ۔ایک ماہ کی کمپین کے باوجود غیر معروف سلمان قریشی چالیس ہزار ووٹ لے گیا۔ سلمان قریشی نے پچھلے پانچ سال اس حلقہ میں اپنی کمپین جاری رکھی ہوئی ہے۔دھرنوں ،لاک ڈاؤن اور تمام جلسوں میں سلمان قریشی سرگرم رہا۔

احمد حسن دیہڑ نے بھی اسی حلقہ سے پی ٹی آئی جائن کرلی۔سلمان قریشی پی ٹی آئی کے وائس چیرمین شاہ محمود قریشی کے قریب سمجھے جاتے ہیں، اس حلقہ سے ٹکٹ کا پہلا حق سلمان قریشی کا بنتا تھا، جنہوں نے پچھلا الیکشن نامساعد حالات میں لڑا اور پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔سکندر حیات بوسن کو ٹکٹ ملنے پر احتجاج اور دھرنے کا حق سلمان قریشی کا تھا، لیکن اگر ایسا ہوتا تو واضح ہو جاتا کہ اس کے پیچھے شاہ محمود قریشی ہیں ،جہانگیر ترین جو کپتان کی خواہش پر سکندر حیات بوسن کو پی ٹی آئی میں ٹکٹ کا وعدہ کرکے لائے تھے، وہ کپتان کے ذریعے شاہ محمود پر دباؤ ڈالواتے کہ وہ سلمان قریشی کو منا لیں اور شاہ محمود کو ایسا کرنا پڑتا،لہٰذا بوسن کو ٹکٹ ملنے کے خلاف دھرنا احمد حسن دیہڑ سے دلوایا گیا، تاکہ جہانگیر ترین کو یہ تاثر نہ ملے کہ اس کے پیچھے اس کے اپنے ہی قائدین کا ہاتھ ہے۔
جہانگیر ترین کے وعدے کے مطابق کپتان نے ٹکٹ سکندر حیات بوسن کو جاری کردیا، لیکن اس کا اعلان پہلے مرحلے میں نہ کیا جان بوجھ کر ٹائم گین کرنے کے لئے اسے لٹکائے رکھا تاکہ سکندر حیات بوسن پُر امید رہے اور( ن) لیگ سے رابطہ نہ کرسکے۔ احمد حسن دیہڑ نے سکندر حیات بوسن کو ٹکٹ دینے پر بنی گالا کپتان کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا دے دیا۔

دھرنے کے دوران کپتان سے اس کی ملاقات بھی ہوئی۔بظاہر یہ تاثر دیا گیا کہ کپتان اسے دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،لیکن اس کے باوجود دھرنا جاری رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ دھرنا پلانٹڈ تھا اور دھرنا جاری رکھوایا گیا تا کہ یہ تاثرپختہ ہو جائے کہ بوسن جیسے پارٹیاں بدلنے والے لوٹے کو پارٹی ورکر قبول کرنے کو تیار نہیں۔بوسن کو اس قدرگندہ کردیا جائے کہ اس کے بعد کوئی پارٹی اس لوٹے کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو۔آخری دنوں میں ٹکٹ لے کر واپس لے لیا جائے، جس سے اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہو۔کپتان اور شاہ محمود قریشی اس کھیل میں ہم آہنگ نظر آتے ہیں، انہوں نے نہائت چالاکی سے یہ کھیل کھیلا اور بوسن کو ادھر کا رہنے دیا نہ ادھر کا۔

ٹکٹ دے کر چند گھنٹوں بعد ٹکٹ واپس لے لیا گیا۔بوسن کی قدآور سیاسی شخصیت کا سارا بھرم ایک ہفتے کے کھیل میں چکنا چور کردیا گیا۔ بوسن نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ اس قدر گندہ ہو گا کہ اسے وہ پی ٹی آئی جس کا ٹکٹ 2013ء میں ٹھکرا کر بڑی رعونت سے (ن) لیگ میں گیا تھا، وہی پی ٹی آئی ٹکٹ کے حصول کے لئے اس قدر ذلیل و خوار کرے گی کہ وہ ادھر کا رہے گا نہ ادھر کا۔۔۔

جہانگیر ترین اس کھیل کو سمجھ گیا کہ اسے استعمال کیا گیا، اس لئے وہ ناراض ہو کر باہر چلا گیا ہے۔شاہ محمود قریشی نے اچانک پینترا بدلا ہے اور جہانگیر ترین کی تعریفیں شروع کر دی ہیں کہ پارٹی کی ساکھ خراب نہ ہو وہ ملتان کی ایک بھاری بھرکم سیاسی شخصیت جومستقبل میں اس کے لئے چیلنج بن سکتی تھی کو بری طرح رسوا کر چکا۔

کپتان اس سارے کھیل کو انجوائے کرر ہا ہے اور اپنی چالوں پر مسکرا رہا ہے کہ اس نے زخم لگانے والے شخص کے غرور کو کیسے خاک میں ملا دیا ہے۔

سکندر حیات بوسن خود کو بہت گھاک سیاستدان سمجھتا تھا۔ پارٹیاں بدلنے اور اقتدار ایکسپریس میں سوار ہوکر پروٹوکول انجوائے کرنے والا سکندرحیات بوسن حد سے زیادہ خود اعتمادی میں مارا گیا، وہ شائد بھول گیا تھا کہ سیاست میں کبھی خود کو چمپئن نہیں سمجھتے کبھی کبھی سیر کو سو ا سیر بھی مل جاتا ہے ۔

مزید :

رائے -کالم -