انسان دوستی کتنی ضروری ہے

          انسان دوستی کتنی ضروری ہے
          انسان دوستی کتنی ضروری ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 پروفیسر ڈاکٹر اختر سندھو آج کل پرنسپل گورنمنٹ اسلامیہ پوسٹ گریجویٹ کالج لاہور تعینات ہیں۔ وہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے فارغ التحصیل ہیں۔ان سے ملاقات ہوئی،دوران گفتگو متعدد تاریخی حقائق زیر بحث آئے۔ ان کے بقول مسلم لیگ سب سے پہلے سر محمد شفیع نے لاہور میں بنائی تھی اور پھر اس کے بعد 1906ء میں ڈھاکہ میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور آگے چل کر دونوں جماعتوں کا ادغام ہو گیا۔ میری معلومات کے مطابق پاکستان کا لفظ سب سے پہلے چودھری رحمت علی نے 1933ء میں استعمال کیا تھا۔ انہوں نے آج بتایا کہ ایبٹ آباد میں اس سے پہلے ایک شخص نے ڈپٹی کمشنر کو ایک اخبار کے ڈیکلریشن کے لئے درخواست دی تھی اور اس اخبار کا نام پاکستان تجویز کیا گیا میرے بھائی پروفیسرڈاکٹر عبدالقادر مشتاق نے مجھے بتایا تھا کہ نثار احمد کسانہ  نے اپنی کتاب”چودھری رحمت علی“ میں تحریر کیا ہے کہ بزم شبلی جس کا اجلاس گورنمنٹ اسلامیہ پوسٹ گریجویٹ کالج لاہور میں 1913ء میں ہوا اور اس اجلاس میں چوہدری مذکور نے ایک پورا منصوبہ پیش کیا اور اس میں پاکستان کا لفظ استعمال ہوا تھا۔ اس پر زیادہ توانائیاں استعمال کرنے کی شاید اب چنداں ضرورت نہیں ہے ہاں ضرورت اِس بات کی ضرور ہے کہ اب پاکستان کو ہم نے آگے لے کر کیسے چلنا ہے۔ نیچرل اور سوشل سائنسز میں فرق ضرور ہے، لیکن سوشل سائنس کی تہذیب و تمدن کے باب میں بوجہ اخلاقیات اہمیت سے انکار ناممکن ہے۔  زندگی دواور دو چار نہیں ہوتی،بلکہ بے شمار مسائل اور مصائب سے دوچار ہوتی ہے اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لئے انسان کو اپنے آپ کو علم سے آراستہ کرنا پڑتا ہے تب جا کر معاشرے میں امن اور سکون کی فضاء قائم کی جا سکتی ہے۔ کاش  تاریخ مسخ نہ کی جاتی اور پھر ہم سب اصل تاریخ سے مکمل طور پر جڑے رہتے اور تاریخ سے سبق سیکھتے تو آج ہمیں نئے نئے سبق نہ پڑھائے جاتے۔ افسوس ایسا نہ ہو سکا اور طاقت کا یہاں بھی مظاہرہ ہوا اور تاریخ کے باب میں بھی من مانی کی گئی اور حقائق کو قلمبند کرنے میں تتر بٹیر کیا گیا حاکم تیتر اور بٹیر کھاتا رہا اور محکوم دھکے کھاتا رہا اور اصل کہانی بتانے والا یا تو خوفزدہ ہو گیا یا پھر اس کی مٹھی گرم کر دی گئی اور یوں اصل کو نقل میں تبدیل کر دیا گیا۔ 

 خیر کا کام کرنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں اپنے یا غیر کی تمیز بھی روا نہیں ہوتی،ہر دور میں بڑے بڑے مخیر حضرات معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنا بھرپورکردار ادا کرتے رہے ہیں اور اپنے ہی ہم جنسوں کی بھلائی کے لئے کام کرتے رہے ہیں۔ لاہور میں جگہ جگہ اس سلسلے میں بنائے گئے ادارے انسانیت کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں،ان اداروں میں سرگنگا رام ہسپتال، گلاب دیوی ہسپتال، دیال سنگھ کالج، سنتا دھرما کالج وغیرہ قابل ذکر ہیں اور اپنے ہونے کا آج بھی ثبوت پیش کر رہے ہیں،اسی طرح انجمن اسلامیہ نے بھی بڑے بڑے ادارے قائم کئے تھے۔  اسلامیہ  کالج مذکور کی بھی ایک تاریخ ہے اور اس  کے تمام کونے کھدرے مستند تاریخ کے شاہد ہیں۔ سب سے پہلے آریہ سماج نے یہاں دیانند اینگلو ویدک سکول کی بنیاد یکم جون 1886ء میں رکھی اور بعد ازاں اس ادارے کا نام 1958ء میں گورنمنٹ اسلامیہ پوسٹ گریجویٹ کالج لاہور رکھا گیا۔ ایک کتبے پر آج بھی لکھا ہے کہ اس کالج کی ڈیزائننگ سر گنگا رام نے کی تھی۔ سر گنگا رام ایک سول انجینئر تھے انہوں نے ہی جنرل پوسٹ آفس، لاہور میوزیم، ایچی سن کالج کی ڈیزائننگ بھی کی تھی ویسے سر مذکور نے پورے پنجاب میں بے شمار کام کئے تھے ایسے تو نہیں سر گنگا رام اگروال کا کام اور نام آج بھی زندہ ہے۔ ایک عمارت ایسی بھی دیکھی،جس کے باہر اس ادارے کی تعمیروترقی میں کردار ادا کرنے والوں کے نام کندہ تھے۔ شاید اس وقت لوگ ڈونیٹ کرکے بھول جاتے تھے۔ افسوس آج لوگ اپنے کاروبار کی مارکیٹنگ کے لئے خیر کا کام کرتے ہیں۔ رنجیت سنگھ کی بیوی اور بہو کی سمادھیاں  اسلامیہ کالج کے عقب میں موجود ہیں، جن کو دیکھ کر بقول پرنسپل مذکور سکھ بھائی آج بھی آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ ایک نیم کا درخت بھی  قائم ودائم ہے جہاں سے بھگت سنگھ نے جان سانڈرس پولیس انسپکٹر پر گولی چلائی  اور انگریز حکومت کے خلاف اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا پھر اسمبلی پر بھی بم دے مارا اور آزادی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان کی قربانی دے دی۔ کالج کے بالکل مخالف سمت میں ایک مزار نظر آیا جو کہ بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی چلہ گاہ بتایا جاتا ہے۔ صوفیاء  نے بھی اپنے اندر کے نفس کو مارنے کے لئے جلوت اور خلوت میں اپنی ”میں“ کو یوں مارا کہ وہ مرنے سے پہلے ہی مر گئے تھے اور ایسی مبینہ جگہیں اور اشیاء مرجع خلائق بن گئیں۔ڈاکٹر سندھو نے بھی تحقیق و جستجو میں خوب ہاتھ پاؤں مارے ہیں،ان کی سوچ متوازن اور انداز فکر مبنی بر حقیقت ہے۔ وہ جو دیکھتے ہیں ان حقائق کو عقل کی بھٹی میں پگھلاتے ہیں اور پھر اس مال کو اصل حالت میں عوام کی عدالت میں پیش کر کے اللہ اور اللہ کی مخلوق کے سامنے سرخرو ہو جاتے ہیں۔ مختصرا ان سے مل کر احساس ہوا کہ ہمارے ہاں بھی دانشور کتنا اہم اور مستند کام کر رہے ہیں،چند لمحوں کی ملاقات میں، میں اور میرے بیٹوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ان کی کتاب ”پنجاب مسلم سکھ سیاست“ میں تاریخ تحریک پاکستان کو سکھوں مسلمانوں اور ہندوؤں کی جدوجہد کے حوالے سے قلمبند کیا گیا ہے۔ سکھ کیا چاہتے تھے اور پھر کیا ہوگیا۔ بنیادی طور پر مذکورہ تینوں اقوام انگریزوں سے آزادی چاہتی تھیں ہاں اس کے بعد کے منظر کے بارے میں ان سب کے 

درمیان اختلاف رائے تھا۔ ہندو تو کھل کر کھیلنا چاہتا تھا اور انگریزوں سے ہندوستان واپس لے کر اس پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا تھا۔ مسلمان کافی سالوں سے ہندوؤں کے ساتھ اکٹھے رہ رہے تھے اور ان کے تعصب اور ذہنی پسماندگی سے پوری طرح آگاہ تھے،جہاں تک سکھوں کا تعلق تھا ان کی ساری دلچسپی پنجاب تک محدود تھی اور وہ پنجاب کی ہی بات کرتے تھے اور ان کی قیادت آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں اختلاف کا شکار ہو گئی۔ماسٹر تارا سنگھ کانگریسی راہنماؤں کی باتوں میں آگیا اور وہ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھا۔ ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو آزاد پنجاب کے خواب دیکھ رہا تھا اور کچھ سکھ راہنماؤں نے قائد اعظمؒ سے ملاقات کی اور اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ سکھ مسلم لیگ کے موقف کی تائید کریں گے اور مسلم لیگی قیادت آزاد پنجاب پر ان کا ساتھ دے گی۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ سکھ آزاد پنجاب میں لاہور، لائلپور، ساہیوال اور ملتان کے کچھ حصے کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے جو کہ مسلم لیگ کے تصور پاکستان کے خلاف تھا۔ لہٰذا سکھوں اور مسلمانوں کی بات آگے نہ بڑھ سکی۔ پھر انگریز نودو گیارہ ہو گئے اور آزاد ہندوستان اور پاکستان معرضِ وجود میں آگیا اور اس کے بعد سکھوں نے مہاجر مسلمانوں کے ساتھ جو حشر کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ غلط فہمی کی وجہ سے کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ امن اور سکھ کی بات کرنے والے بابا گورو نانک کے نام لیوا کیا سے کیا کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ سکھوں اور مسلمانوں میں جو قدر مشترک ہے وہ بابوں کی انسان دوستی ہے۔ ویسے پنجاب کا دیہات ان کا سانجھا ہے اور دیہاتی کلچر ہی پنجاب کا کلچر ہے۔ جہاں میلے ٹھیلے ہیں، پریں پنچائیت ہے،کھیتی باڑی ہے، یاری دوستی پگ وٹانے سے متصل ہے، ایک جیسے من موہ لینے والے لوک گیت ہیں، خوشی غمی کی ایک جیسی رسمیں۔ سانجھے دکھ سکھ  اس کے علاوہ بھی بہت کچھ سانجھا، لیکن ماضی میں اس سانجھ پر حرف آنے والے واقعات پر تف۔ آئیے ایک نئے دور کا آغاز کرتے ہیں اور اپنے اپنے بابوں کی انسان دوستی پر مبنی تعلیمات سے استفادہ کر کے ایک نئے دور کا آغاز کرتے ہیں۔ پگ وٹائیے

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -