درد کی تصویر کی صورت ہے مزدور
درد کو اگر تصویر کی صورت دی جائے تو وہ مزدور بنتا ہے۔۔ اور اگر ہمیں درد کو دیکھنا ہو تو ایک مجبور اور بے کس مزدور کی آنکھوں میں دیکھیں تو آپکو واضح طور پر درد کی ایسی تاثیر نظر آئے گی جو شاید ہے دنیا کا کوئی کیمرہ کیپچر کر سکے۔۔ یہ درد ہر اس ریڑھی بان، ہوٹل پر کام کرتے ، کسی کے گھر کام کرنے والے، دیہاڑی دار ، تپتی دوپہر میں بھٹوں پر خود کو جھلساتے ہوئے ہوئے مزدور میں نظر آئے گا ۔ بس شرط یہ ہے کہ دیکھنے والی آنکھ شناسائی ہو۔۔
بے روزگاری آج سے نہیں ہے نہ ہی مزدور نے آج جنم لیا، یہ تو شروع دن سے ایسے ہی چلتا آرہا ہےلیکن مزدور کبھی اتنا مجبورپہلے نہیں ہوا ۔ کووڈ 19 کے دوران بہت سے لوگ بے روزگار ہوئے لیکن یہ صرف پاکستان میں نہیں ہوا پوری دنیا میں یہ مسائل آئے لیکن سب نے ان مسائل پر قابو پا لیا لیکن پاکستان ابھی تک اس سے باہر نہیں آسکا۔۔
مزدور کی ماہانہ اجرت 32000 حکومتی سطح پر مقرر ہوئی یہ ان مزدوروں کیلیے ہے جو ہوٹلز، دکانوں ، ڈرائیورز وغیرہ ہیں اس کے علاوہ بھٹے پر کام کرنے والوں کی یومیہ 1000 اینٹوں کی اجرت تقریباً 2400 روپے ہے، لیکن کبھی کسی کو اسکی پوری اجرت نہیں ملی، اس کے علاوہ کپڑے کے یونٹس پر کام کرنے والوں کو بھی ایک سوٹ کی سلائی تقریباً 40 سے 50 روپے ملتی ہے جبکہ یہی سوٹ اگر باہر کسی درزی کے پاس سلائی ہو تو ایک سوٹ کی سلائی ہزاروں میں ہو گی اور یہ سوٹ جو 40 سے 50 روپے میں سلائی ہو کر جاتا ہے بڑے بڑے برانڈز پر یہ ہزاروں میں سیل ہوتے ہیں پھر اس کو سلائی کرنے والے مزدور کی اجرت اتنی کم کیوں؟؟؟
ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ایک کام کے سلسلے میں واپڈا ٹاؤن گول چکر کے پاس جانا ہوا وہاں لائن میں درجنوں لوگ بیٹھے تھے کسی نے ہاتھوں میں پینٹ بریش اٹھا ئے ہوئے تھے، کسی نے بھالا اٹھایا ہوا تھا ، کسی نے پینٹ کی پالٹی اور دیگر اوزار ۔۔ دیکھتے دیکھتے وہاں ایک گاڑی رکی تمام مزدور پڑی آس لے گر اس کے پاس گئے شاید ہمیں کام مل جائے لیکن نہیں ان کا امتحان ابھی باقی تھا جتنی تیزی سے اور امید سے وہ ادھر گئے اپنے ہی نا امید ہو گر واپس لوٹے ہماری وہاں کے کچھ لوگوں سے بات بھی ہوئی ان میں ایک بابا جی تھے جو 2 ہفتوں سے روز اس آس پر آتے تھے کہ شاید آج کوئی کام مل جائے لیکن روز مایوس ہو کر شام کے سائے ڈھلتے ہی مایوسیوں کو سمیٹے گھر کی راہ لیتے ،
انکا گھر کا کرایہ اور بل ادا نہیں ہوا تھا جس وجہ سے میٹر کٹ گیا، اور اب مالک مکان نے مکان خالی کرنے کا کہہ دیا وہ روز اس امید سے گھر سے نکلتے کہ شاید کچھ کام بن جائےاور روز رات کے سائے کے ساتھ ہی امیدیں بھی دم توڑ جاتی۔۔ ایک بزرگ نے ساری زندگی لگا دی لوگوں کے گھر بناتے بناتے لیکن اسے خود کا گھر نصیب نہیں ہوا گھر تو دور اپنی جوان بچیوں کی شادی تک نہیں کر سکے کیونکہ اچھا رشتہ تو امیروں کی قسمت میں ہوتا ہے بابا جی کی باتوں میں اور آنکھوں میں ایسا قرب تھا کہ ہماری آنکھیں بھی نم ہو گئی یہ صرف مزدور کی کہانی نہیں وہاں بیٹھے کسی بھی شخص کی کہانی اس سے مختلف نہیں تھی وہاں موجود ہر شخص اپنے اندر ایک طوفان چھپائے ہوئے تھا جو لفظوں سے نہ بھی بیان ہو لیکن لہجوں اور آنکھوں سے اپنی داستان ضرور سنا رہا تھا۔
میں چونکہ ایک ادارے سے منسلک ہوں اور میرا مختلف جگہوں پر جاناہوتا ہے او رلوگوں کو جاننے اور ان سے بات کرنے کا موقعہ ملتا ہے اس لیے ان سے مل کر کئی سوالات جنم لیتے ہیں جنہیں لفظوں کی شکل میں بیان کرنا آسان ہے تاکہ یہ معاملات سب کو پتہ چلیں اور جس قدر کسی سے ہو سکے انکی مدد کریں صرف چھٹی منانے سے، ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھانے سے لیبر ڈے نہیں منایا جاتا ان کے حقوق ملنے چاہیے، ان کے لیے آواز بلند کریں ان کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام کرنے چاہیے پھر ہی مزدور کو اسکے حقوق ملیں گے پھر ہی لیبر ڈے کا حق ادا ہو گا خالی نعرے لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
اگر کام کرنا ہے تو ان بھٹہ مزدوروں کے لیے کرو جو سالوں غلامی کر کے بھی غلام ہیں، اگر کام کرنا ہے تو ان بچوں لے لیے کرو جو موٹر سائکلوں کی دکانوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں کہ گھر والوں کے لیے روزی کما سکیں ، اگر کام کرنا ہے تو ان لوگوں کے لیے کرو جو دن رات کام کر کے بھی اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے ۔
نام نہاد NGO بنا کر کونسا میدان فتح کر لیا جب اپنے ہی ملک میں مزدور کے حقوق کی پامالی نہیں روک سکتے ، آئے دن غربت سے تنگ آگر لوگ خودکشی کر رہے ، بچوں کو مار دیتے ، یا بچوں کو بیچنے پر مجبور ہو جاتے یہ کون لوگ ہوتے ہیں ؟ یہ وہی مزدور ہوتے ہیں جو مجبور ہر کر یہ اقدام اٹھاتے ہیں ۔۔ حکومت خاموش تماشائی بنی کیوں یہ تماشا دیکھتی ہے؟ اس وقت کیوں سوئی ہوتی یہ حکومت یہ ادارے جب ایک مزدور بچوں کو کھانا نہیں کھلا پاتا، انہیں سکول نہیں بھج سکتا، انہیں اچھی زندگی نہیں دے پاتا گھر کے اخراجات نہیں پورے کر پاتا اور آخر کار موت کی آغوش میں چلا جاتا ہےپھر چار دن ہیڈ لائنز چلتی ہیں خبروں میں تزکرے ہوتے ہیں سب اپنی اپنی سیاست چمکاتے ہیں اور پھر گہرا سکوت۔۔۔
کبھی بھٹوں پر کام کرتے ان مزدوروں سے جا کر پوچھا ہے کہ وہ کس حال میں جی رہے ہیں؟؟؟ اتفاق سے کچھ بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں سے اور ان کی فیملیز سے ملاقات ہوئی ان میں سے ایک آدمی 40 سال سے وہاں غلامی کی زندگی جی رہا تھا ۔ اس کے باپ نے قرض لیا تھا جس کو اتارنے کیلیے وہ لوگ بھٹا مالک کے کہنے پر وہاں آکر رہنے لگے کہ جب قرض اترے گا تو آپ جا سکتے۔۔ وہ قرض تو نہیں اترا اسکا باپ دنیا فانی سے رخصت ہو گیا اور وہی قرض اسکا بیٹا اتار رہا ہے وہ اتارتے اتارتے بیٹا بھی 38 سال کا ہو گیا اور اب بیماری کے باعث اس قرض کو اتارنے کی کوشش اس کے بیوی بچے کر رہے ہیں جو کہ شاید ہی کبھی ختم ہو۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔