"پلیز مجھے معاف کردیں"
کوئی شخص رعونت بھرے لہجے میں ہاتھ کے اشارے سے دھتکارتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ get out اور اس کے بعد شور مچ گیا. میں اس وقت ہال سے باہر موجود تھا، بھاگم بھاگ ہال میں پہنچا تو آگے ہاہاکار مچی ہوئی تھی. کچھ لوگ گھسیٹ کر چند نوجوانوں کو ہال سے باہر نکالنے میں مصروف تھے. یہ منظر دیکھ کر پہلے تو میں ڈر گیا کہ شاید خدانخواستہ کسی دھشت گرد کو پکڑ لیا گیا ہے اور اس کو گرفتار کرکے لیجایا جارہا ہے لیکن کچھ تگ و دود کے بعد معلوم ہوا کہ یہ نوجوان عاصمہ جہانگیر کنونشن 2024 کے سیشن "عدلیہ کا کردار برائے حفاظت شہری حقوق" میں انسانی حقوق کے عنوان پر لیکچر دیتے جرمن سفیر مسٹر الفریڈ گراناس سے فقط ایک سوال کرنے کی گستاخی کرچکا ہے. ان نوجوانوں کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی بھی تھی جس نے فلسطینی جھنڈے نما اسکارف اوڑھ رکھا تھا. اس لڑکی کو خاتون ہونے کی استثناء بھی نہ ملی اور گھسیٹ کر باہر پھینک دیا گیا.
ہوا کچھ یوں کہ جرمن سفیر ساؤتھ ایشیاء کے شہری حقوق کی حفاظت کی بابت تشویشناک پہلو پر گفتگو کررہے تھے اور انسانی حقوق کی بات کررہے تھے تو اس دوران ایک نوجوان اٹھا اور اس نے جرمن سفیر کو مخاطب کرکے کہا : ’معاف کیجیے گا مسٹر سفیر۔ میں آپ کی اس دلیری پر حیران ہوں کہ آپ یہاں شہری حقوق کی بات کرنے آئے ہیں جب کہ آپ کا ملک فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرنے والوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کر رہا ہے۔‘
اس تبصرے پر کانفرنس ہال میں لوگوں نے تالیاں بجائیں اور ’آزاد فلسطین‘ کے نعرے لگائے۔
نوجوان کا کہنا تھا کہ جرمن سفیر کی اس کانفرنس میں شرکت سے محض 24 گھنٹے پہلے جرمن پارلیمنٹ کے سامنے فلسطینیوں کے حق میں لگائے گئے ایک احتجاجی کیمپ کو اکھاڑا گیا اور بدترین کریک ڈاؤن کرتے ہوئے متعدد لوگوں کو زخمی کیا گیا اور متعدد لوگوں کو گرفتار کیا گیا.نوجوان کا موقف یہ تھا کہ جرمن سفیر ہمیں انسانی حقوق پر لیکچر دے یہ خوش آئند بات ہے لیکن دوسری طرف وہ اپنے ملک کی بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی جنگ کے سوال پر بھی جواب تو دے کہ وہ کیوں نہتے فلسطینیوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیل رہے ہیں؟
جرمنی اسرائیل کے ساتھ مل کر ان لوگوں کی نسل کشی کررہا ہے، ان کی لاشوں کے ڈھیر لگا رہا ہے، انکے ہسپتال اور یونیورسٹیوں کو تباہ کردیا گیا ہے، انکے معصوم اور ننھے بچوں کو ہزاروں کی تعداد میں شہید کردیا گیا ہے، ان کی عورتوں کی عصمت دری کے ساتھ ساتھ تکہ بوٹی کیا جارہا ہے.کیا ان انسانی کے حقوق نہیں ہیں یا پھر یار لوگ ان کو انسان نہیں سمجھتے؟
ان نوجوانوں کو جب ہال سے باہر نکال دیا گیا تو ان کے پیچھے فورا بھاگی بھاگی منیزے جہانگیز پہنچیں جو عاصمہ جہانگیز کی بیٹی اور معروف اینکر پرسن بھی ہیں.
انہوں نےآتے ہی ان بچوں کے آگے ہاتھ جوڑ دیے اور کہنے لگیں کہ "پلیز مجھے معاف کردیں"، "ہم اگلے سال یہ کانفرنس کروانے کی جرات نہیں کریں گے"، "ہم اگلے سال اس کو بند کردیں گے"، "آپ میری عزت کی لاج رکھیں پلیز ایسے نا کریں". ہم اگر کوشش کررہے کہ کوئی آواز اٹھتی رہے تو آپ پریشان نا ہوں ، اب ہم بند کردیں گے.
منیزے جہانگیر کے ان جملوں نے ان نوجوانوں کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے آگے بڑھ کر فوراً منیزے کے ہاتھ تھام لیے اور ان سے معذرت کرکے کہا کہ ہمارا یہ ہرگز مقصد نہیں ہے اور نا ہم اس کانفرنس کو کسی قسم کا نقصان پہنچانا چاہتے ہیں،البتہ جرمن سفیر سے ہم سوال کرنا ہمارا بنیادی انسانی حق ہے اور اس سیشن میں تو بات بھی انسانی حقوق کی ہی ہورہی ہے.
اس پر منیزے جہانگیر نے انہیں بتایا کہ ہم نے اس عنوان پر پورا ایک سیشن رکھا ہے جس کا عنوان ہی "غزہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی" ہے. منیزے نے بتایا کہ کیسے انہوں نے فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کرنے کی کوشش کی اور کیسے کچھ لوگوں کے لیے محنت کرکے ویزے حاصل کیے.
ان بچوں نے اس بات پر منیزے جہانگیر کے ساتھ نہایت تحمل سے بات کی اور منیزے جہانگیر نے بھی ان بچوں سے فقط اتنا اختلاف کیا کہ آپ لوگوں کا سوال کرنے کا طریقہ کار غلط تھا کیونکہ بطور منتظم ان کے لیے اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے کیا کیا چیلنجز تھے یہ انہوں نے انگلی پر گن گن کر بتائے.
بچوں نے البتہ ایک اور شکوہ کیا کہ اگر آج عاصمہ جہانگیر زندہ ہوتی تو ان کے ساتھ ہرگز ایسا نا ہوتا اور نا انکی آواز دبانے کی کوئی جرات کرتا.
جرمن سفیر کے اس رویے نے البتہ انہیں بہت سی نظروں میں چھوٹا کردیا کہ جس میں ایک نوجوان طالب علم کے سوال کو برداشت کرنے کی جرات نہیں تھی اور بعد میں وہ ہر طرف مجھے اکیلا گھومتا ہی نظر آیا. چند احباب کے سوا اسے کسی کو منہ لگاتے نہیں دیکھا.
ایک سیشن میں تو وہ سیشن ختم ہونے کے بعد بھی کتنی ہی دیر تک بیٹھا رہا اور اس سیشن کی مہمان اسپیکر خواتین کے ساتھ سیلفی لینے والوں کی لمبی قطاریں تھیں لیکن کسی ایک کو بھی میں نے جرمن سفیر کے ساتھ گفتگو کرتے نہیں دیکھا اور وہیں پر بالکل اکیلے بیٹھ کر اکتاہٹ محسوس کرتا صاف دکھائی دے رہا تھا.
بعدازاں وہ اٹھا اور باہر کسی اور سیشن کی جانب چلا گیا.
گزشتہ سال ایک مہمان اسپیکر کے ساتھ ہال میں آئے لوگوں نے ریاست مخالف نعرے بازی کی تو تب اسٹیج پر اس وقت کے وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ اور بلاول بھٹو بھی موجود تھے. اگلے ہی روز اعظم نزیر تارڑ کو استعفیٰ دینا پڑا جبکہ آصف علی زرداری نے بھی اپنے بیٹے کی بابت اپنی پوزیشن واضح کی.
اس سال کانفرنس میں شریک ہونے والوں کے لیے انتہائی سخت پالیسی اپنائی گئی کہ کسی ایک شخص کو بھی اسکے قومی شناختی کارڈ کے اندراج کے ساتھ رجسٹریشن کے پراسس کے گزرے بغیر شرکت کی اجازت نا ملی.
ایک گیٹ سے معروف اور سینیئر صحافی افتخار احمد صاحب شریک ہورہے تھے تو انہیں روک کر رجسٹریشن کارڈ دکھانے کے لیے کہا گیا جس وہ سیخ پا ہوگئے اور دروازے پر کھڑے گارڈ کو جلی کٹی سنانے لگ گئے. وہ فرما رہے تھے کہ آپ مجھے جانتے نہیں ہو، آپ کو کس نے یہاں کھڑا کردیا ہے، آپ کو بندے کی پہچان تک نہیں ہے.
اس سال ریاست مخالف نعرے بازی اور اس قسم کی کسی سرگرمی پر قابو پانے کے لیے پالیسی واضح نظر آئی.شرکاء میں 80 فیصد مجھے نوجوان نظر آئے جن میں زیادہ تعداد نوجوان لڑکیوں کی تھی. محترمہ مہناز اکبر عزیز صاحبہ کے بار بار خصوصی حکم پر میں پہلی دفعہ اس کانفرنس میں شریک ہوا جس کے بارے میں مزید انشاءاللہ اگلے کالم میں لکھوں گا.
۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔