سابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے پہلے شہری ہیں جن کو مڈل ٹیمپل کے بینچز بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔وہ اس تعلیمی ادارے کے سابق طالب علم ہیں، ان کی منصفانہ خدمات اور اہمیت کے اعتراف میں ان کو یہ مرتبہ ملا ہے۔ انسٹیٹیوشن کی طرف سے کافی دیر پہلے یہ طے کر دیا گیا تھا تاہم قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر تقریب ان کی ریٹائرمنٹ تک روک لی گئی تھی، تین روز قبل یہ تقریب منعقد ہوئی جس سے قاضی فائز عیسیٰ نے خطاب بھی کیا۔ وہ جب ریٹائرمنٹ کے اگلے روز براستہ دوبئی لندن روانہ ہو گئے تو سوشل میڈیا والوں نے ان کی بھد اڑانا شروع کر دی تھی اور ملک سے فرار قرار دیا تھا لیکن ان کے لندن پہنچنے کے بعد ان کو دم سادھنا پڑا کہ بات کھل گئی تھی۔ قاضی فائز عیسیٰ کو سابق چیف جسٹس ہونے کی حیثیت سے پاکستان ہائی کمشنر نے مہمان نوازی کی اور وہیں سے وہ انسٹی ٹیوٹ کی تقریب کے لئے روانہ ہوئے، ہائی کمیشن کی طرف سے ان کو گاڑی بھی دی گئی تھی۔
ایسا احساس ہوتا ہے کہ برطانیہ میں مقیم مرشد کے چاہنے والوں کو یہ بھی برداشت نہ ہوا کہ قاضی فائز عیسیٰ ہی کی صورت میں سہی لیکن یہ اعزاز پاکستان کی توقیر کا بھی باعث ہے۔ چنانچہ مریدوں نے اخلاق کی حدود پار کرتے ہوئے نہ صرف ہائی کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاج کیا، نعرے لگائے بلکہ قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی پر حملہ بھی کر دیا جو ہائی کمیشن کی تھی۔ قاضی فائز کو تو گاڑی میں ہونے کے باعث کوئی نقصان نہ پہنچا تاہم کار یقینا متاثر ہوئی۔ یوں بھی یہ مریدین دیوانوں کی طرح کار کے پیچھے پیچھے بھاگتے نظر آئے۔ ان حضرات کی اس حرکت کو کسی بھی سطح پر اچھا نہیں جانا گیا، لیکن یوتھیئے بڑے خوش اور مطمئن ہیں کہ اس طرح احتجاج کرکے سابق چیف جسٹس کی توہین کی گئی ہے، عام شہری اور سنجیدہ فکر حلقوں نے اس عمل کو پسند نہیں کیا لیکن تحریک انصاف کو فخر ہوا ہے کہ یہاں ان کے رہنما وقاص اکرم شیخ نے کھلم کھلا مظاہرین کی حمائت کی اور یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ وزیرداخلہ یا وزارت داخلہ کو کسی پاکستانی کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ منسوخ کرنے کا اختیار ہی نہیں۔
اس سلسلے میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمیشن نے سخت احتجاج کیا اور مظاہرین میں سے حملہ آوروں کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کرانے کا اعلان کیا ہے،جونہی حکومت پاکستان کی طرف سے گرین سگنل ملا۔ ایسا ہوجائے گا اور قریباً نو افراد اس کی زد میں آئیں گے جن میں نمایاں نام زلفی بخاری کا ہے۔
جہاں تک قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنا عہد خوب نبھایا اور مجموعی طور پر ان کو سراہا گیا ہے، یوں بھی ان کا پس منظر اور خود ان کا اپنے خلاف ریفرنس میں کھڑے ہونا بھی قابل تعریف کہلایا،لیکن تحریک انصاف کو وہ اس وقت سے دکھنے لگے تھے جب ان کی قیادت میں سپریم کورٹ نے انتخابی نشان کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا، اس کے بعد سوشل میڈیا پر انصافیوں نے جو ٹرولنگ کی اس سے بھی اللہ کی پناہ مانگنا چاہیے اور اب انہوں نے ایک بیرونی ملک میں تماشہ کر دکھایا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ احتجاج کرنے والے حضرات اتنے بے خوف و نڈر ہیں کہ اپنی کارکردگی کی خود ہی ویڈیو بناتے اور ان کو شیئر بھی کرتے ہیں اور یوں اب اگر سکاٹ لینڈ یارڈ میں شکائت درج ہوئی تو ان کو خود انہی کی ویڈیوز سے بھی ثبوت حاصل ہو جائیں گے۔ ان احتجاج کرنے والوں پر ہی بس نہیں بلکہ خود عمران خان ریکارڈ پر ہیں کہ وہ مسلسل اعتراض کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ قاضی صاحب تحریک انصاف کے تمام مقدمات سے الگ ہوجائیں اور جب انہوں نے درخوراعتنا نہ جانا پھر ان کی ایسی ایسی ٹرولنگ ہوئی کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
تحریک انصاف کے وہ حضرات جو سابق سربراہ عدلیہ کے بارے میں یہ سب کچھ کرتے ہیں ان کو قاضی محترم کے حوصلے کی بھی داد دینا چاہیے کہ انہوں نے اختیارات ہوتے ہوئے بھی کبھی توہین عدالت کا استعمال نہ کیا بلکہ اعلان کیاکہ ان کو جو مرضی کہتے رہیں وہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ انہوں نے نہ ایسا کیا اور نہ ہی از خود اختیارات کا استعمال کیا بلکہ وہ ایسے سربراہ تھے جنہوں نے سپریم کورٹ میں بھی جمہوریت نافذ کی اور اپنے اختیارات سہ رکنی کمیٹی کے سپرد کر دیئے جو اب ایک قانون بن چکا اور ان کی روایت قائم ہے اگرچہ ان دنوں موجودہ چیف جسٹس کے حالیہ اقدام کو بہت سراہا جا رہا ہے کہ انہوں نے سابقہ کمیٹی بحال کر دی۔ یہ حضرات بھول جاتے ہیں کہ قاضی صاحب نے تو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے نہیں نکالا تھا، خود جسٹس منصور علی شاہ نے خط لکھ کر انکار کر دیا اور جسٹس منیب اخترخاموشی سے انکارکر چکے تھے۔ موجودہ چیف جسٹس نے تو وہ کمیٹی بحال کی اور اب سید منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر اس میں کام کرنے کو تیار ہو گئے، میں بصد احترام گزارش کروں گا کہ جسٹس منصور شاہ جو قابل احترام اور اہل جج ہیں اپنے خطوط کے مطابق سابق سربراہ کے خلاف تو احتجاج کرتے رہے لیکن اب سینیارٹی کے باوجود الجہاد ٹرسٹ کی بجائے 26ویں ترمیم کے مطابق جو تقرری ہوئی اس سے ان کو کوئی دکھ نہیں پہنچا۔
ان حالات کے حوالے سے اکثر سنجیدہ حضرات جن میں سے متعدد کا تعلق آئین و قانون کی مہارت سے یہ خیال کرتے ہیں کہ دراصل 12 جولائی کا وہ فیصلہ جو آٹھ فاضل جج حضرات کی طرف سے متفقہ بنایا گیا وہ ثابت کرتا ہے کہ وجوہات کیا ہیں کہ اس فیصلے سے صرف تحریک انصاف کو اطمینان اور خوشی ہوئی لیکن آئینی ماہرین کو حیرت کے جھٹکے لگے اور انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ اس فیصلے میں فاضل اکثریتی جج حضرات نے ایسی ریلیف بھی دی جس کے لئے استدعا ہی نہیں کی گئی تھی اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی تمام غلطیوں پر پردہ ڈال دیا جو ان سے آزاد اراکین کو سنی اتحادمیں شامل کرنے سے ہوئیں اور وہ خود بھی پارٹی نہ بنے، یہی وجہ ہے کہ اب تک مخصوص نشستوں کا معاملہ لٹکا ہوا ہے اور تحریک انصاف برہم اور غصہ میں ہے اور یہی رنج اور غصہ قاضی صاحب پر نکالا جا رہا ہے، حالانکہ اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں زیر التواء ہیں اور ان کا فیصلہ پہلے ہونا چاہیے تھا، اس کے بعد ہدائت نامے جاری ہوتے، دوسری طرف حکومت نے بھی گھبراہٹ کا مظاہرہ کیا اور 26ویں آئینی ترمیم لے آئی جس کے لئے پاپڑ بھی بیلنا پڑے۔
میں صدق دل سے تصور کرتا ہوں کہ اس ملک کو جتنا نقصان پڑھے لکھے حضرات اور عالموں نے پہنچایا وہ کسی سے نہیں ہوا، عوام بے چارے تو مظلوم ہیں ان سب کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے، چلتے چلتے قاضی فائز سے بعض معتبر اور سینئر وکلاء کی پرخاش بھی سمجھ میں آتی ہے جو بیان کر وں کہ قاضی صاحب کی طرف سے لائیو سٹریم کے باعث جو وکلاء ایکسپوز ہوئے ان کو وہ کیسے اچھے لگیں گے۔